نوجوت سدھو کو بھارت میں پڑتے جوتے


عمران خان نے پاکستان کی وزارتِ عظمی کا حلف اٹھانے کی تقریب میں اپنے پرانے دوستوں کو یاد رکھا۔ وہ پرانے ذاتی دوست بھی مدعو کیے گئے جو تحریک انصاف کی سیاست کی چمک دمک میں کہیں کھو گئے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ عمران خان نے ان بھارتی شہریوں کو بھی مدعو کیا جو کرکٹ کے میدان میں تو ان کے حریف تھے لیکن اس سے باہر ان کے دوست۔

جب ہم پاک بھارت میچوں میں دیکھا کرتے تھے کہ عمران خان قہر و غضب کے دیوتا بنے دوڑے چلے آ رہے ہیں اور انہوں نے بازو گھما کر گولی کی سی رفتار سے گیند پھینکی ہے تو ہمیں یہ یقین ہو جاتا تھا کہ سامنے کرکٹ کا دھوپ سے بچانے والا سفید ہیٹ پہنے کھڑا سنیل گواسکر دہشت سے تھر تھر کانپ رہا ہے۔ گواسکر چاہے ڈبل سینچری بنا لیتا مگر ہمیں اپنے فاسٹ باؤلر پر کامل یقین تھا کہ دہشت اسی کی ہے۔ نمایاں بھارتی کھلاڑیوں میں گواسکر، سری کانت، نوجوت سدھو اور خاص طور پر کپیل دیو شامل تھے۔ کپل دیو عمران خان سے کہیں زیادہ وکٹیں لینے کے باوجود ہمیں عمران خان سے نکما باؤلر لگتا تھا۔

میدان کی اس رقابت کے پیچھے ایک دوسرے کے لئے احترام اور دوستی کے جذبات موجود تھے۔ اسی وجہ سے عمران نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں جہاں دوسروں کو بلایا وہاں کپل دیو، سنیل گواسکر اور نوجوت سدھو کو بھی دعوت بھیجی۔ گواسر اور کپل دیو بھارتی رائے عامہ کا دباؤ دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے مگر کانگریس کے ٹکٹ پر مشرقی پنجاب کے وزیر بننے والے نوجوت سدھو نے دلیرانہ فیصلہ کرتے ہوئے حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی۔ اب اس کی انہیں قیمت چکانی پڑ رہی ہے اور بھارتی سوشل اور غیر سوشل میڈیا پر انہیں غدار قرار دیتے ہوئے خوب جوتے مارے جا رہے ہیں۔

ویسے ان کے ساتھ کچھ ہاتھ ہم پاکستانی بھی کر بیٹھے ہیں۔ غیر ملکی مہمانوں کے لئے مختص جگہ پر بٹھانے کی بجائے ان کو غالباً عمران کی خواہش پر وی وی آئی پی حصے میں بٹھایا گیا۔ یہ محض اتفاق ہی ہو گا کہ ان کے ساتھ والی نشست پر آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان تشریف رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ سدھو نے بڑھ کر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی گلے کیا لگایا کہ بھارتی سوشل و غیر سوشل میڈیا پر آگ بھڑک اٹھی۔

ایشین نیوز انٹرنیشنل کی ایڈیٹر نیوز سمیتا پرکاش تو نہایت ہی خفا ہو گئی ہیں۔ کہتی ہیں کہ

لعنت سدھو صاحب۔ آپ کو جان بوجھ کر پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے صدر کے ساتھ بٹھایا گیا۔ ۔ ۔ اور آپ نے اعتراض نہیں کیا۔ کس منہ سے اپنے ملک کے لوگوں کو جواب دو گے؟
واہ سدھو صاحب! جنرل باجوہ کو گلے لگایا۔ عمران خان کو گلے لگاتے تو پھر بھی انڈر سٹینڈ ایبل (ہوتا)۔ آپ نے جنرل باجوہ کو گلے لگایا؟


کیا کسی نے ان توہینوں کی ایک چیک لسٹ بنائی تھی جو سدھو جیسے کسی اناڑی کو اسلام آباد بھیجنے سے ہو سکتی تھیں؟ بھلا پاک آرمی چیف کو گلے لگانے کا کام کچھ کم عجیب نہ تھا جو سدھو نہایت فرمانبرداری سے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے ”صدر“ کے ساتھ بیٹھنے کو رضامند ہو گئے؟

مہاشے الوک بھٹ فرماتے ہیں ”اٹل جی کی کسی امیدوار کی حمایت کے لئے آخری پبلک میٹنگ شیری آن ٹاپ (نوجوت سدھو کا ٹویٹر ہینڈل) کے لئے مئی 2007 کے الیکشن میں تھی۔ کیسا برا اور ناشکرا بدھو ہے یہ نوجوت سدھو۔ اس نے اٹل جی کے آخری سفر میں جانے کی بجائے پاکستانی تقریب میں جانا پسند کیا۔

شہزاد جے ہند صاحب فرماتے ہیں ”پہلی تصویر: نریندر مودی اور امیت شاہ اٹل بہاری باجپائی کی انتم یاترا میں شرکت کرتے ہوئے جب قوم ان کا ماتم کر رہی ہے۔ دوسری تصویر: راہل گاندھی کا چیلا سدھو عمران خان کی حلف برداری کا جشن مناتے ہوئے جب وہ واہگہ سے پاکستان میں داخل ہو رہا ہے“۔

شریمتی مونیا فرماتی ہیں ”نوجوت سدھو نے عمران خان کی حلف برداری میں نام نہاد ’ذاتی حیثیت‘ میں جا کر خود کو احمق بنایا ہے۔ انہوں نے اسے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے صدر مسعود خان کے ساتھ بٹھا دیا۔ یہ پاکستان نے انڈیا کی ایک بہت بڑی توہین کی ہے صرف اس مردود ابن الوقت کی وجہ سے“۔

لیکن سدھو ڈٹے ہوئے ہیں۔ ہندوستان ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ
ایوانِ صدر میں داخل ہونے سے پہلے سدھو نے کہا ”خان صاحب جیسے لوگ تاریخ بناتے ہیں۔ اس دعوت سے انہوں نے مجھے عزت بخشی ہے۔ ان لوگوں کی عزت کی جاتی ہے جو تعلق بناتے ہیں، جو تعلق توڑتے ہیں ان کی عزت جاتی رہتی ہے اور میں ان لوگوں میں سے ہوں جو تعلق کی قدر کرتے ہیں۔ یہ ایک نیا سویرا ہے۔ یہ حکومت بڑی امیدوں اور توقعات کے ساتھ اس ملک کا تصور، شبیہ اور قسمت بدلنے آئی ہے“۔ سدھو جو پنجاب کی کانگریسی حکومت کے وزیر ہیں نے جمعے کے دن یہ کہا ہے کہ وہ خود کو ”انڈیا کے ایک خیر سگالی کے سفیر کے طور پر دیکھتے ہیں“۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ ان کو یہ دعوت ذاتی حیثیت میں دی گئی تھی۔

صاحبو، بات یہ ہے کہ ہم خواہ دو قومی نظریے کے تحت دو مختلف قومیں ہی کیوں نہ ہوں، نسل اور مزاج میں ایک ہی ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں بھارت سے دوستی کی کوشش کرنے والے غدار قرار پاتے ہیں ادھر بھارت میں بھی یہی حال ہے۔ بلکہ ادھر زیادہ برا حال ہے۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا پر بھارت دشمنی کا چورن نہیں بکتا۔ نہ ہماری سیاست میں اب بھارت دشمنی پر ووٹ پڑتے ہیں۔ 2013 کے انتخابات میں تو نواز شریف نے اپنی مہم ہی بھارت سے دوستی کے نعرے کے ساتھ چلائی تھی اور پھر بھی جیت گئے تھے۔ جبکہ بھارت میں علاقائی الیکشن میں بھِی پاکستان دشمنی بکتی ہے۔ بھارت کے بڑے نمایاں سفارت کاروں اور وزرائے خارجہ کو بھی پاکستانیوں مہمانوں کی خاطر ہونے والی ایسی تقریب میں شرکت کرنے پر غداری کے تمغے بانٹے جاتے ہیں جس میں سابق بھارتی صدر جمہوریہ بھی مہمان ہوں۔

ایسے میں سدھو نے بہت حوصلہ کیا ہے۔ عمران خان نے ان سے بھی زیادہ حوصلہ کیا ہے۔ جنرل قمر باجوہ جس طرح سدھو سے گلے ملے ہیں اور خوشگوار انداز میں باتیں کرتے رہے ہیں اس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ پاک فوج بھی عمران خان کی بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی حمایت کرے گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ ابھی اپریل اور مئی 2019 میں بھارتی الیکشن سر پر آیا کھڑا ہے، کیا نریندر مودی اس وقت پاکستان دوستی کی بات کریں گے یا پھر زہر ہی اگلیں گے؟

ویسے ہماری مانیں تو خان صاحب ذرا دل بڑا کر کے پیپلز پارٹی کی حنا ربانی کھر کو وزیر خارجہ بنا دیں۔ پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت میں انہوں نے بطور وزیر خارجہ بھارت کا میلہ لوٹ لیا تھا اور انڈین میڈیا ان کے پیچھے دیوانہ ہوا پھرتا تھا۔ اب اگر خان صاحب بطور وزیراعظم اور حنا ربانی کھر بطور وزیر خارجہ بھارت کا رخ کریں گے تو بھارتی عوام میں ان کی سیلیبرٹی پاور انڈین ہارڈ لائنرز کو بے بس کر سکتی ہے۔

اسی بارے میں

جنرل باجوہ سے گلے ملنے پر سدھو پر بغاوت کا مقدمہ

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar