وزرائے اعلیٰ کا انتخاب: سیاسی خطرے کی گھنٹی


عمران خان نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد دھواں دار تقریر کے ذریعے حامیوں اور مخالفین کو یکساں طور سے حیران کرنے کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے لئے سردار عثمان بزدار کو پاکستان تحریک انصاف کا امید وار نامزد کرکے اس حیرت میں اضافہ کیا ہے۔ پنجاب سے منتخب ہونے والے آزاد ارکان کی اکثریت کے علاوہ مسلم لیگ (ق) کی حمایت حاصل ہونے کے بعد یہ بات یقینی ہوگئی تھی کہ تحریک انصاف مرکز کے علاوہ پنجاب میں بھی حکومت بنائے گی۔ تحریک انصاف کی طرف آزاد ارکان کے رجحان کی فطری وجوہات موجود تھیں ، اس لئے مسلم لیگ (ن) انتخابات میں پنجاب اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی بننے کے باوجود شروع میں ہی وزارت اعلیٰ کی دوڑ سے باہر ہو چکی تھی۔

پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی اکثریت کے یقین کے ساتھ ہی اس اہم عہدہ کے لئے عمران خان کے انتخاب کے بارے میں چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں شروع ہو چکی تھیں۔ عمران نے خود چند روز پہلے خیبر پختون خوا کے لئے ایک کمزور شخص محمود خان کو وزیر اعلیٰ کا امید وار نامزد کرتے ہوئے یہ واضح کیا تھا کہ وہ پنجاب میں نوجوان اور غیر معروف شخص کو وزیر اعلیٰ بنوائیں گے جو نوجوانوں اور عوام کے مسائل کو سمجھتا ہو اور اس صوبے کو بہتر طریقے سے چلا سکے۔ اس پس منظر میں عثمان بزدار کا انتخاب نہ عمران خان کے دعوے کی تصدیق کرسکا ہے اور نہ تحریک انصاف کسی باصلاحیت اور مضبوط شخص کو وزیر اعلیٰ بنانے کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

خیبر پختون خوا کے بعد پنجاب جیسے اہم صوبے کے لئے ایک غیر معروف اور معمولی صلاحیت کے حامل قبائلی مزاج کے شخص کو وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کا کوئی جواز ابھی تک تلاش نہیں کیا جا سکا۔ عثمان بزدار پہلی بار صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں ۔ اس سے پہلے وہ 2013 میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کی کوشش کرچکے تھے۔ ان کے والد اور بزدار قبیلہ کے سردار فتح محمد خان تین مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ نامزد وزیر اعلیٰ پنجاب 2002 سے 2011 تک مسلم لیگ (ق) کے رکن رہے اور اس دوران وہ تحصیل ناظم کے طور بھی کام کرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے اور 2013 میں پارٹی ٹکٹ ملنے کے باوجود پنجاب اسبلی کے لئے منتخب نہیں ہوسکے تھے۔ انتخابات سے چند ہفتے پہلے وہ مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ ہوکر سرائیکی صوبہ محاذ کا حصہ بنے اور اس گروپ کے تحریک انصاف میں مدغم ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کے رکن بن گئے۔ اب عمران خان نے انہیں ملک کے سب سے بڑے صوبہ کا وزیر اعلیٰ نامزد کیا ہے۔

اس صوبہ کو اپنی آبادی کے علاوہ بھاری بھر کم انتظامی مشینری اور وسائل کی وجہ سے سیاسی طور سے اہم سمجھا جاتا ہے۔ صوبے کا انتظام سنبھالنے کے لئے عام طور سے بہت تجربہ کار اور باصلاحیت شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو صوبے کی طاقت ور بیورو کریسی کو کنٹرول کرسکے ۔ عثمان بزدار کے پاس پارلیمانی تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ وہ پہلی بار صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے ملتان کی بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کے علاوہ ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ انہیں تحصیل ناظم کے علاوہ کوئی انتظامی تجربہ بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ تحریک انصاف کے وفادار اور پرانے کارکنوں میں شامل ہیں۔ اس کے باوجود عمران خان نےاچانک اس نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے پائے جانے والے تجسس کو ختم کردیا بلکہ نامزد وزیر اعلیٰ پنجاب کی تعریفیں کرتے ہوئے زمین آسمان کے قلابے بھی ملائے۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کا نامزد امید وار صوبے کے سب سے پسماندہ علاقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں لوگوں کو پینے کا پانی اور بجلی بھی میسر نہیں ہے۔ عمران خان کے بقول سردار عثمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ غریبوں کی حالت زار کو جانتے ہیں اور ان کے مسائل سے آگاہ ہیں۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد انہیں علم ہو گا کہ ملک کے محروم طبقات کے مسائل کیا ہیں ، اس لئے وہ انہیں حل کرنے کی بہتر کوشش کریں گے۔ عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عثمان بزدار واحد ممبر صوبائی اسمبلی ہیں جن کے اپنے گھرمیں بجلی نہیں ہے۔ اس لئے انہیں یقین ہے کہ وہ محروم لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے تندہی سے کام کریں گے۔

تاہم عمران خان کے ان دعوؤں کے بعد نامزد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے بارے میں معلومات سامنے آنے لگی ہیں۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو جو اثاثے ظاہر کئے ہیں ان کے مطابق ان کی سالانہ آمدنی ساڑھے چار لاکھ کےلگ بھگ ہے اور وہ کروڑوں کی جائیداد کے مالک ہیں۔ اگر ساڑھے چار لاکھ آمدنی والےفرد کے گھرمیں بجلی نہیں ہے تو اس کی وجہ مالی مجبوری کے علاوہ کوئی دوسری ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مسلسل اقتدار کی تگ و دو کرنے والے عثمان بزدار اور ان کے والد نے اپنے علاقے میں بجلی لانے کی کوشش ہی نہ کی ہو۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ نامزد وزیر اعلیٰ کے گھر پر بجلی کا کنکشن تو نہیں لیکن کئی جنریٹر اہل خانہ کو بجلی فراہم کرنے کے لئے ضرور نصب کئے گئے ہیں۔ عوام کی ’محرومی و مجبوری سے شناسا‘ ایسے شخص کی تقرری سے پسماندہ طبقات کی داد رسی کرنے کا دعویٰ بے بنیاد اور ناقابل قبول ہونا چاہئے۔

اس دوران ایک غیر معروف اور بظاہر اس عہدہ کی قابلیت نہ رکھنے والے شخص کی نامزدگی کے حوالے سے تحریک انصاف کے اپنے ہی حامی سوشل میڈیا پر یہ خبریں عام کررہے ہیں کہ دراصل یہ عبوری نامزدگی ہے۔ اصل وزیر اعلیٰ جہانگیر ترین ہوں گے۔ لیکن انہیں چونکہ سپریم کورٹ آئین کی شق 62 کے تحت نااہل قرار دے چکی ہے ، اس لئے وہ عدالت میں نظر ثانی کی درخواست پر فیصلہ آنے کا انتظار کررہے ہیں جس کے بعد وہ صوبائی اسمبلی کے رکن اور صوبے کے ’ مستقل ‘ وزیر اعلیٰ کے طور پر سامنے آئیں گے۔ اس حوالےسے حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے حلقے یقین سے یہ اعلان کررہے ہیں کہ ستمبر کے دوران سپریم کورٹ جہانگیر ترین کی نااہلی کو ختم کردے گی۔ یعنی جس شخص کو بیرون ملک اثاثوں کے حوالے سے غلط بیانی پر جھوٹا اور خائن قرار دیا گیا تھا، اسے صادق و امین ہونے کا سرٹیفکیٹ عطا ہو جائے گا۔

اگر یہ واقعہ اسی طرح ظہور پذیر ہوتا ہے تو سپریم کورٹ کے ایسے فیصلہ اور ان خبروں میں کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود یہ شبہ یقین میں بدل جائے گا کہ سپریم کورٹ اپنے احکامات اور فیصلوں کے ذریعے تحریک انصاف کی حمایت کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے ۔ یا یہ کہ اس کے فیصلے قانونی کی بجائے سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ یہ الزام پہلے بھی سپریم کورٹ کی خودمختاری کے لئے سوالیہ نشان بنا ہؤا ہے تاہم سیاسی اہمیت کے فیصلوں کے بارے میں پہلے سے عام کی گئی معلومات کے درست ہونے پر یہ شبہات مزید قوی ہوں گے۔ اقتدار تک پہنچنے کے بعد عمران خان کو اپنے سوشل میڈیا کے جیالوں اور میڈیا میں موجود حامیوں کے طرز عمل کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ خود ہی ان کےلئے مسائل پیدا کرنے کا سبب نہ بنیں۔

پنجاب میں عثمان بزدار اور خیبر پختون خوا میں محمود خان جیسے کمزور افراد کو وزرائے اعلیٰ نامزد کرنے کی اہم ترین اور تکلیف دہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عمران خان صوبوں کو براہ راست کنٹرول کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے انہیں خود مختار اور طاقت ور وزرائے اعلیٰ کی بجائے ایسے افراد کی ضرورت تھی جو اپنی رائے رکھنے اور مرضی کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اگرچہ اس بات کی تحسین کی جارہی ہے کہ تحریک انصاف دو صوبوں میں براہ راست حکومت اور بلوچستان میں حکومت سازی میں حصہ کی وجہ سے ایک مؤثر وفاقی سیاسی قوت کے طور پرسامنے آئی ہے۔ اس سے پہلے وفاقی پارٹیاں کہلانے والی دونوں جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بالتریب پنجاب اور سندھ تک محدود ہو چکی تھیں۔

تاہم اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صوبوں اور مرکز میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہونے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہو سکتا کہ صوبوں کو مرکز کا محتاج کردیا جائے۔ مرکز میں خواہ اسی پارٹی کی حکومت ہو جو صوبوں میں بھی حکومت کررہی ہو لیکن اسے صوبائی خود مختاری کو یقینی بنانا ہوگا۔ علاقائی خود مختاری اور مقامی سطح پر فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں پہلے ہی بہت سی سیاسی دوریاں اور شکایات موجود ہیں۔ کمزور صوبائی حکومتوں کے ذریعے عمران خان نے اگر صوبوں پر مرکز کا اختیار مسلط کرنے کی کوشش کی تو یہ اٹھارویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کی روح کے منافی ہوگا اور اس سے بہتری کی بجائے خرابی کی صورت پیدا ہوگی۔

فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس سال کے شروع میں میڈیا کے نمائیندوں سے غیر رسمی ملاقات کی تھی اور جس میں انہوں نے ملک کی سیاسی صورت حال اور سلامتی کے امور پر کھل کر اظہار خیال کیا تھا۔ اس غیررسمی ملاقات کی تفصیلات تو کبھی سامنے نہیں آئیں تاہم کہا جاتا ہے کہ جنرل صاحب نے جن امور کے بارے اظہار خیال کیا تھا ان میں اٹھارویں ترمیم کے بارے میں شبہات بھی شامل تھے۔ فوج مضبوط مرکز کی حامی رہی ہے تاکہ معاملات کو براہ راست اسلام آباد سے کنٹرول کرنا آسان ہو جبکہ ملک کے ماضی کی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اختیارات کا ارتکاز مختلف علاقوں کے لوگوں میں دوریاں پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اور چھوٹے اور کم وسیلہ علاقوں کے لوگ محرومیوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ نو منتخب وزیر اعظم عمران خان کو یقینی بنانا ہو گا کہ صوبوں کو حاصل اختیارات اور پارلیمنٹ کے اختیار میں کمی کی کسی کوشش کا حصہ نہ بنیں۔ ورنہ سیاسی تنازعہ اور مرکز و صوبوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ایک نیا پنڈورا بکس کھلنے کا اندیشہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali