گلزار صاحب 84 برس کے ہو گئے


گلزار صاحب اس دنیا کے واحد انسان ہیں جن کی آواز، شخصیت اور خیالات مجھے ہمیشہ منفرد، انوکھے اور دلچسپ محسوس ہوتے ہیں۔ میں ان کی باتیں یا شاعری ایسے پڑھتا یا سنتاہوں جیسے مذہبی لوگ الہامی باتیں پڑھتے یا سنتے ہیں۔ دنیا انہیں شاعر، فلم ساز، فلم ڈائریکٹر، ڈائیلاگ رائیٹر یا گیت گار کے طور پر جانتی اور مانتی ہے۔ سمپورن سنگھ کالرا ان کا اصل نام ہے، لیکن اب یہ ہمارے گلزار صاحب ہیں۔ گلزار صاحب 18 اگست 1934 کو پاکستان کے شہر جہلم کے ایک گاؤں دینا میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان دینا گاؤں سے بھارت منتقل ہو گیا تھا۔ سب سے دلچسپ اور منفرد بات یہ ہے کہ سمپورن سنگھ سے گلزار بننے کے سفرمیں دلی میں کار مکینک کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔ ان کے ابا ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ بیٹا توں لکھاری بننا چاہتا ہے، ضرور بن لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا اپنے بھائیوں کے ساتھ بہتر رشتہ بناکر رکھنا کیونکہ لکھاری بننے میں کوئی کمائی نہیں ہے۔

گلزار صاحب کو بچپن ہی سے پڑھنے، لکھنے کا بہت شوق تھا۔ اسی وجہ سے ان کی دوستی گیت کاروں، لکھاریوں اور فلم سازوں سے ہو گئی۔ پرانے وقتوں میں لیجنڈری فلم ساز ہوا کرتے تھے جن کا نام تھا بمل رائے۔ اس زمانے میں وہ ایک فلم بنا رہے تھے جس کا نام تھا بندھنی۔ فلم پر کام شروع ہوگیا تو عظیم موسیقار ایس ڈی برمن اور گیت کار شلندر کے درمیان کسی وجہ سے جھگڑا ہوگیا۔ بندھنی فلم میں دونوں کام کررہے تھے۔ ان کے جھگڑے کی وجہ سے فلم ساز بمل رائے پریشان تھے۔ اسی دوران گلزار صاحب کا ایک دوست انہیں بمل رائے کے پاس لے گیا۔ فیصلہ کیا گیا کہ اب فلم بندھنی کے گیت گلزار صاحب لکھیں گے۔ اس طرح گلزار صاحب کی فلم انڈسٹری میں انٹری ہوئی۔

گلزار صاحب نے پہلا گانا لکھا تھا جس کے بول تھے مورا گورا انگ۔ یہ گانا بہت پسند کیا گیا۔ اسی دوران موسیقار ایس ڈی برمن اور گیت کار شلندر کے درمیان دوستی ہو گئی۔ اور گلزار صاحب فلم سے باہر ہو گئے۔ بمل رائے نے اپنی اگلی فلم کے لئے گلزار صاحب کو اسسٹنٹ کا کام دے دیا۔ اب گلزار صاحب نے بطور اسسٹنٹ کام کرنا شروع کردیا۔ بمل رائے نے گلزار صاحب کو کہا اب وہ کار مکینک کا کام نہیں کریں گے اور نہ ہی موٹر گیراج کے شور میں رہیں گے۔ انہوں نے گلزار صاحب کو کہا کہ وہ ایک باصلاحیت انسان ہیں اور اس کا ثبوت وہ ایک گانے کی صورت میں دے چکے ہیں اس لئے اب وہاں نہیں جائیں گے۔ گلزار صاحب یہ سنتے ہی رو پڑے اور پھر اس طرح سے وہ ہندوستانی فلم انڈسٹری میں مکمل طور پر داخل ہو گئے۔

اس کے بعد گلزار صاحب کی دوستی موسیقار آر ڈی برمن سے ہو گئی۔ پھر گلزار صاحب نے گیت بھی لکھے اور ڈائیلاگ رائیٹر کے طور پر بھی پہچان بنانے لگے۔ گلزار صاحب ایک ایسے لکھاری اور ادیب ہیں جنہوں نے ہر جنریشن سے اپنا رشتہ بنائے رکھا۔ بطور گیت کار گلزار صاحب نے بڑے سے بڑے موسیقار کے ساتھ کام کیا۔ آرڈی برمن سے لکشمی کانت پیارے لال تک اور پھر اے آر رحمان سے وشال بھارت واج تک انہوں نے تمام تخلیقی انسانوں کے ساتھ کام کیا۔ ان تمام تخلیقی انسانوں کے ساتھ گلزار صاحب کا کام پسند کیا گیا۔

اس کے بعد فلم ساز بن گئے، فلم ڈائریکٹ کرنا شروع کردی۔ ان کی بہت ساری فلمیں کامیاب ثابت ہوئی۔ ان کی فلموں میں آندھی، کنارہ موسم وغیرہ ہیں۔ گلزار صاحب کی دوستی معروف اداکار اور فلم ساز سنجیو کمار کے ساتھ بھی خوب جمی۔ گلزار کی شادی اپنے زمانے کی مشہور اداکارہ راکھی سے ہوئی۔ ان سے گلزار صاحب کی ایک بیٹی بھی ہیں جن کا نام میگھنا گلزار ہے۔ میگھنا گلزار ہندوستانی فلموں کی ڈائریکٹر ہیں۔ گلزار صاحب اور اداکارہ راکھی کا رشتہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے۔ گلزار صاحب اپنی بیٹی میگھنا سے بہت پیار کرتے ہیں۔ میگھنا کو وہ بوسکی کے نام سے بلاتے ہیں۔ بوسکی خانہ ان کے بنگلے کا بھی نام ہے جو ممبئی کے پوش علاقے میں واقع ہے۔

گلزار صاحب وہ تخلیقی ادیب، لکھاری اور دانشور ہیں جنہوں نے ہر دور میں عزت کمائی ہے۔ گلزار صاحب کے آرٹ نے ہر انسان کا دل جیتا ہے۔ ان کے مشہور نغموں میں تیرے بنا جیا نہ جائے، آپ کی آنکھوں میں کچھ مہکے ہوئے سے راز ہیں، تم آ گئے ہو نور آگیا ہے، وغیرہ ہیں۔ چھوٹی اسکرین ہو یا بڑی انہوں نے اپنے تخلیقی فن کو انوکھے انداز میں ثابت کیا ہے۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ میں گلزار صاحب ہمیشہ روشن ستارہ رہیں گے۔ رابندر ٹیگور، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، سردار جعفری، فیض احمد فیض گلزار صاحب کی پسندیدہ شخصیات ہیں۔ گلزار صاحب کہتے ہیں انہوں نے بہت جگہوں اور بہت انسانوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس طرح راستے ملتے گئے۔ کچھ راستے خود تلاش کیے اور کچھ راستے خوش قسمتی سے ہاتھ لگتے گئے۔

زندگی کے جو جھونکے ہاتھ لگے وہ سنبھال لئے۔ بس یہی کامیابی کا راز ہے۔ گلزار صاحب کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق ہمیشہ ترقی پسند لکھاریوں سے رہا اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ایک خوش قسمت ترقی پسند لکھاری سمجھتے ہیں۔ گلزار صاحب کو بنگلہ زبان سے اور بنگال کے کلچر سے بہت محبت ہے۔ بنگال کی شاعری، لوک گیت انہیں ہمیشہ اچھے لگتے ہیں۔ وہ شاعری اور آرٹ کے دلدادہ ہیں۔ گلزار صاحب کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی فلم لائن میں نہیں جانا چاہتے تھے۔ اور نہ ہی گانے لکھنے کا ان کو شوق تھا۔ انہیں صرف ادب سے محبت ہے، انہیں صرف لٹریچر سے محبت ہے۔ وہ کہتے ہیں ان کا شعبہ ادب ہے۔ وہ صرف سکون سے لکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب وہ اور کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو کام بھی کیا، پوری ایمانداری کے ساتھ اسے نبھایا۔ گلزار صاحب کو غالب سے انتہا درجے کی محبت ہے۔ غالب کو وہ دنیا کا عظیم شاعر سمجھتے ہیں۔

کہتے ہیں غالب وہ انسان ہے جو ہر عام و خاص انسان کی بات کرتا ہے۔ ہر وقت انسان کی بات کرتا ہے اور ہر موقع پر کوئی نئی اور تخلیقی بات کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غالب پر انہوں نے دس سال کام کیا اور پھر کہیں جاکر مرزا غالب جیسا عظیم ڈرامہ تخلیق ہوا۔ جو بعد میں فلم کی شکل میں بھی ڈھا لا گیا۔ غالب پر بنایا گیا یہ سیریل ساڑھے چھ گھنٹوں پر محیط ہے۔ گلزار صاحب کا کہنا ہے کہ شاید یہی وہ بڑا کام ہے جو انہوں نے اب تک کیا ہے۔ کمال امروہی، رئیس امروہی، کیفی اعظمی، مینا کماری، نصیرالدین شاہ اور جگجیت سنگھ گلزار صاحب کو بہت پسند ہیں۔ کہتے ہیں بنگال سے رشتہ ٹیگور کی وجہ سے بنا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2