واجپئی جی سنگھی تھے، صرف سنگھی


اٹل بہاری واجپئی ”بہت اچھے آدمی“ تھے، کیسے تھے، کیوں تھے یہ آج تک سمجھ میں نہیں آسکا۔ اگر ملکی سیاست میں ان کے کردار کو ذہن میں رکھ کر بات کریں تو یقیناً وہ ایک اچھے سیاست داں تھے جو حزب اختلاف اور برسراقتدار دونوں جماعتوں میں یکساں مقبول تھے اور صحیح معنوں میں جمہوریت پسند جمہوری رہنما تھے۔ وہ پارٹی کے اندر آزادی ٔاظہار رائے کے قائل تھے اور یہی وجہ تھی کہ 26 سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر پانچ سال تک حکومت کرنے والے واحد غیر کانگریسی رہنما بنے۔ وہ آر ایس ایس کے واحد قابل قبول چہرہ یا مکھوٹہ تھے۔

سابق مرکزی وزیر اور این سی پی صدر شردپوار اپنی یادداشت ”اپنی شرطوں پر“ میں صفحہ 238 پر رقم طراز ہیں ”اٹل بہاری واجپئی سیاست اور شائستگی دونوں کو بہت آسانی سے ایک میں ضم کردیتے تھے۔ حالانکہ نظریاتی طور پر میرے اور ان کے درمیان کوئی شے قدرمشترک نہیں تھی لیکن میں نے انہیں ہمیشہ بہت مہذب شخص پایا جو واقعتاً جمہوری اقدار اور پارلیمانی نظام پر یقین رکھتا تھا۔ ان کے ساتھ بات چیت کرنے میں بہت لطف آتا تھا۔ اٹل جی پہلے آدمی تھے جن کا کانگریس سے کسی بھی طور کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا اور انہوں نے مرکز میں حکومت بنائی۔ اس وقت میں اپوزیشن لیڈر تھا۔ وہ این ڈی اے حکومت کو چھ سال تک چلانے میں محض اس وجہ سے کامیاب ہوئے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ہندوستانی نظام سیاست میں بہت کچھ تبدیلی آچکی ہے اور ایک پارٹی کی حکومت کے دن جاچکے ہیں۔ ان کی مدت ِحکومت میں علاقائی پارٹیوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا گیا اور پہلی بار انہیں حق واجب حاصل ہوا۔ مخلوط حکومت کی اپنی مشکلات ہوتی ہیں اور وہ ان مشکلات کے باوجود اپنے کام کرنے کے منفرد انداز سے آگے بڑھ جایا کرتے تھے۔ وہ صحیح اور غلط کا بہترین شعور رکھتے تھے اور پر لطیف حس مزاح بھی۔ “

شرد پوار ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے آگے لکھتے ہیں ”مجھے ایک میٹنگ یاد ہے جب ایڈوانی جی اور میں دونوں کسی ایک مخصوص نام پر متفق نہیں ہوسکے۔ اٹل جی نے اپنے ناقابل نقل انداز میں مداخلت کی۔ اڈوانی جی کی طرف مڑتےہوئے میری طرف اشارہ کرکے کہنے لگے ’لال جی! ہم لوگ ستّا (اقتدار) میں ابھی آئے ہیں۔ ان کو ستّا کا ہم سے زیادہ تجربہ ہے۔ ان کا کہنا مان لیتے ہیں۔ ‘ آر ایس ایس پریوار سے آئے ہوئے اپنے دیگر ساتھیوں کے مقابلے میں اٹل جی اپنے نقطۂ نگاہ کو لے کر زیادہ ترقی پسند اور روشن دماغ تھے۔ وہ جب بھی گھریلو سیاست کی اٹھا پٹک سے دور ہوتے تھے تو بہت خوشگوار موڈ میں ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ان کی قیادت والے وفد کے ساتھ اقوام متحدہ میں گئے تھے۔ جب کام ختم ہوجاتا تو ہم ایک ساتھ بیٹھتے اور مختلف موضوعات پر گپ شپ کرتے۔ ان کو سننے کا الگ ہی لطف تھا۔ وہ اپنی نظریاتی برادری سے ایک ایک پر لطف قصے نکال کرلاتے اور ہمیں محظوظ کرتے اس لئے وہ پارٹی کے اندر اور باہر سبھی کے درمیان مقبول تھے۔ “

سیاسی حلقوں میں ان کی مقبولیت کے اسباب پر ایک حد تک روشنی پڑچکی ہے کہ وہ کیوں تمام حلقوں میں یکساں احترام و وقار کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے لیکن کیا یہی بات سماجی طور پر بھی کہی جاسکتی ہے؟ یقیناً نہیں کیوں کہ بنیادی اور نظریاتی طور پر وہ جن سنگھ کے آدمی تھے اور تاحیات جن سنگھ کے وفادار رہے اور جن سنگھ آر ایس ایس کی ہی ایک سیاسی شاخ تھی۔ یقیناً یہ ان کا کارنامہ ہے کہ وہ جن سنگھ کا آدمی ہوتے ہوئے بھی اپنی شبیہ کو ’قابل قبول‘ بنانے میں کامیاب رہےلیکن تادم حیات وہ ایک جن سنگھی ہی رہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ملک میں آج اگر ہندومسلم فرقہ وارانہ منافرت کی فضا ناقابل برداشت حد تک تعفن آمیز ہوگئی ہے تو وہ محض جن سنگھ کی وجہ سے ہوئی ہے جو 1977 ء تک آر ایس ایس کی ایک سیاسی شاخ تھی اور یہی شاخ بعد میں بی جے پی کی شکل میں ایک تن اور درخت میں تبدیل ہوگئی۔ یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ آر ایس ایس کے نظریات کو زمینی سطح پر سرکاری طور پر نافذ کرنے کے لئے اسے ایک سیاسی بازو کی ضرورت تھی اور وہ کام بی جے پی نے اٹل جی کی قیادت میں بحسن و خوبی انجام دیا۔

اب جب کہ وہ آنجہانی ہوچکے ہیں انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے سلسلے میں افراط و تفریط سے کام لیا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں تو ان لوگوں کی کمی نہیں جو ہر ایک کواپنا ازلی دشمن اور واصل جہنم قرار دیتے پھرتے ہیں لیکن اس بار ان لوگوں کی بھی کچھ کمی نظر نہیں آئی جو واجپئی کے شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے بس ’رحمۃ اللہ علیہ‘ کا ٹکڑا لگانے بھول گئے۔ واجپئی اتنے بھی اچھے انسان نہیں تھے جتناکہ بتایا جا رہا ہے۔ اگر کسی انتہا پسند مذہبی ہندو تنظیم کاکوئی آدمی عوام میں اس تنظیم کا قابل قبول چہرہ بن جاتا ہے تو یہ زیادہ بڑا لمحہ فکریہ ہے کیوں کہ ایسا آدمی سماج کے لئے زیادہ مضرت رساں ہوتا ہے۔

اڈوانی اور اٹل بہاری واجپئی ایسے ہی دو رہنما تھے جن کا ساتھ چولی دامن کا تھا، ایک عوام کو مشتعل کرتا تھا تو دوسرا سیاسی محاذ پر انہیں سنبھالتا تھا۔ ایڈوانی سماج میں رتھ یاترا کے نام پر زہر گھولتے تھے تو اٹل جی پارلیمنٹ میں ان کا دفاع کرتے تھے اور جواز فراہم کرتے تھے۔ اٹل جی میٹھی چھری تھے لیکن کام وہی کررہے تھے جس کے لئے جن سنگھ نے انہیں پابند عہد کیا تھا۔ بابری مسجد کی مسماری میں اٹل جی کا بھی اتنا ہی ہاتھ رہا ہے جتنا کہ اڈوانی کا۔ رام مندر کی تعمیر کے لئے اٹل جی بھی اتنے ہی پرجوش اور عہد بند تھے جتنے کہ آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے لوگ تھے۔ بدقسمتی سے وہ اس خواب کو اپنی زندگی میں پورا ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکے اور یہ بھی بدقسمتی ہی ہے کہ ایڈوانی بھی شاید نہ دیکھ سکیں۔

ایڈوانی کی شبیہ سخت گیر ہندوتواوادی کی ہوگئی جو ملک کی اقلیتوں کواپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا اور واجپئی کو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی، وہ خود بخود ایک قابل قبول چہرہ بن گئے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ جب دو لوگوں میں سے کوئی ایک بہت متشدد ہوتو دوسرے کو اپنی قابل قبول امیج بنانے کے لئے کچھ خاص محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، بس وقتافوقتاً ہلکا سا کچھ بول دینا ہوتا ہے اور یہی اٹل جی کرتے تھے۔

یہ وقتاً فوقتاً کچھ گول سا، مبہم، غیر واضح اور بے معنیٰ سا بولنے کے علاوہ انہوں نے صرف ایک بڑا کام کیا تھا اور وہ تھا پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانا۔ یہ اقدام خلاف توقع تھا اور دو رس نتائج کا حامل بھی۔ بصورت دیگر وہ قابل قبول یا امن پسند رہنما ہونے کے باوجود ایسا کچھ نہیں کرسکے جسے سنہرے حروف میں یاد کیا جاسکے۔ میں یہاں ان کی ذاتی یا انفرادی خوبیوں کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ ان اقدامات کی بات کررہا ہوں جو ان کی شخصیت کو امر کرسکتے تھے۔ مثلاً بابری مسجد کی مسماری کےسلسلے میں انہوں نےنرسمہا راؤ کو یقین دلایا تھا کہ کارسیوک کچھ نہیں کریں گے لیکن 6 ؍دسمبر سے ایک دن قبل انہوں نے لکھنؤ میں کارسیوکوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”کل آپ لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے، کل میں لوک سبھا میں رہوں گا۔ “ بہرحال بابری مسجد شہید ہوگئی، ہندو مسلم فسادات بھی ہوئے، ہزاروں لوگ مقتول ہوئے لیکن یہ امن پسند لیڈر خاموش رہا۔

اسی طرح جب وہ وزیراعظم تھے تب گجرات میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے لیکن وہ حسب معمول خاموش رہے۔ 72 گھنٹے بعد جا کر انہوں نے قوم سے خطاب کیا اور امن و شانتی بنائے رکھنے کی اپیل کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپیل کی جگہ باقاعدہ حکم جاری کیا جاتا کہ بہت ہوگیا تماشا، یہ فتنہ و فساد بند کرونہیں تو کل سے گجرات کی گلیوں میں فوج مارچ کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ موصوف نے گجرات کا دورہ کیا اور وزیراعلیٰ کو راج دھرم پالن کرنے کا مشورہ دیا اور وزیراعلیٰ نے سرعام پریس کانفرنس میں اٹل جی کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ وہ راج دھرم کا ہی تو پالن کررہے ہیں۔

واجپئی اس بات سے کچھ ناراض نظر آئے اور انہوں نے طے کیا کہ وہ 12 اپریل 2002ء کو گوا میں بی جے پی کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں مودی کو ہٹانے کا اعلان کریں گے لیکن حیرت کی بات یہ ہوئی کہ وہ مودی کو ہٹا تو نہیں سکے الٹا ان کی شان میں قصیدے پڑھنے لگے اور کہنا شروع کردیا کہ مسلمان دنیا میں جہاں بھی رہتے ہیں فتنہ و فساد کرتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر گجرات میں مسلمانوں کو جس طرح سے کاٹا گیا، زندہ جلایا گیا وہ سب درست تھا۔

موصوف نے اس کے بعد راجیہ سبھا میں بھی بیان دیا کہ وہ مودی کو ہٹانا چاہتے تھے لیکن منفی عوامی ردعمل کے خوف سے وہ ہٹا نہیں سکے۔ ایک وزیراعظم جو دوسرے کو راج دھرم کا پالن کرنے کی تنبیہہ کررہا تھا وہ خود ملک پر منفی عوامی ردعمل کو ترجیح دے رہا تھا۔ یہ وزیراعظم کے عہدے کی توہین تھی اور واجپئی نے اس عہدے کی توہین کی تھی۔ واجپئی بڑے اچھے انسان نہیں تھے اور کوئی بہت اچھے وزیراعظم بھی نہیں۔ وہ جن سنگھی تھے صرف جن سنگھی۔

محمد ہاشم خان، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد ہاشم خان، ہندوستان

مصنف افسانہ نگار ناقد اور صحافی ہیں، ممبئی، ہندوستان سے تعلق ہے

hashim-khan-mumbai has 15 posts and counting.See all posts by hashim-khan-mumbai