انور کی امی کا انتقال کب ہوا؟


ان کے گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے کسی چیز کی کمی محسوس ہوئی تھی، میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا چیز تھی۔ کتنے برسوں سے میرا اس گھر میں آنا جانا تھا۔ یہ گھر میرے گھر کی ہی طرح تھا۔ یہاں کی ہر چیز سے میں آگاہ تھا پھر بھی اندازہ نہیں لگا سکا کہ کیا چیز نہیں ہے،کس چیز کی کمی ہے۔

انور سے میری دوستی کالج کے زمانے سے تھی۔ انٹر ہم دونوں نے ساتھ ہی کیا تھا آدم جی سائنس کالج سے۔ پھر ہم دونوں کا داخلہ میڈیکل کالج میں ہوگیا تھا۔ میڈیکل کالج میں پانچ سال تو ایسے گزرگئے جیسے پانچ مہینے ہوں۔ دن ، ہفتے، مہینے اور سال گزرتے گئے اور ہم دونوں ہی ڈاکٹر بن گئے تھے۔ میڈیکل کالج کے شروع دنوں سے ہی ہم دونوں کا فیصلہ تھا کہ پاکستان میں نہیں رہنا ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹروں کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ تو تعلیمی نظام ایسا تھا جس نے ہم لوگوں کو اچھا ڈاکٹر بنانے کی کوشش کی تھی نہ ہی ڈاکٹر بننے کے بعد اس بات کی ضمانت تھی کہ ایک منصفانہ نظام کے تحت ہم لوگوں کو کسی پوسٹ گریجویٹ پروگرام می داخلہ ملے گا اور ہم لوگ اپنی تربیت مکمل کرکے مناسب تنخواہوں پر کام کرسکیں گے۔ پاکستان میں تو کوئی نظام تھا ہی نہیں۔ نہ میڈیکل کی تعلیم کا اورنہ ہی تعلیم کے بعد تربیت کا۔ ذہین طلبا خود پڑھتے ہیں اور خود ہی سیکھ بھی لیتے ہیں۔

ہمارے لیے امریکا جانا اور وہاں جا کر پاﺅں جمانا بہت آسان تھا۔ ہم نے اپنے سے سینئر ڈاکٹروں کو یہی کرتے دیکھا تھا۔ امریکا کا امتحان ہمارے لیے حلوا ہی تھا۔ میڈیکل کالج میں دی جانے والی پڑھائی کسی کام کی نہیں تھی۔ وہاں کے امتحانات پاس کرنے کے لیے جس گُر کی ضرورت تھی وہ ہمیں آتا تھا۔ گھسے پٹے سوالات کا آنا تھیوری کے امتحانات میں کامیابی کی ضمانت تھی۔ رہا زبانی امتحانات اس کے لیے کسی خاص محنت کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ عام طور پر پاس ہونے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی تھی اور اگر کچھ گڑبڑ ہوجائے تو طلبا تنظیمیں کام آتی تھیں۔ امتحان پاس ہونا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ امریکن امتحانوں کے لیے ہم دونوں نے ساتھ ہی تیاریاں کی تھیں۔ لگ کر کتابوں کے ساتھ بیٹھے تھے، امتحان دیا، پاس ہوئے اور ہمارا اکھٹے ہی ویزا لگا۔ پھر دونوں ساتھ ہی امریکا پہنچ گئے تھے۔

وہ زمانہ اچھا تھا۔ امریکا میں ڈاکٹروں کی شدید کمی تھی۔ امتحان پاس ہونے کے بعد مختلف جگہوں پر درخواست دینی ہوتی تھی اور چار پانچ انٹرویو کے بعد نوکری مل جاتی تھی۔

ہم دونوں کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ بڑی آسانی سے نیویارک میں ہی ہم دونوں کو نوکری مل گئی۔ شروع کے دنوں میں ہم دونوں نے بڑی دلچسپ زندگی گزاری۔ کراچی میں ہم دونوں ہی کافی سے زیادہ آزاد خیال تھے۔ کالج میں ہر قسم کی سرگرمیوں میں ملوث، ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی عادت تھی۔ کبھی پکنک، کبھی کھیل اور کبھی موسیقی کی شامیں۔ امریکا کے ہسپتالوں میں کام کرکے اور میڈیکل کے طالب علموں کو دیکھ کر اندازہ ہوگیا تھا کہ ہم لوگوں نے پاکستان میں کتنی عیاشی سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی تھی۔

کراچی میں ہم دونوں کی ہی کالج میں پڑھنے والے عربی لڑکوں سے دوستی ہوگئی تھی۔ ان کو ہماری دوستی کا یہ فائدہ پہنچا کہ پڑھائی میں ہم ان کے ایک طرح سے استاد بن گئے، جس کے بدلے میں ان کے ساتھ گھومنے گھامنے کا موقع ملا۔ ان کے ساتھ ہی رہ کے ہم دونوں موقع بہ موقع بیئر بھی پی لیتے تھے اور ہمیں شرابوں کی مختلف قسموں کا بھی پتہ چل گیا تھا۔ نیویارک نے تو ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ شرابیں بھی بہت پیں، ڈسکو میں بھی خوب ناچے ۔ بے شمار لڑکیوں سے دوستیاں بھی ہوئیں۔ نہ کسی سے شادی کا وعدہ کیا اورنہ کسی کے ساتھ مستقل رہے۔ وقت گزاری کے لیے دوستیاں ہوئیں، کچھ دنوں کچھ راتوں کا ساتھ ہوا پھر ان کی راہیں الگ ہماری راہیں جدا۔

عجیب اتفاق یہ ہوا کہ ہم دونوں کو نوکری بھی ایک ہی ہسپتال میں ملی۔ شروع شروع کا زمانہ تھا، کام کرنے کی اور سیکھنے کی شدید خواہش کے ساتھ کام کا موقع بھی خوب ملا اور سال تو ایسے گزرگیا جیسے شروع ہی نہیں ہوا ہو۔ ایک سال کے بعد جب ہسپتال بھی سمجھ میں آگیا، کام کا بھی اندازہ ہوگیا، لوگ بھی جان گئے اور ہمیں بھی پتا چل گیا کہ نظام کیسے چلتا ہے تو ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے پاس ڈالر بھی ہیں اور مواقع بھی ہیں۔

سچی بات یہ ہے کہ ریذیڈنسی کے ختم ہونے ، تربیت مکمل ہونے تک ہم دونوں کو یاد ہی نہیں تھا کہ ہماری دوستیاں تعلقات کتنی لڑکیوں کے ساتھ رہی ہیں اورہم اب تک کتنی شرابیں پی چکے ہیں۔

تربیت مکمل ہونے کے بعد ہم دونوں کو ہی اپنی مرضی کی نوکری مل گئی تھی مگر ہم دونوں کے ہسپتالوں کے درمیان پچاس میل سے زیادہ کا فاصلہ تھا۔ ہم دونوں نے ہی اپنے ہسپتالوں کے قریب گھر خریدلیے تھے اور دونوں ہی گھر والوں کی طرف سے شادی کے لیے شدید دباﺅ میں تھے۔

میرے ساتھ عجیب حادثہ ہوگیا۔ نئے شہر میں آنے کے بعد نئے شہر کے نئے ہسپتال میں جل سے ملاقات ہوگئی۔ وہ اپنی تربیت کے آخری سال میں تھی، ہماری پہلی ملاقات تھی اور پہلی ہی ملاقات میں ہم دونوں کے دلوں میں جلترنگ سے بجنے لگے تھے۔ وہ مجھے اچھی لگی اور میں نے موقع ملتے ہی اپنی پسند کا اظہار بھی کردیا۔ امریکا میں شاید سب سے چھی بات جو میرے ساتھ ہوئی وہ جل تھی۔ ایسی لڑکیاں بہت کم بنائی جاتی ہیں جو ہر طرح سے مکمل ہوتی ہیں۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر اتنے دنوں تک جل کو کوئی پسند کیوں نہیں آیا تھا۔ اس کے آگے پیچھے تو بہت سارے رہے ہوں گے، میں اسے اپنی خوش قسمتی ہی سمجھا تھا۔

گھر والوں نے تھوڑی مزاحمت کی مگر جلد ہی مان گئے اور ہم دونوں نے پاکستان جا کر شادی کرلی تھی۔ انور کی امی شادی میں بھرپور طریقے سے شریک تھیں۔ اسی شادی میں انہوں نے میری ملاقات انور کی ہونے والی بیوی سے کرائی تھی۔ نازنین خوبصورت تھی، ماڈرن تھی ہنستی کھلکھلاتی ہوئی ملی تھی ، مجھے بھی وہ اچھی لگی تھی۔ اس نے کراچی میں ہی انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ جلد ہی ان کی شادی ہوگئی اور وہ بھی امریکا آگئی تھی۔

میرا انور کے گھر بہت آنا جانا تھا اور اچھی بات یہ تھی کہ جل کی بھی نازنین سے اچھی دوستی ہوگئی تھی۔

ہم دونوں کے بچے ہوئے، ہم دونوں کے ماں باپ دو تین بار ہمارے پاس آتے رہے اور خوشی خوشی واپس گئے کہ ہم لوگ اچھی زندگی گزاررہے ہیں۔ ماں باپ اپنے بچوں سے اور چاہتے بھی کیا ہیں۔پھر جیسا کہ ہوتا ہے ویسا ہی ہوا، پاکستان میں انور کی امی کا انتقال ہوگیا۔ ہم دونوں کی ایسی دوستی تھی کہ میں بھی انور کے ساتھ پاکستان گیا تھا تاکہ ان کی آخری رسومات میں شرکت کروں۔ میں ایک ہفتے کے بعد واپس آگیا تھا۔ انور کو دو ہفتوں سے زائد لگ گئے تھے۔

میں اور جل انور کے آنے کے بعد اس کے گھر گئے تھے۔ وہ ٹھیک تھا مگر اداسی نے اس کے وجود کو گھیرا ہوا تھا۔ وہ اپنے ساتھ اپنی امی کی ایک بہت اچھی سی تصویر فریم کرا کر لایا تھا جو سب کے بیٹھنے والے کمرے میں لگی ہوئی تھی۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2