عمران خان کا کرکٹ ریکارڈ اور وجاہت مسعود کا سازشی نظریہ


اقتدار کی ہوس میں چھپی نجس نے جہاں نظام کو تہہ وبالا کیا ہے وہیں صاحبین اقتدار کی چاپلوسی کے قفس میں مقید نام نہاد قلمکاروں نے ادبیت کو داغ دار کرنے میں کوئی کسر نہی چھوڑی۔ سچ پوچھیے تو ایسےہی گل پاشوں نے تخت و تاج کے تاراج ہونے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دور کیا جانا، مغلیہ سلطنت کی نام کی نشانی جب آخری سانسوں پہ تھی تب بھی رقص وسرور کی محفلوں کے بیچ ہر طرف شادابی کی امید شاہ کو شاہ کے وفادار دلاتے رہے اور گلفام دلی کو روند کر چنگیزیوں کے آخری دیے کو گل کرنے آن پہنچے۔ عقل والوں کے لیے اس میں نشانیاں تھیں۔ لیکن! عقل والوں کے لیے بس۔

معاملہ اپنے دیس کا بھی کچھ ملتا جلتا ہی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ یہاں تو دلی لٹ بھی چکی، اور پٹ بھی چکی لیکن ڈھولچی ہیں کہ اپنے کام کیے جا رہے ہیں۔ باور یہ کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اب کی بار دلی کو جس نے لوٹا وہ گلفام تو نہی بس رنگ ڈھنگ سے انگلستانی ہے۔ اس بار طریقئہ واردات بھی بدلا بدلا سا ہے۔ بات کچھ زیادہ پرانی نہی ۔ یہی کوئی پچھلی صدی کے آخری ربع میں جنرل مجیب الرحمن نے یہود ونصاری کے ایجاد کردہ کھیل کرکٹ میں سازش کا جال بنا۔ سال تھا 1978 کا اور منصوبہ چالیس برس کا کہ چار دہائیوں بعد ملک کے واحد نئے نئے نظریاتی جمہوری کے خلاف اسے استعمال کیا جانا تھا۔ سو کیا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اسلامی جمہوریہ نہ صرف یہودیوں کے مہرے نے ہتھیا لیا بلکہ انتہا پسند طالبان خان اقتدار کے ایوانوں تک آگھسا۔ چالبازوں نے کیسی چال چلی کہ دو انتہاؤں کو تنہا ایک میں یکجا کر کے جمہوریت کو خطرے سے دو چار کردیا۔

جناب وجاہت مسعود صاحب مشاق لیکھت ہیں۔ پیشے سے صحافی ہیں لیکن انکی تحریروں میں ادب کی چاشنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ مجھ جیسوں کو انکا شاگرد ہونے کا اعزاز ملے تو بس پھر اردو سے اور مانگنے کی جستجو نہ رہے۔ آپ کے الفاظ پڑھنے کی ضرورت نہی رہتی کیونکہ ان کی مشک بن دیکھے محسوس کی جاسکتی ہے۔ لیکن آپ کا کالم “فتح مبین کی شاخوں پہ انگلیوں کے نشاں ” پڑھ کر دل پر پژمردگی سی چھا گئی۔ یوں لگا کہ نظام کی فرسودگیوں کے دفاع میں اپنے مقام سے ذرا سا جھک کر لکھنا چاہا۔ عاجزی اچھی صفت ہے لیکن کس کے لیے اتنا عجز۔ ایک مجرم کو مظلوم ٹھہرانے کے لیے۔ ظلم ہے سراسر ظلم ۔ خود کے ساتھ بھی اور اپنے طالبعلموں کے ساتھ بھی۔ عجیب و غریب واقعات کا تسلسل قائم کرنے کی سعی کی گئی۔ اپنے تئیں آپ کامیاب بھی رہے کہ تحریر کا ربط بلا خیز تھا۔ حسب دستور قارئین کو جکڑے بھی رکھا لیکن حقائق سے ماورا۔ بات اگر سیاست تک محدود رہتی تو مجھ ایسے ناسمجھوں کے سروں سے گذر کر نا جانے کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی۔ لیکن کرکٹ کیونکہ محبوب ترین مشغلہ رہا تو چند گذارشات کرنے کی سعی کی۔

واقعی ابتدائی برسوں میں عمران خان کا ریکارڈ کچھ متاثر کن نہیں تھا۔ لیکن جن سالوں کا آپ سازش کے ساتھ تال میل جوڑ رہے ہیں دنیا جانتی ہے وہ عمران خان کا زمانہ تھا۔ 1980 سے 1988 تک عمران خان دنیا کا نمبر ایک آل راؤنڈر رہا ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں سڈنی ٹیسٹ لوگوں سے بھلائے نہی بھولتا جب دونوں باریوں میں دینائے کرکٹ کے بہترین بلے بازوں کو بارہ بار میدان بدر کیا۔ بھارت کے ساتھ ہونے والی سیریز میں 13 کی اوسط سے 25 بلے بازوں کو میدان بدر کیا۔ تاریخ کا دوسرا بہترین آل راؤنڈر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اور ملک کے لیے واحد ورلڈکپ جیتنے کا سہرا سر بندھا ہے۔

ایک بات جو مجھے اس سب سے سمجھ آتی ہے یہ ہے کہ ہوسکتا ہے آپ کی بات ٹھیک ہو۔ ویسے بھی یہودی ایجنٹ ہونے کا الزام کہنہ مشق سیاسی ملا اس پہ دھرتے ہیں۔ ہو نہ ہو وہ سب پرفارمنس اسی سازش کا حصہ ہو۔ اب مرد مومن ضیاء الحق اس کی رنگینیوں کو اخبارات کی زینت بننے دے سکتا ہے تو اپنی چال کو کامیاب بنانے کے لیے یہود و ہنود کا بھی جان بوجھ کر اسی کی گیندوں کا نشانہ بننے میں کیا مضائقہ ہے۔ ایسے ہی ہوا ہوگا۔ ہاں یاد آیا وہ بھارتی بلے باز کو پہ در پہ دو باریاں دینا اسی گریٹ گیم کا حصہ تھا کہ لوگوں کے دلوں پہ اس کی دھاک بیٹھ جائے۔

یہاں تک تو ساری باتیں آپ کی ٹھیک ہیں۔ جنرل حمید گل سے لیکر جنرل پاشا تک حرف بہ حرف آمنا و صدقنا۔ لیکن ہمارے میاں صاحب تو اتنے بھولے نہ تھے کہ آنے والے خطرے کو بھانپ نہ سکیں۔ وہ تو علی الاعلان جنرل صاحب کے مشن کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ اور ایسی بھی کوئی بات نہ ہوگی کہ جنرل جیلانی نے اپنے پوشیدہ مہرے سے میاں صاحب کو آشنائی نہ دی ہو۔ پھر کیوں خوامخواہ لاہور میں مہنگے بھاؤ کا پلاٹ دشمن جاں کو دان کردیا ۔ اور اس سے بھی بڑھ کر سازش کے سب سے اہم , یوں کہیے کہ حکم کے اکے کو , شوکت خانم کینسر ہسپتال کا افتتاح بھی دست مبارک سے سرانجام دے ڈالا۔ میاں صاحب تو چلو سیاسی تھے۔ محترم آپ نے بھی خطرے سے آگاہ نہ کیا اور اب چیخ چیخ کے پکارو ہو کہ ہاں ہاں یہ تو وہی ہے جسے چھبیس سال کی عمر میں جنرل مجیب الرحمن نے آج کے دن کے لیے چنا تھا۔ لیکن

اب پچھتائے کیا ہووت

جب چڑیاں چک گئی کھیت

بس ایک بات کا جواب اگر دل مانے تو ضرور دیجیے گا کہ چالیس سال کا انتظار ہضم نہیں ہو رہا۔ کوئی پھکی ہو جو اسے ہضم کرنے میں معاون ہو۔

٭٭٭   ٭٭٭

(عزیز من: میں نے اکتوبر 1978 سے پہلے کا ریکارڈ بتایا تھا۔ آپ 1980 کے بعد کا ریکارڈ بتا رہے ہیں۔ لیفٹنٹ جنرل مجیب الرحمن ہمارے ملک کی تاریخ میں جمہوری صحافت کے خلاف آمریت کے چار اہم ترین آلہ کاروں میں سے ایک تھے۔ قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر، شیر علی خان پٹودی اور مجیب الرحمن۔ یقینی طور پر آپ کی جواں سالی  کے پیش نظر یہ آپ کے براہ راست مشاہدات نہیں ہیں۔ عمران خان سے ہمیں کوئی عناد نہیں۔ ہمارا حق دعویٰ ان کے ورود مسعود سے کہیں قدیم ہے اور ان کی حکومت کے بعد بھی قائم رہے گا۔ ہماری تاریخ پرپیچ ہے۔ آپ پرجوش نوجوان ہیں۔ آپ کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ مطالعہ کرتے رہیے، اپنا نقطہ نظر لکھتے رہیے، اسی سے مجرم کی پہچان اور جرم کی سوچ سمجھ کا راستہ کھلے گا۔ مدیر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).