بشریٰ بی بی کا ریشمی عبایا اور ہماری سوچ


عورت کا لباس ہمیشہ سے یہاں کے لوگوں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ عورت کیا پہنے، کیا نہ پہنے، کیا کب پہنے اور کیا کب نہ پہنے، یہ عورت کو ہم بتاتے ہیں۔ اپنی مرضی کا لباس پہننے والے عورت کو اس کی ہی مرضی کا لباس نہیں پہننے دیتے۔ ہماری تمہاری کیا بات کرنی، بڑی بڑی اداکارائیں، سیاستدان اور مشہور شخصیات بھی اس تنقید سے محروم نہیں۔

اپنے لباس کی وجہ سے نومنتخب وزیرِ اعظم عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی شروع سے ہی تنقید کا نشانہ بنتی آ رہی ہیں۔ عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں ان کا عبایا پھر سے سوشل میڈیا پر چرچا میں رہا۔ ایسے لگتا ہے جیسے بشریٰ بی بی کا عبایا عوام کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ لیکن کیا یہ واقعی اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس پر اتنی بحث کی جائے؟

بشریٰ بی بی اگر عبایا پہنتی ہیں اور نقاب کرتی ہیں تو کیا وہ عمران خان کے شانہ بشانہ نہیں چل سکتیں؟ بالکل چل سکتی ہیں۔ اگر وہ اپنا چہرہ ایک نقاب کے پیچھے چھپا رہی ہیں تو کیا وہ پاکستان کو کوئی نقصان پہنچا رہی ہیں؟ بالکل نہیں۔ وہ تو بس اپنی مرضی سے ایسا لباس پہن رہی ہیں جس میں وہ خود کو مطمئن محسوس کرتی ہیں۔ ہم سے ان کی یہ مرضی ہی برداشت نہیں ہو رہی۔ ایک عورت اپنی مرضی کا لباس پہنے اور وہ سب کرے جو وہ چاہتی ہے یہ نہ ہم کل قبول کر پائے تھے اور نہ ہی آج قبول کر پائے ہیں۔ اب چاہے اس نے عبایا پہنا ہو، سر کے گرد دوپٹہ لپیٹا ہو، گلے میں دوپٹہ ڈالا ہو یا بالکل بھی دوپٹہ نہ لیا ہو، ہم نے ہر حال میں اعتراض کرنا ہے۔ ہمارا مسئلہ عورت کا لباس نہیں بلکہ اس کی مرضی ہے۔ ہم عورت کو اپنی مرضی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے۔

ہم نے اپنے ذہن میں عورتوں کے متعلق ایک مخصوص امیج بنایا ہوا ہے۔ ایک عورت جو عبایا پہنتی ہو اور نقاب کرتی ہو، ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی عوررت ایک چار دیواری میں ہی مقید رہتی ہوگی، کسی سے دو لفظ اعتماد سے نہیں بول پاتی ہوگی، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو یا کسی دفتر میں مینیجر ہو اس کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اگر میں آپ کو بتاؤں کہ ایک برقع پوش خاتون دنیا گھوم سکتی ہے، اپنے شوہر یا باپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہو سکتی ہے، نوکری کر سکتی ہے، گھر اور باہر کے کام ویسے ہی نبٹا سکتی ہے جیسے کوئی بھی عام آدمی یا عورت تو آپ یقین کرکے بھی یقین نہیں کریں گے۔

دوسری طرف ایک ایسی خاتون جو دوپٹہ اوڑھتی ہیں، یا بالکل بھی دوپٹہ نہیں لیتیں انہیں ہم بکاؤ مال سمجھتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ایسی خاتون نے یہ کپڑے ہمیں دکھانے کو پہنے ہیں۔ اگر کوئی خاتون کسی مرد سے آرام سے بات کر لیتی ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ تو آسان ٹارگٹ ہیں، یہ ہمارے ساتھ باہر بھی جائیں گی، کھانا بھی کھائیں گی، ڈیٹ بھی کریں گی، ہو سکا تو سو بھی جائیں گی اور آگے سے کوئی مسئلہ بھی نہیں کریں گی۔

مجھے اکثر مردوں کے پیغامات اس لیے بھی آتے ہیں کہ میں نے کچھ ایسے بولڈ موضوعات پر بھی قلم اٹھایا جن پر عموماً لکھا نہیں جاتا۔ بظاہر تعریفی جملوں کے پیچھے جو مزہ لینے کی خواہش چھپی ہوتی ہے وہ دور سے ہی اپنا پتہ دے رہی ہوتی ہے۔ پھر جب انہی مردوں کے منہ سے عورت کی عزت پر لمبی چوڑی تقریر سنتی ہوں تو حیران ہوتی ہوں۔

صرف مردوں کا ہی ذکر کیوں، کچھ عورتیں بھی ایسی ہیں جو دوسری عورتوں کو ان کے لباس کی بنیاد پر جج کرتی ہیں۔ خود عورت ہو کر دوسری عورت کا احترام نہیں کرتیں۔ خود جانتی ہیں کہ ان کے ساتھ ہونے والے واقعات میں ان کے لباس کا کوئی قصور نہیں لیکن دوسری عورتوں کے لباس کو ضرور جج کرتی ہیں۔

ہمارا مسئلہ بشریٰ بی بی کا عبایا یا کسی لڑکی کی جینز کی پتلون نہیں بلکہ مسئلہ ہماری وہ سوچ ہے جو کسی بھی عورت کو اس کی مرضی کرتا نہیں دیکھنا چاہتی۔ جس دن ہماری یہ سوچ تبدیل ہو جائے گی اس دن نہ ہمیں بشریٰ بی بی کا عبایا تنگ کرے گا اور نہ ہی کسی لڑکی کی جینز کی پتلون۔ اس دن ہم ان سب کو انسان سمجھیں گے جنہیں آزاد پیدا کیا گیا ہے اور جو اپنی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزارے کا اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا کہ ہم۔ اس دن ہم ان کے لباس سے نکل کر ان کے خیالات تک پہنچیں گے اور ان پر بات کریں گے۔ اس دن کے لیے ہمیں کتنا انتظار کرنا ہے یہ آپ سب پر منحصر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).