سردار عثمان بزدار وزیر اعلیٰ کے لئے کیسے نامزد ہوئے



عثمان بزدار تونسہ شریف سے تعلق رکھتے ہیں ان کے والد پرانے پارلیمنٹرین ہیں وہ جنرل ضیاء الحق دور میں مجلس شوریٰ کے رکن نامزد ہوئے۔ اس کے بعد مختلف سیاسی اور غیر سیاسی ادوار میں رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔ عثمان بزدار جنرل مشرف دور میں تونسہ تحصیل کے تحصیل ناظم رہے۔ خواجہ شیراز محمود تونسہ شریف کی روحانی شخصیت ہیں اس دفعہ عثمان بزدار ان کے پینل پر صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ وہ چند ماہ پہلے مسلم لیگ ن چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔

ان کے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے کے فیصلے میں ان کے کزن اور برادر نسبتی تیمور بزدار کا اہم کردار تھا۔ تیمور بزدار ان دنوں ڈی پی او لودھراں تھے اسی پوسٹنگ کے دوران جلد ہی وہ تحریک انصاف کے راہنما جہانگیر ترین کی نظروں میں مقام بنا گئے۔ انتخابات کے بعد جب حکومت سازی کا مرحلہ درپیش آیا تو شاہ محمود قریشی جو صوبائی نشست پر شکست کھا گئے انہیں وفاقی سطح پر حکومت سازی اور دوسری جماعتوں سے رابطے کے لئے شریک کیا گیا۔ جبکہ جہانگیر ترین کو پنجاب میں حکومت سازی اور جوڑ توڑ کا ٹاسک دیا گیا۔

جہانگیر ترین کے قریب سمجھے جانے والے علیم خان اپنے اوپر الزامات لگنے اور نیب میں طلب کیے جانے کے باعث وزیر اعلیٰ پنجاب کی دوڑ سے آؤٹ ہو چکے تھے جبکہ دیگر امیدواران چکوال سے راجہ یاسر سرفراز اور لاھور سے ڈاکٹر یاسمین راشد کے ناموں پر غور تو کیا گیا لیکن چند وجوہات کی بنا پر ڈراپ کردیا گیا۔ جب اس بات پر اجماع ہوگیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب جنوبی پنجاب سے ہوگا تو پھر جہانگیر ترین کی نظر انتخاب تیمور بزدار کے برادر نسبتی عثمان بزدار پر جا ٹھہری۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف کو پنجاب میں شمالی پنجاب کی نسبت جنوبی پنجاب میں زیادہ نشستیں حاصل ہوئیں۔ اور یہ فیصلہ جنوبی پنجاب کے احساس محرومی کے لئے اھم قدم بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن آنے والے دنوں میں یہ ثابت ہوگا کہ عثمان بزدار اپنے فیصلوں میں کس قدر آزاد ہیں اور کیا وہ محض جہانگیر ترین کے نمائندے کی طرح پنجاب حکومت چلائیں گے اور کہیں پنجاب میں غلام حیدر وائیں ماڈل دوبارہ تو نہیں آگیا جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب وائیں تھے لیکن اصل اختیار شہباز شریف کے پاس تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).