عطاالحق قاسمی کا کالم اور ایک صحافی کی خود داری کا دھڑن تختہ


اٹھارہ اگست پاکستان کی تاریخ میں عمران خان کے وزارت عظمےٰ کا حلف اٹھانے کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا لیکن احفاظ الرحمنٰ اور ان کے اہل خانہ اس تاریخ کو کسی اور وجہ سے بھی یاد رکھیں گے۔ اس روز عطاالحق قاسمی نے اپنے کالم میں جہاں آزادی صحافت کے لئے احفاظ الرحمن کی خدمات کو سراہا اور چند بہت اچھی تجاویز بھی پیش کیں جیسے نئی نسل کو پاکستان کے چند جی دار صحافیوں کے ناموں سے روشناس کرانا چاہئیے۔ نصابی کتب میں ان کے بارے میں ایک باب شامل کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔

احفاظ الرحمن کے حوالے سے انہوں نے پی ایف یو جے کے عہدے داروں کو تجویز پیش کی کہ انہیں اسلام آباد بلا کے ایک شان دار تقریب منعقد کی جائے تا کہ ہمیں یقین آ سکے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ اس تقریب سے کسی پر کوئی آنچ نہیں آئے گی کیونکہ احفاظ الرحمن ایک عرصے سے کینسر کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اس کے علاوہ وہ صحافتی کینسر کے خلاف بھی سینہ سپر رہے ہیں۔ قاسمی صاحب نے بلا شبہ بہت محبت اور خلوص سے اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن پھر انہوں نے اپنے طور پر ہی یہ  فرض کر لیا کہ احفاظ الرحمنٰ اس موذی مرض میں مبتلا ہیں، اس لئے انہیں مالی مدد کی ضرورت ہو گی۔ اور پی ایف یو جے کو اس کے لئے کچھ کرنا چاہئیے خواہ (نگراں)حکومت سے ہی مدد کیوں نہ لینی پڑے۔

عطاالحق قاسمی صاحب کی نیک نیتی پر مجھے کوئی شک نہیں لیکن احفاظ الرحمن کی ’نصف بہتر‘ ہونے کی حیثیت سے چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ چند سال قبل جب احفاظ کے کینسر کی تشخیص ہوئی اور حلقوم  LARYNX کا آپریشن اور اس کے ایک ماہ بعد تھائیرائیڈ کا آپریشن ہوا تو وہ اس وقت بھی اسی اردو اخبار کے میگزین ایڈیٹر تھے جس کے لئے وہ آج بھی کام کر رہے ہیں۔ وہ قلم مزدور ہیں اور عالمی ادارہ محنت اور ٹریڈ یونین کے ضابطوں کے تحت انہیں اپنے ادارے سے طبی علاج معالجہ کی سہولت حاصل ہے۔ آپریشن کے بعد ایک ماہ تک ریڈیو تھراپی ہوئی جسے اسپتال والے شعاعوں کا علاج کہتے ہیں ۔ اس دوران ان کی کتاب ”سب سے بڑی جنگ“ کی کمپوزنگ ہو چکی تھی اور وہ ریڈیو تھراپی کے سیشن کے بعد گھر آ کے مسودے کی پروف ریڈنگ کرتے تھے اور غلطیاں درست کرتے تھے۔ریڈیو ایکٹیو آیوڈین آئیسولیشن تھراپی اور دیگر ٹیسٹس کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں کینسر سے کلئیر قرار دے دیا اور اب وہ باقاعدگی سے دفتر جاتے ہیں اور خود کار ڈرائیو کرتے ہیں حالانکہ ہم سب ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں کہ ڈرائیور رکھ لیں مگر وہ خود ڈرائیونگ کر کے مطمئن رہتے ہیں۔

حال ہی میں احفاظ نے اپنی چند نظمیں عطاالحق قاسمی کو بھیجی تھیں اور ان کے بعد فون پر ان سے بات کی تھی۔ واضح رہے کہ آپریشن کے بعد احفاظ کی قوت گویائی چلی گئی ہے اور اب وہ ایک آلے کی مدد سے بات کرتے ہیں۔ عطاالحق قاسمی کو فون پر ان کی بات سمجھنے میں دشواری ہوئی تو احفاظ نے ریسیور اپنے کولیگ کو تھما دیا جس نے انہیں بیماری کا احوال بھی سنایا۔عطاالحق قاسمی نے نظمیں تو شائع نہیں کیں کیونکہ بقول ان کے وہ ایمان کے تیسرے درجے پر فائز ہیں لیکن متذکرہ بالا کالم لکھ دیا اور پی ایف یو جے سے مالی مدد کی اپیل بھی کر ڈالی۔

اب پی ایف یو جے کا کچھ ذکر ہو جائے۔ کہاں منہاج برنا اور نثار عثمانی کا دور اور تحریکیں اور کہاں اب ٹکڑوں میں بٹی ہوئی موقع پرستی کا شکار تنظیمیں۔ ستر کے عشرے سے احفاظ ا لرحمن پی ایف یو جے اور کے یو جے کے مختلف عہدوں پر فائز رہے ہیں اور اس تحریک کو عروج پر پہنچایا۔ منہاج برنا کی قیادت میں صحافیوں کی سب سے بڑی جنگ لڑنے کے بعد جب ضیاالحق کے دور میں اخبارات میں نوکری ملنا ناممکن ہو گیا تو احفاظ میرے اور بچوں کے ساتھ بیجنگ چلے گئے۔ وہاں غیر ملکی زبانوں کے اشاعت گھر میں آٹھ سال کام کرنے کے بعد ہم کراچی واپس آگئے اور احفاظ الرحمن کو روزنامہ جنگ میں میگزین ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی وہ پی ایف یو جے کے صدر منتخب ہوئے۔

اسی دوران جیو شروع ہوا، انتظامیہ نے انہیں جیو میں ملازمت کی پیشکش کی ۔ اس کے لئے انہیں دوبئی جا کے رہنا پڑتا لیکن احفاظ الرحمن کے لئے پی ایف یو جے کی ذمہ داریاں زیادہ اہمیت رکھتی تھیں ،اس لئے انہوں نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔ بعد میں صحافیوں کو ویج بورڈ دلوانے کی جدوجہد کے نتیجے میں انہیں جنگ چھوڑنا پڑا اور کچھ عرصہ بعد وہ ایکسپریس گروپ سے وابستہ ہو گئے۔ اور پھر ہوا یوں کہ پی ایف یو جے پر مفاد پرست اور موقع پرست قیادت قابض ہو گئی اور احفاظ الرحمن الگ تھلگ ہو کر اپنے قلم سے طاقتور گروہوں اور حکومتوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے رہتے ہیں۔ وہ قلم کے مزدور ہیں اور انہیں کسی کی مالی مدد کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی بندوں کا رزق خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ایک در بند ہوتا ہے تو وہ ستر در کھول دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).