افغانستان: امن کے لئے اعتماد سازی ضروری ہے


\"afghan\"پاکستان نے افغان حکومت اور عسکری گروپ حزب اسلامی کے درمیان مجوزہ معاہدہ کی حمایت کی ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس معاہدہ کے نتیجے میں افغانستان میں دہشتگردی اور جنگ جوئی میں مصروف دیگر گروپ بھی مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں گے۔ اس دوران بدھ کے روز اسلام آباد میں افغان امن مذاکرات کیلئے کوششیں کرنے والے چار ملکوں کے نمائندوں کا اجلاس بھی ہوا۔ اگرچہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس قسم کے اجلاس میں شرکت سے انکار کیا تھا لیکن اس اجلاس میں شریک ہونے سے انکار نہیں کیا گیا۔ اس طرح افغانستان کی حکومت نے موجودہ پیچیدہ اور مشکل صورتحال کو سمجھنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ صدر اشرف غنی اپریل کے آخر میں کابل میں ہونے والے دہشت گرد حملہ کے بعد پاکستان سے طالبان کے خلاف کارروائی کا تقاضہ کر رہے تھے۔ چار ملکوں کے نمائندے اگرچہ افغانستان کے امن مذاکرات میں طالبان کو شامل کرنے کے حوالے سے کوئی پیش رفت تو نہیں دکھا سکے لیکن اس گروپ کے مشترکہ بیان میں یہ اقرار کیا گیا ہے کہ قیام امن کیلئے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے۔

افغان مذاکرات کیلئے کوششیں کرنے والے ملکوں میں پاکستان کے علاوہ امریکہ ، چین اور افغانستان شامل ہیں۔ ملک میں پندرہ برس تک اتحادی فوجوں کی کارروائی کے باوجود طالبان کو شکست نہیں دی جا سکی اور نہ ہی ان کے حوصلے پست کئے جا سکے ہیں۔ اس وقت نصف ملک پر طالبان کی باالواسطہ حکمرانی ہے۔ اور وہ مسلسل بات چیت کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ افغان حکومت کا خیال ہے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے لیکن وہ اس حوالے سے مناسب دباؤ استعمال کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ خاص طور سے یہ خبریں سامنے آنے کے بعد کہ متعدد افغان طالبان رہنماؤں کے اہل خاندان پاکستان میں رہتے ہیں اور یہ لیڈر ان سے ملنے کیلئے پاکستان آتے رہتے ہیں، اس قیاس کو تقویت ملی ہے کہ پاکستان اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے افغان طالبان کو استعمال کر رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی طرف سے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کیا جاتا ہے۔ سرکاری طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے نتیجہ میں پاکستان نے ہر طرح کے دہشت گردوں کے خلاف بلاتخصیص کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ قبائلی علاقوں اور شمالی وزیرستان میں ایسے دہشتگرد گروہوں کے ٹھکانے تباہ کئے گئے ہیں جو پاکستان کے علاوہ افغانستان میں بھی حملے کرتے رہے ہیں۔ اس لئے بدستور یہ کہنا کہ پاکستان اچھے اور برے طالبان کی تخصیص کر رہا ہے، درست الزام نہیں ہے۔

امریکہ نے کسی حد تک پاکستان کے موقف کی تصدیق کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بار پھر واشنگٹن سے پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کی حمایت کرنے اور اس کے ذریعے طالبان میں زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوششیں کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کا موقف ہے کہ امریکہ پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کی اعانت کرنے کا الزام تو عائد کرتا ہے لیکن وہ یہ نشاندہی کرنے میں ناکام رہتا ہے کہ یہ گروہ کون سے علاقوں میں موجود ہے تا کہ اس کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے اور افغانستان کے علاوہ پورے خطے میں دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے صورتحال کو وسیع تناظر میں دیکھنے اور مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ تاہم ابھی تک فریقین امن کی اہمیت اور ضرورت تسلیم کرنے اور اسے مذاکرات کے ذریعے حاصل کرنے کا عزم کرنے کے باوجود ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الزام تراشی اور شبہ کے اس ماحول میں نہ تو صورتحال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جا سکتا ہے اور نہ ہی باہمی اشتراک کو اس نہج تک پہنچایا گیا ہے کہ افغانستان میں حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے والے گروہ یہ جان لیں کہ اب ان کے پاس مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

پاکستان شروع سے طالبان تحریک کا معاون رہا ہے۔ یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے کہ 9/11 کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور افغانستان پر امریکہ کی چڑھائی کے بعد کچھ عرصہ تک تو پرویز مشرف کی قیادت میں پاکستانی حکومت نے پوری دلجمعی سے امریکہ کا ساتھ دیا لیکن جب امریکہ نے افغانستان میں پاکستانی مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے بھارتی اثر و رسوخ کیلئے راہ ہموار کرنا شروع کر دی تو طالبان کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے والے سابق فوجی حکمران نے بھی دو رخی حکمت عملی اختیار کرنا ضروری سمجھا۔ ایک طرف دہشتگردوں کو امریکہ کے حوالے کیا جا رہا تھا لیکن دوسری طرف پاکستانی ایجنسیاں افغان طالبان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھیں اور شاید انہیں کسی حد تک امداد بھی فراہم کر رہی تھیں۔ تاہم افغانستان میں طالبان کے قوت پکڑنے کا سارا الزام پاکستان کے سر نہیں تھوپا جا سکتا۔ اتحادی افواج بھی افغانستان میں اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہیں اور امریکہ کی اعانت سے حکومت سنبھالنے والے عناصر نے ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کمانے اور مختلف علاقوں میں گروہی وابستگیوں کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کیلئے اقدام کئے۔

امریکی اور اتحادی افواج کا افغان عوام سے رابطہ انہی بدعنوان اور ناقابل اعتبار افغان حکمران ٹولے کے ذریعے تھا۔ اسی لئے افغان عوام میں یہ شعور بیدار نہیں ہو سکا کہ اتحادی افواج انہیں ایک دہشتگرد اور شدت پسند گروہ کے چنگل سے نجات دلانے کیلئے سرگرم ہیں۔ اس کے برعکس وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج نے ان کے ملک پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس احساس کی وجہ سے عام افغان شہری مشکلات اور طالبان کے جبر کے باوجود غیر ملکی تسلط کے خلاف جنگ کے نام پر ان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہونے لگے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے افغان عوام کی اس مایوسی اور اتحادی افواج کے خلاف ردعمل کو زائل کرنے کی بجائے، خود امریکہ کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کر دی تاکہ انہیں عوام میں مقبولیت حاصل ہو سکے۔ اس طرح طالبان کے خلاف کبھی بھی نہ تو رائے عامہ ہموار ہو سکی اور نہ ہی وہ فضا پیدا ہو سکی جس میں طالبان کے ماضی کی روشنی میں ان کے جبر اور قہر کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں کو تیار کیا جا سکتا۔

ان حالات کو تبدیل کرنے کے لئے افغانستان کی حکومت کو پاکستان کے علاوہ اتحادی ملکوں کے ساتھ مل کر اعتماد کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن کوئی بھی دہشت گرد حملہ ہونے کی صورت میں کابل کے حکمران بدحواس ہو کر پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں جب بھی کوئی تخریبی کارروائی ہوتی ہے تو یہ اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس میں افغانستان میں موجود پاکستان دشمن عناصر کا ہاتھ ہے۔ افغانستان کے علاوہ امریکہ بھی یہ سمجھنے سے انکار کرتا رہا ہے کہ دو برس سے دہشتگرد اور انتہا پسند عناصر کے خلاف سخت فوجی کارروائی کرنے کے باوجود پاکستانی فوج ابھی تک اپنے ملک کو بھی مکمل طور سے دہشتگردی سے نجات دلانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ سال رواں کے دوران باچا خان یونیورسٹی چارسدہ اور گلشن اقبال پارک لاہور میں ہونے والی دہشتگردی کی اندوہناک کارروائیاں اس کی مثال ہیں۔ کل ہی ملتان میں القاعدہ کے 8 دہشتگردوں کو ہلاک کیا گیا ہے جو بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

اس صورت میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں جیسے دشمن کے خلاف جنگ میں کامیابیوں کے ساتھ نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ تاہم اگر ایسے مواقع پر اعتماد سازی کی بجائے الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہو جائے تو صورتحال دشوار ہو جاتی ہے۔ اس دوران پاکستان کے خلاف کابل حکومت کے جارحانہ رویہ نے بھی ممکنہ مذاکراتی عمل کو متاثر کیا ہے۔ اس دوران پاکستان میں بھارتی جاسوسوں کے نیٹ ورک کا سراغ بھی لگایا گیا ہے۔ یہ جاسوس صرف ایک ملک کی طرف سے پاکستان میں داخل نہیں ہوتے تھے۔ نہ ہی ان کے اہداف کسی ایک خاص علاقے تک محدود تھے۔ بلکہ وہ پاکستان میں عام طور سے تخریب کاری کے مشن پر روانہ ہوئے تھے۔ اس کامیابی پر پاکستانی ایجنسیوں نے اگرچہ اپنے شہریوں کو دہشتگردی سے محفوظ کیا ہے لیکن اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ مسلح گروہوں کی سرپرستی میں صرف پاکستان ہی ملوث نہیں ہے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے صرف پاکستان پر دباؤ ڈالنے سے مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔

بدقسمتی سے مشترکہ مقاصد کیلئے مشترکہ کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے صدر اشرف غنی نے بھی درشت اور جارحانہ رویہ اختیار کیا اور امریکہ کی طرف سے بھی یکے بعد دیگرے متعدد پاکستان مخالف اقدامات سامنے آئے ہیں۔ پہلے ایف 16 طیاروں کی خریداری کے لئے معاہدہ کے مطابق پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد میں سے ادائیگی کرنے سے انکار کیا گیا۔ پھر کولیشن سپورٹ فنڈ میں سے پاکستان کو ملنے والے حصے کی ادائیگی پر قدغن لگائی گئی۔ اس کے علاوہ امریکی کانگریس اور میڈیا نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان سب اقدامات کا پاکستان کے طرز عمل اور افغان مذاکراتی عمل کی پیش رفت پر اثر پڑنا لازم تھا۔ بدقسمتی سے الزام تراشی کی فضا تیار کرنے سے پہلے پوری صورتحال کو سمجھنے اور تمام عوامل کو جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ افغانستان میں امن مذاکرات کی منزل مسلسل دور ہو رہی ہے۔

تاہم افغانستان نے اب حزب اسلامی کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کا جو اقدام کیا اور امریکہ نے گلبدین حکمت یار اور ان کی تنظیم کو دہشتگرد قرار دینے کے باوجود جس طرح امن کیلئے افغان حکومت کے اقدام کو قبول کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی رویہ طالبان کے بارے میں بھی اختیار کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اگرچہ حزب اسلامی فی الوقت ایک غیر موثر گروہ ہے لیکن ماضی قریب میں وہ کابل میں دہشتگرد حملے کرتا رہا ہے جن میں امریکی فوجی اور شہری بھی ہلاک ہوئے تھے۔ حزب اسلامی کے ساتھ معاہدہ کے نتیجہ میں طالبان کو یہ پیغام ضرور بھیجا جا سکتا ہے کہ افغان حکومت اور اس کے اتحادی مذاکرات کی صورت میں انہیں بھی ویسی ہی مراعات دینے کیلئے تیار ہیں۔ پاکستان کو یہ پیغام طالبان تک پہنچانے اور انہیں مذاکرات شروع کرنے کیلئے آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ کیونکہ جیسا کہ چہار ملکی رابطہ گروپ نے قرار دیا ہے کہ مسئلہ کے سیاسی حل کے لئے  مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali