قوم شہباز شریف کی وزارت عظمی سے بچ گئی


قوم کی خوش قسمتی اور شہباز شریف کی بدقسمتی دیکھیے کہ آخرکار شہباز شریف کے وزارت عظمی کے خواب چکنا چور ہوئے۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان کے وزارت اعلی کے دور کا خاتمہ بھی ہوا ۔ یعنی نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔ اگر خدا نخواستہ شہباز شریف وزیر اعظم بن جاتے تو محرومیاں اور بڑھتیں اور کشیدہ حالات مزید خراب ہوتے۔ کیونکہ ان میں قومی رہنما کے خواص بالکل بھی نہیں پائے جاتے۔ دوسری طرف ان میں یقینا سخت حالات کا سامنے کرنے کیلئے ہمت کا شدید فقدان ہے۔ اس کا مظاہرہ انھوں نے برسوں پہلے طالبان کو بھائی بنا کر ( طالبان ہمارے بھائی ہیں ) اور اب پارٹی کو سخت حالات میں کمزور سربراہ بن کے کیا ہے۔

شہباز شریف کے خواص اور کارکردگی کی بنیاد پر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے ۔ کہ وہ رہنما سے زیادہ منیجر لگتے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو پنجاب کے لوگوں کا ، انھیں تین مرتبہ وزیراعلی کے اعزاز سے نوازا۔ خیبر پشتونخوا کے عوام تو شاید انھیں دوسری مرتبہ ہی بننے نہ دیتے ۔ اور بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے والے بھی انھیں دوسری مرتبہ وزیراعلی بنانے کے حوالے سے یقینا سوچتے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بحیثیت وزیراعلی ان کی کارکردگی بہت بری رہی ۔ بلکہ یہ کہ ان میں قومی رہنما تو درکنار پارٹی سربراہ بننے کے خواص موجود نہیں۔ یہ بات نواز شریف کے جیل جانے کے بعد ان کی پارٹی کے سربراہ کے طور پر بری طرح سے آشکار ہوئی ہے۔ لیکن ظاہر ہے پاکستان میں موروثی سیاست کی وجہ سے پارٹی کی طرف سے کسی اور شخصیب کے رہبری سنبھالنے کی جرات یقینا ناپید ہے۔

تو جو رہنما پارٹی کی رہنمائی نہ کر سکتے ہوں۔ وہ ایک مسائل سے بھرے فیڈریشن کو کیا خاک سنبھالیں گے۔ لگتا ہے ان کے زوال کے دن شروع ہوگئے ہیں۔ ویسے شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو سیاستدان سے زیادہ حکومتدان کہنا مناسب ہوگا۔ کیوںکہ دونوں پر ناقابل یقین حد تک حکومت کا بھوت سوار ہوتا ہے۔ اول الذکر تو سیاسی سمجھ بو جھ کی اتنی اہلیت نہیں رکھتے اور موخر الذکر نے اپنی زیرک نظری اور سیاسی سمجھ بوجھ کو ہمیشہ اقتدار کی چوکھٹ پہ لا کر بے قدر کر دیا ہے ۔ اور ان دونوں کی اس ذہنیت کی اس سے بہترین مثال اور کیا ہوگی کہ اپوزیشن اپوزیشن کے شطرنج کھیل میں وہ اپنے مہرے کمزور بساط پہ بھی بادشاہت پر قبضہ جمانے کی طرف بڑھانے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).