جنرل کی جپھی اور نئے پاکستان کے قیام میں نوے منٹ کی تاخیر


وزیر اعظم عمران خان  سوموار کو بیس رکنی نئی کابینہ کی حلف برداری سے پہلے قوم سے خطاب کرنا چاہتے تھے۔ اس میں ڈیڑھ گھنٹہ کی تاخیر کسی بھی مجبوری کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔ لیکن آٹھ بجے کے مقررہ وقت پر قوم نئے وزیر اعظم کے پالیسی خطاب کا انتظار کر رہی تھی اور وزیر اعظم کے مشیر اور نامزد وزیر اطلاعات فواد چوہدری یہ بتانا بھول گئے کہ اس براڈ کاسٹ میں تاخیر ہوجائے گی۔ اس کا اعلان ایک ٹویٹ کے ذریعے بالآ خر آٹھ بج کر بیس منٹ پر کیا گیا۔ ملک کے ووٹروں نے بائیس برس بعد عمران خان کو نیا پاکستان بنانے کا موقع فراہم کیا ہے تو انہیں شاید اس بات کی عادت ڈال لینی چاہئے کہ اس نئے پاکستان کی تعمیر میں ذرا تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی جتنی جلد خود بھی یہ سمجھ لیں اور عوام کے علاوہ اپنے حامیوں کو بھی یہ باور کروا دیں کہ ایسے کاموں میں جلدی کرنا درست نہیں ہے۔ دیر سویر زندگی کا حصہ ہے۔ اس لئے انہیں صبر کرنے اور حالات پر شاکر رہنے کی عادت ڈال لینی چاہئے۔ اگرچہ اسی صبر کو بے صبری اور خاموشی کو احتجاج کے نعرے میں بدل کر عمران خان نے اپنے حامیوں کی اتنی بڑی فوج تیار کی ہے جو ہر کام بے صبری سے اور جلد کر گزرنا چاہتی ہے۔

اہل پاکستان ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے محاورہ کی عملی تعبیر دیکھنے کے عادی ہیں۔ اسی لئے وہ لیڈروں سے جلد اکتا جاتے ہیں اور پرانی باتوں کو بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ جو لیڈر پیش منظر پر ہو گا اور جو بلند بانگ دعوے کر کے اس مقام تک پہنچا ہے، اس کی طرف سے عذر خواہی شاید تحریک انصاف کے لوگوں کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہو گی۔ جیسا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر سردار عثمان بزدار کی نامزدگی پر سب سے زیادہ احتجاج تحریک انصاف کے حامیوں ہی طرف سے ہو رہا ہے۔ یہ نوجوان تعلیم یافتہ اور ملک کے لئے ایک ایسا خواب دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں جس کی تعمیر میں وہ خود نعرے لگانے کے علاوہ کوئی کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ دوسروں کو اپنے مسائل کا ذمہ دار قرار دینے کی اسی روش نے ملک کےمسائل میں ہمیشہ اضافہ کیا ہے۔ اس کا مظاہرہ 18 اگست کو وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر مسلم لیگ (ن) اور شہباز شریف نے بخوبی کیا ہے۔ شہباز شریف کو پنجاب میں گزشتہ دس برس حکومت کرنے کا موقع ملا، جبکہ مسلم لیگ (ن) مرکز میں پانچ برس تک برسر اقتدار رہی۔ اب یہ دونوں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے، ان سے سبق سیکھنے اور تحریک انصاف کی کامیابی کو قبول کرنے کی بجائے ہنگامہ آرائی ، نعروں اور دشنام طرازی کا وہی مقابلہ شروع کرنا چاہتے ہیں جو عمران خان کامیابی سے پانچ برس تک جیتتے چلے آئے ہیں۔

اب بھی دھاندلی کو اپنی محرومی کا سبب قرار دیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود انتخابات کے نتائج کو قبول کر کے اسمبلیوں کے ارکان کے طور پر حلف بھی اٹھا لیا گیا ہے۔ یہ تو اچھا ہؤا کہ منتخب ارکان کی ایک بہت بڑی اکثریت نے ایک ذمہ دارانہ فیصلہ کیا ہے لیکن اس کے بعد انہیں یہ بھی تسلیم کرلینا چاہئے کہ اب آگے بڑھنے، تحریک انصاف کی حکومت کو کام کرنے کا موقع دینے اور پاکستان کی تعمیر میں دست تعاون دراز کرنے کا حوصلہ کرنا چاہئے۔ جو ڈرامہ کل قومی اسمبلی میں رچایا گیا اسی کا مظاہرہ آج پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر کیا گیا۔ عثمان بزدار نے البتہ منتخب ہونے کے بعد یہ ’انقلابی‘ بیان دے ڈالا ہے کہ وہ گڈ گورننس کو یقینی بنائیں گے ۔ اور ان کے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر رکن صوبائی اسمبلی کو ا پنے اپنے حلقے میں وزیر اعلیٰ کے اختیارات تفویض کردئیے جائیں ۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ یہ کارنامہ عظیم کیسے انجام دیں گے لیکن انہیں یہ تو بتانا ہو گا کہ اگر پنجاب کا ہر رکن صوبائی اسمبلی اپنے حلقہ میں وزیر اعلیٰ ہو گا تو وہ خود کیا کریں گے۔ اس کے علاوہ ملک میں مقامی سطح پر انتظام چلانے اور معاملات طے کرنے کے لئے لوکل باڈیز کے نظام کی حیثیت کیا ہوگی۔ عثمان بزدار چونکہ نامزدگی کے ساتھ ہی متنازع ہو گئے ہیں اور ان کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں سامنے آنے لگی ہیں ، اس لئے شاید میڈیا نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا اور اپوزیشن تو ابھی کالی پٹیاں باندھ کر حمزہ شہباز کو وراثت منتقل نہ ہونے کا سوگ منانے میں مصروف ہے۔ ورنہ نئے نویلے وزیر اعلیٰ سے یہ پوچھنا تو ضروری ہے کہ اسمبلیوں کے ارکان انتظامی اختیارات استعمال کرنے کے لئے منتخب نہیں ہوتے بلکہ انہیں قانون سازی کے ذریعے انتظامیہ اور مقامی سطح پر کام کرنے والے اداروں کو سہولتیں فراہم کرنے کا فریضہ تفویض ہؤا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں حضرت محمد ﷺکے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کو ظہور اسلام کے بعد مدینہ منورہ میں قائم ہونے والی ریاست کا نمونہ بنانے کی بات کی ہے۔ اور 28 ہزار ارب روپے کے بیرونی قرضوں کا سود دینے کے لئے مزید قرضے لینے کا ذکر کرنے کے بعد کفایت اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے جو پانچ رہنما اصول قوم کو دئیے ہیں ان میں قانون کی بالا دستی ، زکوۃ کی ادائیگی، ایک دوسرے سے ہمدردی، میرٹ اور تعلیم شامل ہیں۔ انہوں نے حکمرانوں کے پر تعیش طرز زندگی کو بدلنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی اور گورنر ہاؤسز کو کسی بامقصد استعمال میں لانے کا ذکر کیا۔ ابھی اس تقریر کی تفصیلات آ رہی ہیں لیکن نئے وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنا لیڈر قرار دینے کے بعد اب رسول پاکﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کی تقدیر بدلنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس تقریر میں البتہ وہ پروگرام بیان نہیں کیا گیا جس پر عمل کرتے ہوئے عمران خان ملک کے قرضے اتار کر اسے ایک خوشحال معاشرہ بنا دیں گے۔ قومی اسمبلی کی دشنام سے بھری تقریر کے بعد قوم سے خطاب میں ایک خواب ضرور بیان ہؤا ہے لیکن جناب وزیر اعظم نوٹ فرمائیں، عوام نے انہیں خواب دکھانے کے لئے نہیں خوابوں کی تعبیر کا راستہ بتانے کے لئے منتخب کیا ہے۔ ہو سکتا ہے چند روز، ہفتوں یا مہینوں میں اس طرف بھی اشارے ملنا شروع ہوں۔ فی الوقت یہ کہنا مشکل ہے کہ وزیر اعظم بننے کی خواہش رکھنے والے عمران خان تحریک انصاف کے چئیر مین سے ملک کے وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ اب ان سے وزیر اعظم کے طور پر بات کرنے کی توقع کی جائے گی۔

رسول پاک ﷺ کا مدینہ اور قائد اعظم کا پاکستان بنانے کی باتیں کرنے والے وزیر اعظم کو اب یہ بھی بتا دینا چاہئے کہ وہ نیا پاکستان بنانے کی جو بات کرتے رہے ہیں وہ دراصل موجودہ پاکستان کو تاریخ کا پہیہ واپس گھما کر پرانے پاکستان کے مقام تک لے جانے کے منصوبہ کا سرنامہ تھا۔ عمران خان کو پاکستان کی مختصر تاریخ میں محمد علی جناح کے بعد کوئی لیڈر اپنے قد کاٹھ کا دکھائی نہیں دیتا اور نہ ہی وہ کسی سیاسی رہنما کی قربانی، ایثار اور محنت کا ادراک کرنے کا اشارہ دیتے ہیں۔ ان باتوں سے صرف یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ ستر برس گنوانے کے بعد قوم نے اب ایک ایسا لیڈر پایا ہے جو حکمرانی کی علامات کو تہ و بالا کردے گا۔ یہ کام کرنے کے بعد جب منزل مقصود کی طرف ملکی معیشت کی گاڑی کھینچنے کی نوبت آئے گی تو زاد راہ کہاں سے دستیاب ہوگا۔ آج قوم کے نام کئے گئے خطاب سے واضح ہؤا ہے کہ عمران خان کو نعرے باز لیڈر سے ذمہ داریوں کا شعور رکھنے والا وزیر اعظم بنتے وقت لگے گا۔ سال بھر بعد شاید ان کی تقریر میں یہ گھن گرج نہ ہو۔

اس دوران گزشتہ روز ایوان صدر میں عمران خان نے جب اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو بھارت سے ان کے دوستوں میں سے صرف سابقہ کرکٹر اور بھارتی پنجاب حکومت میں وزیر نوجوت سنگھ سدھو ہی تشریف لائے تھے۔ گو کہ متعدد سابقہ کرکٹروں کو اس موقع پر دعوت دی گی تھی لیکن سدھو کے علاوہ کسی نے اسلام آباد آنے کا حوصلہ نہیں کیا۔ اس لئے بھارت سے آئے یہ اکلوتے مہمان میڈیا کے علاوہ آرمی چیف کی توجہ کا مرکز بھی بنے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اور نوجوت سنگھ سندھو کی ’جپھی‘ نے پاکستان کے علاوہ بھارت میں بھی دھوم مچا دی ہے۔ کہیں سدھو کو غدار قرار دیا جارہا ہے اور کہیں ان کے جذبہ خیر سگالی کی توصیف ہو رہی ہے۔ تاہم اس جپھی اور ایک بھارتی شہری اور پاکستانی فوج کے سربراہ کے بیچ ہونے والی بات میں اصل نکتہ یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سدھو کے ذریعے بھارت کو امن کا پیغام بھیجا ہے اور خیر سگالی کے اظہار کے لئے وعدہ کیا ہے کہ پاک فوج بابا گرو نانک کے 550 ویں جنم دن کے موقع پر کرتار پورہ کی سرحدی گزرگاہ کو کھول دے گی۔ جہاں بعض روایات کے مطابق سکھ مت کے بانی بابا گورو نانک دفن ہیں۔

آرمی چیف نے یہ وعدہ ایک ایسے وقت میں کیا جب نئی دہلی کی حکومت پاکستان کو ہر عالمی فورم پر نیچا دکھانے کی کوشش کر رہی ہے اور مذاکرات سے انکار کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک نے ایک ایسا وزیر اعظم منتخب کیا ہے جو قانون کی بالادستی کا اعلان کر رہا ہے۔ جاننا چاہئے کہ کون سا قانون پاک فوج کے سربراہ کو غیر نمائندہ بھارتی شہری کے ذریعے سفارتی پیغام رسانی کے علاوہ سرحد کھولنے کی سہولت دینے کا وعدہ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali