مبارک ہو! ق لیگ ہوئی ہے


تبدیلی تبدیلی کی وہ بازگشت تھی کہ کان پڑی سُنائی نہیں دیتی تھی۔ تبدیلی آئی رے، کے فلک شگاف نعروں سے بام و در لرزاں تھے۔ وہ ہیبت چھانے لگی کہ چار دہائیوں پہ محیط زرداری و نواز کی سیاست کی چولیں ہلنے لگیں۔ اہتمام و انتظام و انتصرام میں کوئی کمی روا رکھی نہیں جارہی تھی۔ ایک دہائی پر محیط لاکھوں کی ذہن سازی نے اچھوں اچھوں کو کپتان پہ ایمان لانے پہ مجبور کردیا تھا مگر پھر وہی ہوا جس کا دلِ بدگماں کو خدشہ تھا۔

زرداری سے نواز شریف تک سارے پرانے پاپیوں کے دل دہلنے لگے۔ باریاں لگنے کا آغاز ہوا۔ پہلے نواز شریف گئے، پھر نشستِ صدارت گئی، پھر مع بچوں روز روز خوار ہو کر رہِ زنداں کے مسافر ہوئے۔ بھیا شہباز بھی ذلت آمیز دھول چاٹ چاٹ کر بھی بڑکیں مارنے کا ڈھونگ روا رکھے رہے اور یونہی روز روز کی تیز رفتار اداراتی سازش و سرزنش میں آناً فاناً پر لگائے 25 جولائی بھی آگیا۔ نتائج تو سب کو ہی پتہ تھے۔

پی ٹی آئی کی گود کے ہرے بھرے ہونے کے دن آئے۔ بھئی کوئی بڑے ہی نابکار و ناہنجار قسم کی ناقدین تھے۔ ہر جائز و ناجائز الزام لگا کر پاک و پاکیزہ دامن کو داغدار کرنے کے درپے تھے۔ شروع شروع تو بڑا واویلا ہوا مگر جیسے جیسے دن قریب آتے گئے، دشنام طرازیوں کا سلسلہ معدوم ہوتا معلوم ہونے لگا۔ مگر یہ کیا آخری آخری دنوں میں جو سونو گرافی ہونے لگی تو نئے پاکستان کی انصافی تحریک کے بطن میں نا انصافی پروان چڑھ ہی چکی تھی مگر خیر گھڑی آن ہی پہنچی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ نو منتخب وزیراعظم نے صبح حلف لیا جس میں سوائے ان کے چند ایک یار دوستوں کے کوئی قابلِ ذکر شخصیت ڈھوندے سے نہیں ملی اور جو خبر دوسرے ممالک کی خبروں میں سرِ فہرست رہی اگلے دو گھنٹے میں وہی خبر اپنے ہی ملک میں بطور تیسری چوتھی ہیڈ لائن بن گئی۔

شام ہوئی اورپھر پی ٹی آئی کی دائی نے ٹویٹر پہ ممکنہ کابینہ کا اعلان کردیا۔ مبارک ہو۔ مشرف کا 2002 جنما ہے

یہ ق لیگ یوں ہی نہیں ہوگئی بڑے چلوں، منتوں، چالوں اور تپسیاوں نے ق لیگی کرن ارجن کو جنا ہے۔ پی ٹی آئی کے نظریاتی تو منہ ہی تکتے رہ گئے اور کسی کا بچہ کسی اور کی کوکھ سے جنمایا گیا۔

پی ٹی آئی والے اپنی ہی حکومت میں سگی ماں کا سوتیلا پن دیکھتے رہ گئے مگر خیرخود پرست، کج فہم اور گھمنڈی قیادت سے توقع جو رکھی تھی تو منہ کی تو کھانی تھی۔ تو ہوا کچھ یوں کہ سارے بے معنی اور طاقت و قوت سے محروم عہدے پی ٹی آئی کی ٹاپ بک بک بریگیڈ کو بخش کر سارے اہم ترین عہدے نووارد بہروپیوں اور کپٹیوں میں بٹ گئے۔

ہاں تو کیا بات ہو رہی تھی، اہم عہدے۔ ریاست و ملک کا سب سے بڑا مگر سب سے ناکارہ عہدہ ایک سماٌ بکماٌ عمیاٌ سے لے کر ایک باتونی طوطے کے ہاتھ میں تھما دیا گیا۔ کرنا اس نے بھی ہاتھ سے وہی ہے جو اب تک چُپ شاہ ممنون حسین کرتے رہے۔

سندھ اور کے پی کے گورنری کے فارغ عہدے جن کی کیا چلنی اور ان سے کیا چلانی، کے مصداق عمران اسماعیل اور فرمان شاہ کو بخش کر تسلی کے آنسو پونچھ دیے گئے۔

اب وہ بے کار وزارتیں جو انصافیوں کے حصے میں آئیں۔

شیریں مزاری بنیں وزیر برائے انسانی حقوق، شفقت چیمہ کوملی پتہ نہیں کیا البتہ کچھ تعلیم و تسلیم کا ملغوبہ ان کے آگے ڈال دیا گیا۔

کوئی اور ملک ہوتا تو یہ نہ کہا جاتا مگر پاکستان میں وزارتِ دفاع کیا اور وزیرِ دفاع کی اوقات کیا مگر پھر بھی اس کے لیے رسک نہیں لیا جا سکتا سو پرویز خٹک صاحب کے پی کی وزارتِ اعلیٰ کا کھیل جاری رکھیے۔

اصل ناگفتہ بہ حالات ومعاملات وزارت ِ داخلہ وخارجہ کے ہیں۔ وزارتِ خارجہ جس کی حقیقت کا علم اگر کسی کو ہے تو شاہ صاحب کو ہی اور کیسے یہ وزارت ڈستی ہے اس کی چبھن کا اندازہ بھی ان کو ہی ہے۔ آخر اسی وزارت میں ٹرٹر کرنے کی کوشش میں گھر کے رہے تھے نہ گھاٹ کے۔ مگر خیر آپ سبق سیکھ چکے ہیں اور یہ کہ جو آپ چاہ رہے تھے وہ تو آپ کو ملنے سے رہا۔

البتہ فواد چوہدری کو ان کی فرائض کی انجام دہی کے بدلے ایسی ہی چکنے گڑھے والی وزارت سونپی گئی جو ان کے سوا کسی کو زیبا نہ تھی۔

اسد عمر تو خیر اینگرو کے دنوں سے ہی اندرونِ خانہ یار دوست ہیں۔ ان ہی کے سہارے معاملات آگے بڑھیں گے۔

مگر اب ان وزارتوں و عہدوں کی بات کرتے ہیں جو اس قلع قمع کیے ہوئے قلعے کی ازسرِ نو بنیاد کا سبب بنیں گی۔

گورنر پنجاب پرانے ق لیگی غلام سرور، اسپیکر پنجاب اسمبلی ق لیگ کے مائی باپ چوہدری پرویز الہیٰ، وزیراعلیٰ پنجاب سابق تحصیل ناظم عرف دوسرے ممنون حسین مگرسابق ق لیگی عثمان بُزدار۔ گورنر بلوچستان نہ بدلے وہ وہی کے وہی پرانے یار دوست۔ البتہ گورنر بلوچستان باپ کے جام صادق، اسپیکر عبدالقدوس بزنجو۔

سندھ میں پیپلز پارٹی نے عرصہ ہوا پیر پکڑے۔ کے پی میں محمود خان کی گچی تو ہاتھ میں ہے ہی، شاہ فرمان کریں گے ہی کیا اور اسپیکر بھی برائے نام۔

اب ایک نظر کابینہ پر مشرف کے وزیراور پرانے اتحادی ایم کیو ایم کے سابق سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم وزیر برائے قانون، انور منصور اٹارنی جنرل، اتحادی ایم کیو ایم کےخالد مقبول صدیقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی، مشرف کے وزیرِ مذہبی امور نور الحق نئے پاکستان کے بھی وزیرِ مذہبی امور، ق لیگی چوہدری طارق چیمہ بھی فہرست میں شامل۔

پرانے ق لیگی وزیر برائے پیٹرولیم، مشرف کے وزیرِ ریلوے نئے پاکستان کے بھی وزیرِ ریلوے، مشرف دور کے مزید نگینوں میں شامل ہیں زبیدہ جلال وزیر ڈیفنس پروڈکشن، خسرو بختیاروزیر پانی و بجلی، عبدالرزاق داود وزیر صنعت وتجارت و حرفت، امین اسلم وزیر موحولیات اور سابق گورنر اسٹیٹ بنک ڈاکٹر عشرت حسین برائے اصلاحِ ادارہ جات۔

اسی بحث سے قوم کو نابلد رکھنے کے لیے کہاں رہوں گا، کیا کھاؤں گا، کارڈ بھول گیا کبھی شیروانی بھول گئی اور کبھی چلے چکارے۔ پیرکو یہ نوادرات بطور وزیراعظم نئے قائداعظم زیبِ تن کر رہے ہیں۔ ساری کابینہ میں ق لیگی نگینے جڑ کر خان صاحب نےبوٹوں کا نولکھا گلے میں لٹکا لیا۔ تمام انصافیوں کو مبارک ہو نئے پاکستان میں بھی ق لیگ ہی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).