واجپائی بھی چل دیے


اٹل بہاری واجپائی بھارت میں پہلے پندرہ دن، پھر تیرہ ماہ اور اس کے بعد پانچ سال وزیراعظم رہے۔ انتہائی سخت بات بھی انتہائی دھیمے انداز میں کرنا ان کا ہی مزاج تھا۔ وہ ایک شاعر اور مصور بھی تھے، لیکن ان کے یہ دونوں فن ان کی سیاست کے نیچے دب گئے، ساری عمر سیاست کی اور اپنے اندر موجود شاعر اور مصور کو سیاست کے ہاتھوں مرنے سے بچانے کی کوشش کرتے رہے، اب وہ نہیں رہے، ایک بڑی عمر ان کے حصے میں آئی، اور اپنے ملک میں بہت ساری عزت بھی سمیٹی۔

وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے ٹیکنولاجی نے ترقی کی تو سب کچھ دسترس میں آتا گیا، لیکن اخلاقیات کی قدریں تبدیل ہوتی جارہی ہیں، یہی سبب ہے کہ بڑی عمر کے لوگوں کا تبدیل ہوتی اخلاقیات پر رد عمل فطری ہوتا ہے، اور یہ ہر دور اور ہر عمر میں ہوتا رہا ہے، اور ہوتا رہے گا۔ یہی کچھ نوے کی دھائی میں بھی ہوا۔ جب اٹل بہاری واجپائی صرف پندرہ دنوں کے لئے بھارت کے وزیراعظم بنے تھے، ہندستان کے ایک بڑے اخبار نے ایک تصویر چھاپی تھی، جس میں ایک بڑے بل بورڈ پر واجپائی کی تصویر لگی تھی، ایک بڑھیا انتہائی غصے سے اس تصویر کو اپنی جوتی دکھا رہیں تھی۔ بڑھیا کا غصہ اس کے چہرے کی جھریوں سے باہر نکل آیا تھا۔ نیچے کیپشن میں لکھا تھا ’ کیا مجھے اس دن کے لئے زندہ رہنا تھا کہ جس دیش کے حکمران نہرو اور اندرا رہے اب اس ملک کے حکمران تم بن گئے ہو‘۔

ظاہر ہے کہ وہ بڑھیا اب زندہ نہیں ہوگی، ورنہ اسے نریندر مودی جیسے حکمران کی حکمرانی میں تو اس کی طبعی موت کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا!

واجپائی جب بھارت کے وزیراعظم بنے تو یہ بی جے پی کی پہلی حکومت تھی، جو اپنے خمیر میں ایک شدت پسند ہندو پالیسیوں کی بانی تھی، واجپائی دو بار مختصر اور تیسری بار اپنی مکمل مدت کے ساتھ بھارت کے وزیراعظم رہے، ان کے دور میں پہلے نواز شریف اور بعد میں پرویز مشرف کے ساتھ پاک بھارت مذاکرات ہوئے اور امن معاہدہ ہوا، انتہائی دھیمے مزاج کا یہ شخص پاکستان اور بھارت میں تنازعات کو کم کرنے کا خواہشمند تھا، لیکن اپنی شرائط پر۔ وہ نواز شریف کے دور میں امرتسر سے لاہور میں ایک بس پر سوار ہوکر آئے، اور دو ہزار چار میں مشرف دور میں بھی سارک کانفرنس میں شرکت کی۔ نوے کی دھائی کے آخر میں واجپائی کی لاہور سے واپسی ہوئی تو کارگل شروع ہوگیا اور اس کے بعد نواز شریف بھی وزیراعظم ہاؤس سے جیل چلے گئے۔

مولانا فضل الرحمان مشرف کے دور حکومت میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے، وہ دوہزار تین میں بھارت گئے جہاں انہیں دیوبند میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنا تھی، حافظ حسین احمد بھی ان کے ہمراہ تھے۔ دورہ بھارت کے دوران مولانا فضل الرحمان نے کوشش کی کہ وزیراعظم واجپائی سے ملاقات ہوجائے، ان کی کوشش کامیاب ہوئی اور ملاقات ہوگئی، اس ملاقات کے بارے میں بعد میں مولانا فضل الرحمان نے کشمیر کے صحافیوں کو سربستہ احوال بتایا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب ملاقات شروع ہوئی تو حال احوال کے بعد جب معاملہ کشمیر کا چھیڑا گیا تو مولانا نے واجپائی سے کہا کہ آپ کشمیر کو حق خودارادیت کیوں نہیں دے دیتے، تو خلاف توقع انتہائی دھیمے مزاج والے وزیراعظم واجپائی کے کان سرخ ہوگئے۔

واجپائی نے کہا کہ وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دے کر مذہب کی بنیاد پر اپنے ملک کے مزید ٹکڑے نہیں کرسکتے۔ واجپائی نے کہا کہ میرے ملک کی معیشت اتنی طاقتور ہے کہ میں کشمیر معاملے پر پچاس سال جنگ لڑسکتا ہوں، بھارتی وزیراعظم نے مولانا کے ذریعے پاکستانی حکومت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے مختلف آپشنز کا پیغام دیا تھا۔ ’میں چاہتا ہوں کہ میرے بقیہ ڈیڑھ سال کی حکومت کی مدت میں یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ ‘ واجپائی نے کہا تھا۔ اگر میری حکومت گئی تو پھر یہ موقع نہیں آئے گا، واجپائی نے کہا تھا،

واجپائی نے جب اقتدار سنبھالا تو چین کے ساتھ بھارت کے سنگین تنازعات تھے، مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی جدوجہد عروج پر تھی، لیکن جب ان کا اقتدار ختم ہوا تو چین کے ساتھ تجارتی معاہدے اور پاکستان کے ساتھ امن معاہدہ اور کشمیر میں جدوجہد آزادی غالباً ٹھنڈی ہوچکی تھی۔

شاعروں کا کام حکومتیں کرنا نہیں ہوتا، شاعر محبت اور امن کا پیامبر ہوتا ہے، اور حکمران کا محبت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، لیکن واجپائی نے یہ ثابت کردکھایا کہ ایک شاعر، حکمران بھی بن سکتا ہے اور وہ بھی ایک اچھا حکمران۔ جب وہ بذریعہ بس لاہور آئے تھے تو انہوں نے ایک لازوال جملہ کہا تھا کہ ’دوست تو تبدیل کیے جاسکتے ہیں، پڑوسی تبدیل نہیں ہوسکتے‘
انہوں نے یہ جملہ پاک بھارت تنازعہ کی روشنی میں کہا تھا۔

شدت پسندی دلیل کے بجائے فیصلہ سناتی ہے، رواداری سے اس کا تعلق کم کم ہی ہوتا ہے، لیکن کوئی شدت پسند بھی روادار بن جائے تو اس سے اچھائی کی امید بڑھ جاتی ہے، واجپائی ایسے لوگوں میں سے تھا، جن سے سفارتی اچھائی کی امید کی جاسکتی تھی، ریاستیں اپنے تعلقات باہمی مفادات کی بنیاد پر رکھتی ہیں، اور یہ اس صورت ممکن ہوسکتا ہے، جب تنازعات کا خاتمہ ممکن ہو، پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازعہ مسئلہ کشمیر ہے، مقبوضہ کشمیر میں حق خودارادیت کی تحریک کبھی تیز اور کبھی مدہم ہوجاتی ہے، لیکن یہ کسی فیصلہ کن نتیجے پر اس لئے نہیں پہنچ سکتی کہ دو جوہری قوتیں درمیان میں ہیں، لہذا دونوں ممالک کے سربراہان مملکت کو درمیان کا راستہ نکالنا پڑے گا، دوسری صورت میں جنت نظیر وادی میدان جنگ بنی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).