یہ کیسا خطاب تھا جناب وزیراعظم؟


یہ کیسا خطاب تھا۔۔۔ نہ موٹر وے، نہ پل، نہ جمہوریت کی بقا کا راگ، نہ قوم کے وسیع تر مفاد کا لالی پاپ، نہ خاندانی قربانیوں کا رولا اور نہ ہی سب کو ساتھ لے کر چلیں گے کا آسرا۔ یہ تو وزیر اعظم پاکستان ہے۔ اسے تو بڑی بڑی بڑکیں مارنی تھی کہ چاند پہ پہنچ جائیں گے، سی پیک کے ذریعے دنیا پہ چھا جائیں گے، بلوچستان میں معدنیات کا خزانہ ہے، بجلی اتنی بنا لیں گے کہ ہم بجلی بیچ کر ڈالر خرید لیں گے۔ اسلام کی حفاظت کریں گے، امت کے سپہ سالار بنیں گے وغیرہ وغیرہ

مگر یہ کیا؟ وزیر اعظم پاکستان اپنے ملک کے بچوں میں غذائی قلت کی تصویر دکھا رہا ہے۔ قصور میں بچوں کے ساتھ ہوئی زیادتی کا روگ لے کر بیٹھا ہے۔ جنسی زیادتی کی روک تھام کیلئے پولیس کے ساتھ مل کر بہتر اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسٹریٹ چلڈرن یعنی سڑکوں پہ رلنے والے بچے۔ جن سے منشیات اور فحاشی کی انڈسٹری چلائی جاتی ہے۔ جب کوئی بچی پھول بیچنے آتی ہے تو اسکا ہاتھ مسل کر ہی تسکین حاصل کر لی جاتی ہے۔ کوئی بچہ گاڑی کا شیشہ صاف کرنے آتا ہے تو اسے جھڑک کر پرے کرتے ہیں کہ گاڑی مہنگی اور بچہ سستا ہے۔ یہ وزیر اعظم ان کی بات کر رہا ہے۔ یہ کیا “بچوں والی باتیں” لے کر بیٹھ گیا ہے۔ ہم بچوں کی بات کرنے والے تھوڑا ہی ہیں۔ ہم تو بچوں کے مجرم ہیں۔ بچوں کے بیوپاری ہیں۔ ہم تو بچوں کو بزور جوان کرنے والے ہیں۔ ان کا کیوں سوچیں۔

بیوائیں اور یتیم تو ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ ان کے حقوق پہ قبضہ کر لیں۔ خان صاحب نے عجیب بات کر دی کہ بیوائیں جو اپنی جوان بیٹیاں لیے در در بھٹکتی ہیں اور آس پاس گدھ ان پہ نظر جمائے بیٹھے ہوتے ہیں، کچھ تو جھپٹا بھی مار جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کیا ان بیچاریوں کا ذکر لے کر بیٹھ گیا؟ یہ کیسا خطاب تھا جس میں وزیر اعظم بار بار کہہ رہا ہے اپنے اندر رحم پیدا کریں۔ رحم کرنے والے بنیں۔ احساس رکھنے والے بنیں۔ انسان اور جانور کی تمیز احساس اور رحم سے ہی تو ہوتی ہے۔ یہ کیا کہہ دیا کہ خرچے کم کئے جائیں گے۔ ارے ہم تو وہ قوم ہیں جو قرضہ لے کر اولاد کی شادی میں 10 سے زائد کھانے رکھتے ہیں تا کہ جھوٹی شان رہ جائے۔ کرپشن کر کر کے بڑا گھر بنواتے ہیں کہ رشتہ داروں پہ سبقت لے جائیں۔ یہ سادگی یا خرچہ بچانا اگر اوپر سے شروع ہو گیا تو ہم “نہ ادھر کے نہ ادھر کے” متوسط طبقے والے کس طرح جھوٹی شان بنائیں گے۔ اور اشرافیہ کا تو کباڑہ نکل جائیگا۔

درخت لگانے ہیں، گندگی ہٹانی ہے، ساحلوں کو رونق بخشنی ہے، سیاحت بڑھانی ہے۔ محروم طبقے کو حقوق اور عزت دلانی ہے۔ یہ بندہ تو دل نکال کر ہتھیلی پر لے آیا۔ ان کانوں کو عادت ہو گئی تھی کہ سرکاری خطاب میں میں، میری جدوجہد، میرے ابا کی جدوجہد، میری امی کی جدوجہد، میرے نانا کی جدوجہد، ہماری قربانیاں، ہمارا خون، ہم، ہمیں، جمہوریت کا تسلسل کی رٹ لگی ہو۔ مگر یہ وزیراعظم تو الگ سی باتیں کر گئے۔

گلزار صاحب نے علامہ اقبال کے نام ایک شاہکار لکھا ہے۔

ذرا علامہ کو کوئی خبر کر دے

کہ جن کھیتوں سے دہقان کو میسر نہ ہوئی روٹی

کسی نے کھیت میں جا کر جلایا بھی نہیں

گندم کے خوشوں کو۔۔۔۔

کہین کوئی نہیں اٹھا، نہ کوئی انقلاب آیا!

جنازے اٹھ رہے ہیں گاوں گاوں سے

یہ سب کے سب جنازے ہیں کسانوں کے

جنہوں نے قرض کی مٹی چبا کر خودکشی کر لی!

ہمارے کسان ہمیشہ نچلا طبقہ ہی رہے۔ نہ کاشت کاری کے طریقوں میں جدت آئی اور نہ کسی نے ان کی تعلیم و ترقی کی جانب توجہ دی۔ وزیراعظم کو کسانوں کو پانی کی فراہمی یاد رہی۔ مدرسے کے بچے یاد رہے کہ ان کا بھی حق ہے کہ وہ بھی اعلی سائنسی تعلیم حاصل کریں۔ کرپشن کی نشاندہی کرنے والے افراد کیلئے انعام کی بات کی۔ رحم، خودداری، احتساب اور ترقی کی بات کی۔ یہ سب امید کے دیپ ہیں۔ امیدیں عمران خان سے ہمیشہ قوم کو رہیں مگر بہت عرصے بعد کسی وزیراعظم پاکستان سے امید بندھی ہے۔ پانچ سال میں کوئی بھی ادارہ یا نظام مکمل طور پر تبدیل نہیں ہوتا لیکن تبدیل ہوتا نظر آ جاتا ہے۔ قوم نے عمران خان کو مینڈیٹ دیا ہے اور اب کوئی جواز نہیں بنتا کہ “ہمیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا” کے پیچھے چھپا جائے۔ ہمیں دیکھنا ہے کپتان عمران خان کیسی ٹیم بناتے ہیں۔ جو امید دلائی ہے اگر اس کا 20 فیصد بھی کر کے دکھائیں تو قوم کا بھلا ہی ہو گا۔

اس کے علاوہ ایک معمولی کی گذارش بھی ہے کہ ریشمی عبایہ سے جھانکتے ہاتھوں کی مینی کیور اور انگوٹھی کو درد سر بنانے والے تمام افراد سے درخواست ہے کہ نظر آتی ہوئی ٹانگیں اور چھپے ہوئے چہرے چھوٹی سوچ کا مسئلہ ہوا کرتے ہیں۔ بڑی سوچ ہمیشہ لباس اور پہناوے سے بہت آگے جا کر آتی ہے۔ اللہ پاکستان کو شاد آباد رکھے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).