انیسواں خواب نامہ۔۔۔ مرد عمل ہے۔۔۔عورت ردِ عمل ہے۔۔



25 مئی 2018

یا درویش آداب عرض ہیں۔
یہاں پرندے چہچہا رہے ہیں۔آسمان گہرے نیلے رنگ سے ہلکے آسمانی رنگ میں تبدیل ہونے کی تیاریوں میں ہے۔ سورج دوزخ کی تیاری کی پریکٹس کروانے طلوع ہونے کی تیاری میں ہے۔جبکہ ابھی وہ کسی ایسے دیس سے لوٹا ہے جہاں وہ جنت کی پھوار برسا رہا تھا۔
رابعہ نے درویش کا خط پڑھا اس کو اپنے کئے گئے سوالات کے جواب ملے.وجوہات ملیں مگر یوں جیسے اس نے سوال کسی لیبارٹری میں بھیجے تھے جس کے بھرپور رزلٹ آئے ہیں۔رابعہ چونکہ جینز پہ یقین رکھتی ہے۔ اس کا مشاہدہ کہتا ہے کہ ماحول، تربیت،تعلیم انسان جو بھی موجود وسائل ہیں۔ ان کا خواہ کتنا بھی بھر پور استعمال کر لے۔ جینز زندگی کے ہر اہم مو ڑ پہ اپنے اصل خمیر کے ساتھ عملی طور پہ ظاہر ہو ہی جاتے ہیں۔ البتہ جیسا کہ مو جودہ طب نے اس کو متاثر کیا ہے۔ میڈیکلی ہم انہیں متاثر کر سکتے ہیں۔ورنہ اس کے اثرات ضرور ہوتے ہیں۔
رابعہ انہیں اس سے الگ من کی سطح پہ بھی سمجھنا چاہتی ہے۔وہ ایک انسان سے پوچھنا چاہتی ہے کہ کیا خواہش کا درد ہوا؟ WISH? YES? NO?….
رابعہ درویش کی اقلیت و اکثریت والی بات سے متفق ہے کیونکہ اس کا مشاہدہ بھی کچھ اسی طرح کے نتائج ہی لایا ہے۔
رابعہ کی فیملی میں نسل در نسل یوں تو کوئی باقاعدہ ادیب نہیں تھا۔مگر ہر طرح کے آرٹ کی عزت کرنے والے.اور اس سے محبت کر نے والے موجود تھے۔ مگر رابعہ نے اپنے بزرگوں سنا ہے کہ اس کی دادی جان شاعری کرتی تھی۔ لیکن انہو ں نے اپنا سارا کلام اپنے شوہر کو لکھے گئے خطوط میں انہی پہ نچھاورکر دیا تھا۔ وہ بہت جوانی میں ہی کسی بیماری کے باعث انتقال کر گئیں۔ اور ان کے خطوط داداجان کے پاس ہی محفوظ رہے۔ کیو نکہ انہو ں نے شادی کے صرف چار برس ساتھ گزارے۔
یوں بھی رابعہ کے آباؤاجداد کا اصل وطن پنک سٹی (جے پور راجستھان)تھا۔جس کا رہن سہن خود آرٹ تھا۔ پنک رنگ ہی رومان کی نشانی ہے۔اور رومان آرٹ ہے۔رابعہ کا بھی پسندیدہ رنگ پنک ہے۔
آرٹ چیزوں کو حْسن سے ترتیب دینے اوررکھنے کا نام ہے۔آرٹ sophistication ہے۔ اندرکی sophistication سے ہی ادب نکلتا ہے۔ ورنہ باتیں اور سچائیاں توسب وہی ہیں۔
رابعہ کی فیملی میں نسل در نسل سے مطالعہ کا شوق تھا۔وراثت میں بھی کتابیں گھرو ں سے برآمد ہوئیں۔پردادا ہاشم علی خاں اپنے دور کے تعلیم یافتہ تھے انہوں نے اس دور میں کالج سے پڑھا جب برصغیرمیں کالجز ابھی وجود میں آ رہے تھے۔پھر دادا جان ناظم علی خاں نے بھی تعلیم باقاعدہ حاصل کی۔ اس وقت تعلیم یافتہ شخص کی مجبوری تھی کہ اسے انگریز سرکار کی ہی ملازمت ملتی تھی۔سو انہیں بھی کر نا پڑی۔دادا کو شاعری سے لگاؤ تھا۔شاید دادی امی کی وجہ سے ہوکہ چار سالہ رفاقت کی یادیں شاعر ی میں ہی مقید رہ گئیں۔جب بھی کوئی اچھا شعر پڑھتے اپنی گفتگو میں اس کا ذکر کرتے اور اپنی ڈائیری میں لکھ لیتے آج بھی رابعہ کے پاس ان کی ایک ڈائیری موجود ہے۔
رابعہ کی بڑی دادی جان اختر بیگم شاعری کرتی تھیں اور جب دادا کو خط لکھا کرتیں تو اس میں بہت سے اشعار لکھتی تھیں۔ رابعہ آج کبھی کبھی سوچتی ہے کہ ان حساسیت کی اوج کیا ہو گی؟کہ شادی کے بعد شوہر دوسرے شہر میں پڑھ رہا ہو۔ دونوں اکٹھے نا رہ سکتے ہو ں۔ دور بھی وہ تھا کہ اظہار احساس معیوب سمجھا جاتا ہو، تو بس سب محبتیں لفظ بن گئیں ہو نگی۔ لفظوں نے اندر چھید کر دئیے ہونگے۔ اور چھید چار سال بعد منوں مٹی تلے چھید کا سبب بنا ہو گا۔ اس ایک ان دیکھے، ان کہے دھچکے نے دادا جان کو محبت کا اصل رنگ سکھا دیا۔ رابعہ کا مشاہدہ کہتا ہے یہ کچے دھاگو ں کا سب سے مضبوط غیر فطری رشتہ ہے۔
دوسری دادی جان نفیسہ بیگم پہلی دادی کی چچا زاد ہی تھی۔رابعہ ہی کیا سب کے لئے دادی نفیسہ کے ساتھ دادا جان کی محبت ایک آئڈیل لو ہے۔ انہو ں نے عمر بھر ان کی کئیر عزت کے ساتھ کی۔ عورت کو درحقیقت یہی محبت عمر بھر جوان رکھتی ہے اور شوہر سے جوڑے رکھتی ہے۔ جس کے درمیان مامتا بہانہ نہیں بنتی۔اور وہ تادم آخر فریش رہیں۔بہت نفیس، بہت با وقار۔ یہ خطوط کا زمانہ تھا،فون،ای میل میسنجر بہت بعد کی کہانی ہے۔ دادی نفیسہ سب بچوں کو، رشتہ دارو ں کو باقاعدگی سے بھی خطوط لکھا کرتی تھیں۔آنے والے سب خطوط کا بہت اہتمام سے جواب دیتی تھیں۔عید کاڑد سب کو بھیجا کرتی تھیں۔ان کی نثر بہت خوب تھی۔وہ بھی اس دور کی بات ہے جب برصغیر میں عورت کی تعلیم کا رواج ہی نہیں تھا۔لیکن اس خاندان کی سب خواتین نے بنیادی تعلیم ضرور حاصل کی،اتنی پڑھی لکھی تھیں کہ لکھ پڑھ بھی لیتی تھیں اور زبان پہ بھی عبور تھا کہ گھروں میں عمدہ اردو بولی جاتی تھی کہ آج رابعہ بھی اتنی شائستگی و نرمی سے نہیں بول سکتی ،جتنا اس نے اپنی دادی جانی کو بولتے دیکھا و سناہے۔
رابعہ اپنی دادی جانی نفیسہ کو بچپن سے آئیڈیل بنائے ہوئے تھی کہ اس نے انہیں نا کبھی غصے میں دیکھا،نا کبھی اونچا بولتے نا کبھی نا شائستگی سے بولتے،نا غرور نا تکبر اورنفیس و سادہ لباس،با رعب و عاجری سے بھر پور چال، نرم لہجہ کہ گھر کے ملازموں تک سے سختی سے نہیں بولتی تھیں۔کبھی کسی کی غیبت نہیں،برائی نہیں،بس خاموشی و مسکرا ہٹ، فراخدلی،کیا کیاخوبی نہیں تھی۔خاندانی رکھ رکھاؤ کی ایک ایسی مثال، جوذات سے گھر، اور گھر سے آس پاس تک اپنی خوشبو بکھیرے ہوئے تھیں۔
محبت کا ایک مجسم پیکر…
جبکہ بیٹی وہ ایک نواب کی، بیاہ کر بھی نواب کے گھر آئیں۔جس کا سسر بیورو کریٹ،جس کا شوہر بیورو کریٹ،جس کا باپ بیوروکریٹ، جس کے آٹھ بیٹے اور وہ بھی دنیاوی اعزاز ات سے مالا مال۔داماد بھی قابل رشک ،خود حسن ایسا کہ آنکھ بھر کر نا دیکھا جائے۔ مگر اس عورت کی عاجزی، انکساری،بے نیازی،محبت شجر جیسی۔رابعہ نے اپنی زندگی میں ایسی خوش نصیب و نفیس عورت نہیں دیکھی۔
البتہ رابعہ کے با با منو سیلانی کے نام سے کبھی لکھا کرتے تھے۔ بچو ں کی کہانیو ں کے مترجم بھی رہے۔مطالعہ کے آج تک شوقین ہیں۔رابعہ نے بابا جوانی میں ایک مصور تھے۔پینٹنگ کیا کرتے تھے۔ان کی بنائی تصاویر رابعہ نے صرف خاندان میں، بابا کے دوستوں کے گھروں کے ڈرائنگ رومز میں ہی دیکھی ہیں۔رابعہ نے اپنی پھوپھو سے سنا ہے کہ مصوری کے حوالے سے وہ بہت جنونی تھے ان کے کمرے میں کوئی نہیں جا سکتا تھا۔ایک مرتبہ گھر کے پالتو کتے نے ان کی ایک تصویر خراب کر دی،وہ سمجھے چھوٹی بہن کا کارنامہ ہے، تواس پہ برس پڑے، اور سزا دے دی۔وہ بہن جو ان سب بھائیوں نے دعاوں سے مانگی تھی۔جن کا گھر رابعہ کو اپنا گھر لگتا ہے۔آج کل وہ یہیں ہیں،کل انہوں نے واپس جانا ہے تو رابعہ کو یوں لگ رہا ہے، وہ اپنی بیٹی رخصت کر رہی ہے۔
رابعہ کے ہاں خاندانی پیشہ فوج یا سر کاری نوکریا ں رہیں۔لہذا آرٹ یوں تو موجود نہیں تھا ،تخلیق یوں تو موجود نہیں تھی۔مگر لباس،رہن سہن گفتگو میں اس کی جھلک اب بھی دکھائی دیتی ہے۔گرچہ نئی نسل کے نئے شعبہ جات کے انتخاب اور مکس بلیڈ سے بہت سی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔
رابعہ میں یہ سب کسی حد تک موروثی ہے باقی تخلیق کار کائینات کا تحفہ ہے۔جس نے اس میدان میں اس کے رستے ہموار کئے رکھے۔ورنہ زندگی کے باقی پہلووں کی طرح یہاں بھی صبح سے پہلے شام ٹھہر جاتی تو رابعہ کیا کر سکتی تھی۔ اوراگر مستقبل میں کسی بند نے بند باندھ دئیے تو رابعہ کے اختیار میں نہیں۔ کیونکہ مجبوریاں بڑی کہانیوں کی موجب ہوا کرتی ہیں۔
یا درویش اچانک رابعہ کو یاد آ گیا اک خواب جو اس نے بارہ تیرہ سال کی عمر میں دیکھا تھا۔جواس کے ذہین میں حیرانی بن کر ٹھہر گیا تھا.وہ کم گو تھی۔اس نے تب سے اب تک کسی کو نہیں بتایا۔وہی خواب اس نے پچھلے برس کے اختتام یا اس برس کے آغاز میں پھر دیکھا اب حیرانی نہیں تھی۔کچھ حد تک سمجھ آ گیا کہ یہ تو اقلیتی زندگانی کی نشانی تھی۔یہی سب ہونا تھا،جو ہوا،جو ہو رہا ہے۔
یہ جو تعلقات ہیں،یہ جو رشتے ہیں،یہ جو درد و خوشی ہیں، یہ سب عمل و ردعمل ہیں۔
اور رابعہ کامشاہدہ و تجربہ بتاتا ہے کہ مرد عمل ہے عورت ردعمل ہے۔یہ دونوں اپنے سب رشتو ں میں عمل و رد عمل ہیں۔
تو چالیس کے بعد عمل و ردعمل میں یا تو ٹھہراؤ آ جاتا ہے یا شدت۔
خوبی یہ ہوتی ہے کہ اب ردعمل میں خوبصورتی آ جاتی ہے جس سے رشتے و تعلق میں مضبوطی و مثبت رویہ پیدا ہو جاتا۔لیکن جن کا ارتقاء کسی منزل پہ رک گیا ہو ، ان کی جذناتیت قائم رہتی ہے۔
یادرویش اس مو ضوع پہ پھر بات ہو گی۔ روشنی ہر سو پھیل گئی ہے۔ گویا بقول آپ کے چچا جانی والی اکثریت کو زندگی بلا رہی ہے۔
مگر رابعہ کو زندگی سلا رہی ہے۔ وہ سونا چاہتی ہے۔ سکون و آرام کے ساتھ،یہ اس کی ایک حسین خواہش ہے۔ اسی لئے وہ سونے کا خوب اہتمام کرتی ہے۔ مسحور کن مہک والے شاور جیل سے شاور لیتی ہے۔ نرم مہک والا نایٹ سپرے استعمال کرتی ہے۔ ڈھیلا ڈھالا لباس پہنتی ہے۔ بیڈ شیٹ پہ بھی پرفیوم لگاتی ہے۔ اور پھر سونے جاتی ہے۔
شب بخیر و صبح بخیر
اے درویش
کائنات کے سب درویشوں کے لئے محبت
محبت ایک خوشبو ہے اگر سچی ہے توخود ہی پھیل جاتی ہے
رب راکھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).