ایک نظر اس جانب بھی


ہم ایک ایسے سفر کی طرف جارہے تھے جس کی آخری منزل واپس میرے لئے میرا جھونپڑی نما گھر تھا۔ ویسے بچپن گاؤں میں گزار کر مجھے ہر گاؤں اپنا لگتا ہےجہاں ہم بچے مسقبل سے بے خبر ایک ہنسی خوشی زندگی بسر کرتےتھے۔ باپ سمندر کا پیٹ چیر کر ہمارے لئے دو وقت کی رزق کا بندوبست کرتا تھا۔ نانا کی کاوشوں سے بنائے گئے پرائمری سکول میں دوسرے بچوں کی طرح ہم بھی الف انار اور ب بکری سیکھا کرتے تھے۔ اب بچپن کا سفر جوانی کی حد کو پار کرچکا تھا۔ سمندر کے ساتھ جو رشتہ ماضی سے جڑا تھا اب اسی رشتے کو قلم کا سہارا بھی ملا تھا۔

اب ہماری سفر شروع ہوچکا تھا۔ گاؤں، دیہاتوں اور جنگلوں کا سفر دشوار سہی مگر کئی یادوں کا ساتھ واپسی کا منظر میرے ذہن میں براجمان تھا۔ سو سفر شروع ہوتے ہی کچے اور دشوار گزار راستے ہمارے منتظر تھے۔ نیٹ ورک ایریا ختم ہونے سے چند لمحے اپنے گھر کو یہ بتا چکا تھا کہ رات شاید ہم لیٹ پہنچیں گے۔ پہاڑوں کی ویرانی کو دیکھ کر میں خالی میدانوں کو دیکھتا رہا جہاں ہر راستے کو کچا اور دشوار گزار دیکھا۔ ہر طرف ترقی اور خوشحالی نظر آرہی تھی۔

جہاں بھی جاتے، صحت عامہ کی سہولت دستیاب نہیں تھا، منشیات سے عادی نوجوانوں کو دیکھا۔ البتہ کچھ گاؤں میں پرائمری سکول کے بلڈنگز نظر آئے۔ سمجھ آیا کہ یہاں کے لوگ سکول کو اپنا پراپرٹی نہیں سمجھتے۔ کیونکہ ایک گاؤں میں سکول کے دو کلاس رومز تھے اور دونوں کے دروازے غائب پائے۔ طویل خشک سالی کے آثار وہاں کے درختوں کو دیکھ کر نظر آئے۔ بہرحال لوگوں کو حکومت کی طرف سے شہری علاقوں سے زیادہ پانی مفت میں مل رہا تھا۔

انہی سے بچپن کا ایک خیال آیا کہ جب بارشیں نہ ہوتی تھیں تو ہم پانچ سے دس کلومیٹر دور پانی لاتے تھے۔ خواتین صبح سویرے اٹھ کر کنوؤں میں پانی لانے جاتی تھیں۔ کہیں دن کی روشنی میں کنویں خشک نہ پڑ جائیں۔ یہاں کے زیادہ تر گاؤں اور دیہاتوں میں صاف پانی کی فراہمی کا گاؤں والوں کی زبانی سنکر خوشی ہوئی۔ ہمارا کاروان ہر گاؤں کے لوگوں سے مل رہا تھا اور ان کے مسائل ان کی زبانی سن رہا تھا۔ لوگوں میں اپنائیت کا جذبہ کبھی اجنبیت میں بدل جاتا تو کبھی لوگوں کے ایسے مطالبات آتے کہ مجھ ہنسی آ جاتی۔

اب شام ہونے کو تھی۔ کچے اور ناہموار راستوں کا سفر طے کرتے کرتے ہم ایک گاؤں پہنچ چکے تھے۔ یہاں پہنچ آکر دلی تسلی اس لئے ہوئی کہ درجن بھر گاؤں کے سفر کے بعد یہاں کے لوگ پہلی بار ایک پرائمری سکول کی ڈیمانڈ کررہے تھے۔ یہاں کے بچوں کی آنکھوں میں ایک روشن مسقبل کا ادھورا خواب تھا۔ یہاں کے نوجوانوں کو دیگر علاقوں کی بنسبت اس لئے زیادہ شعور یافتہ پایا کہ وہ صرف تعلیم کی ڈیمانڈ کررہے تھے۔ ویسے بھی ریاست کے آئین کے آرٹیکل 25۔ A کے مطابق تعلیم مفت اور ہر شہری کے لئے حاصل کرنا فرض ہے۔

رات شروع ہوتے ہی ہم اپنے آخری منزل تک پہنچ چکے تھے۔ پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ گاؤں نما شہر نظر آرہا تھا۔ محلات کی دنیا نہ سہی مگر یہ محل نما مکانات ویران نظر آرہے تھے۔ میری شدید خواہش تھاکہ اس جنت نظیر گاؤں کو دن کی روشنی میں دیکھ سکوں۔ جو کہ ادھورا خواب رہ گیا۔ یہاں نوجوانوں کو باقی گاؤں سے زیادہ سیاست اور سماج سے دلچسپی تھی۔ وجہ تو ظاہر ہے کہ ماضی میں یہ گاؤں ہماری سیاست کا فیصلہ کرتا تھا۔ اقتدار کی ایوانوں میں جانے کے لئے یہاں کی چند شخصیت کا آشیرباد ضروری سمجھا جاتا تھا۔ یہاں بھی ترقی کے آثار کافی نظر آرہے تھے۔ کچے اور ناقابل سفر روڈ، پانی تو قدرتی چشموں سے مل رہا تھا۔ ایک ڈسپنسری بغیر ڈاکٹر کے ارد و نواح کے مکینوں کے علاج و معالجہ کا واحد مرکز تھی۔

سو رات کا اندھیرا اب شروع ہوچکا تھا اور ہمیں بھی واپس اپنے منزل کی طرف آنا تھا۔ رات کے سفر میں ہمارا روٹ بھی تبدیل ہوچکا تھا کیونکہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ دوسرا روڈ جو بن رہا ہے اس کا سفر بہتر ہے۔ اب ہم ایک نئی سڑک پر سفر کررہے تھے جوکہ زیر تعمیر تھی۔ بہت جلد ہم کوسٹل ہائی وے تک پہنچ گئے۔ رات گھر پہنچتے ہی مجھے نیند نہیں آرہی تھی بلکہ وہاں کے لوگوں کے دکھ بھری حالات میرے ذہن میں گونج رہے تھے۔ جن جن دیہات کی داستان اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا تھا۔ حسب وعدہ ان کو یہاں بیان کر کے ذہنی سکون ملا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).