کون ہو گا پنجاب کا اصل حاکم؟


پنجاب کو پچھلے کم از کم دو عشروں میں مضبوط حکمران ملے ہیں، پرویز مشرف کا مارشل لا ء لگنے سے پہلے شہباز شریف ہوں، پرویز مشرف کی چھتر چھایا میں چودھری پرویز الٰہی ہوں یا پرویز مشرف کے جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر شہباز شریف کے بلاشرکت غیرے حکمرانی کے دس برس ہوں، بیوروکریسی کو بہت اچھی طرح علم رہا ہے کہ ان کو عہدے، اختیارات اور احکام کہاں سے وصول کرنے ہیں مگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد ملک کے سب سے بڑے صوبے میں انتظامی اور حکومتی ابہام پیدا ہوتے نظر آ رہے ہیں، ایک کھچڑی پکتی نظر آ رہی ہے۔

آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سردار محمد عثمان بُزدار، ارکان کی تعداد کے حوالے سے، ملک کے سب سے بڑے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے کر وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے ہیں تو سکہ بھی ان کا ہی چلے گا تو پنجاب کی سیاست، بیوروکریسی اور دیگر معاملات پر کڑی نظر رکھنے والے اس پر قہقہہ لگا سکتے ہیں۔ سردار عثمان بُزدار مقامی سطح پر بھی ایک مقبول اور طاقت ور سیاستدان نہیں رہے۔ ان کا اثرورسوخ اسی بات سے جانا جا سکتا ہے کہ جب پورے پنجاب میں پکیاں سڑکاں، پینڈے سوکھے کر رہی تھیں تو وہ اور ان کے والد اپنے آبائی علاقے تک چند فٹ چوڑی سڑک نہیں لے جا سکے، نوے کی دہائی میں دور دراز کے علاقے بھی بجلی سے روشن ہو رہے تھے اب تک کا ان کا گاوں بجلی سے محروم چلا آ رہا ہے۔ اگر آپ پنجاب کی اس ڈی ایم جی کلاس کو جانتے ہیں جس نے چودھری پرویز الٰہی اور شہباز شریف کو بھی آگے لگائے رکھا تھا تو آپ یقینی طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ سردار عثمان والا ایوان وزیراعلیٰ کس حد تک بیوروکریسی کے اس منہ زور گھوڑے کو قابو کر سکے گا۔

معاملہ صرف یہ نہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب محمد عثمان بُزدارمضبوط سیاسی بیک گراونڈ نہیں رکھتے بلکہ یہ بھی ہے کہ پنجاب اور تحریک انصاف میں بہت سارے دوسرے ان سے کہیں زیادہ مضبوط پوزیشن پر موجود ہیں۔ سب سے پہلے جہانگیر ترین ہیں جنہیں یہ کریڈٹ دیا جا رہا ہے کہ انہوں نے عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے ناممکن کو ممکن کر دکھایا، عمران خان الیکشن سے پہلے شائد عثمان بزدار کا نام بھی نہ جانتے ہوں، دروغ بہ گردن راوی، یہ فخریہ پیشکش بھی جہانگیر ترین کی ہی ہے بلکہ پنجاب ہی کی کیوں بات کی جائے، ایک خیال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کو بھی وہاں کے سابق چیف سیکرٹری کے ذریعے جہانگیر ترین ہی چلائیں گے۔ عثمان بُزدار کسی بھی متنازع معاملے میں ان کی ہدایات کو پس پشت نہیں ڈال سکیں گے، اس فقرے سے لفظ متنازع ہٹا کے بھی مکمل مفہوم لیا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ جہانگیر ترین چھٹیوں پر جا رہے ہیں مگر چھٹیاں ہمیشہ محدود اور عارضی مدت کے لئے ہوتی ہے، اتنی شدید محنت کے بعد چھٹی اور تفریح جہانگیر ترین کا حق ہے۔

عثمان بُزدار کے اختیارات کے لئے ایک چیلنج گورنر ہاوس میں بھی موجود ہے ورنہ اس سے پہلے، سلمان تاثیر کے استثنیٰ کے ساتھ،عمومی طور پر گورنر ہاوس پنجاب میں مسئلہ نہیں بنا۔ بہت پرانی بات ہے جب میاں اظہر نے غلام حیدر وائیں کو تھوڑا بہت تنگ کیا تھا اور اس وقت شہباز شریف کی مداخلت سے معاملات طے ہو گئے تھے۔ شاہ محمود قریشی سمجھتے ہیں کہ گورنر ہاوس کے پاس اختیارات نہیں جبکہ انہوں نے ایک بااختیار کردارادا کرنے کی خواہش کے ساتھ مسلم لیگ ن اور گورنر ہاوس کو چھوڑا تھا۔ اب جب وہ واپس آ رہے ہیں تو انہوں نے لاہور میں تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنا ارادہ اور حکمت عملی ظاہر کر دی ہے، انہوں نے کہا، ’اکیلا شخص پورا صوبہ نہیں چلا سکتا ‘ یعنی ایوان وزیراعلیٰ کو ایک خواہشات سے بھرے گورنر ہاوس کا سامنا ہو گا ۔

ایک اہم کردارعبدالعلیم خان ہیں جو تحریک انصاف وسطی پنجا ب کے سربراہ ہیں اور صوبے کی وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار تھے ۔ ایک اخبار کے مدیر تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ وہ نیب اورمیڈیا کے دباو کی وجہ سے وزیراعلی نہیں بنائے گئے حالانکہ یہی دباو عمران خان کو عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے سے نہیں روک سکا جس کا واضح مطلب ہے کہ معاملہ کچھ اور تھا۔ وسطی پنجاب میں علیم خان کے اثرورسوخ سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور یوں تجزیہ کار کے مطابق پنجاب کے حقیقی وزیراعلیٰ علیم خان ہی ہوں گے۔ ان کا کردار ویسا ہو سکتا ہے جیسا حمزہ شہباز شریف کا تھا یعنی انتظامی، سیاسی اور تنظیمی معاملات میں مکمل بااختیار۔ علیم خان سے تجزیہ کار کی دوستی اپنی جگہ مگر انہیں بھی بہت ساری رکاوٹوں کا سامنا ہو گا جو کچھ دیدہ اور کچھ نادیدہ ہیں، جنہوں نے ان کے وزیراعلیٰ بننے کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے۔ تحریک انصاف ہی میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار کپتان کی ٹیم کے اہم کھلاڑی شاہ محمود قریشی تھے مگر بقول شخصے وہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہروا دئیے گئے اور نئی حکومت میں اسی نوکری پر لگا دئیے گئے جس پر وہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں بہت برس پہلے موجود تھے۔ ہم سب جس شاہ محمود قریشی کو جانتے ہیں وہ شاہ محمود قریشی اپنی اس شکست کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے مگر ان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ فوری طور پر کچھ نہیں کر سکتے، حتی کہ ایک مطالبہ بھی نہیں۔ انہوں نے اپنی پراکسی کے طور پر محترمہ یاسمین راشد کو عبوری مدت کے لئے وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی تجویز پیش کی جسے کارکنوں کی طرف سے بھی سراہا گیا، خیال تھا کہ اس عبوری مدت کے بعد وہ خود پنجاب اسمبلی کا ضمنی الیکشن لڑ کے وزیراعلیٰ بن جائیں گے مگر اس تجویز کو بھی توہین آمیز طریقے سے مسترد کروا دیا گیا۔

وزارت اعلیٰ، بنیادی طور پر دو ستونوں پر چلتی ہے، ایک بیوروکریسی ہے اور دوسرے ارکان اسمبلی ہیں، یہاں عثمان بُزدار کو ایک اور خوفناک چیلنج کا سامنا ہے جوپنجاب اسمبلی کے سپیکر چودھری پرویز الٰہی کی صورت میں درپیش ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے اپنے انتخاب میں مسلم لیگ ن کے بارہ ارکان اسمبلی کو توڑ کے اپنی طاقت اور مہارت دکھا دی ہے۔ جب تحریک انصاف پنجاب کی بیوروکریسی میں ان عناصر کو عہدے دے گی جو مسلم لیگ ن کے مخالف ہوں گے تو ایک خود کار طریقے کے تحت چودھری پرویز الٰہی کے قریبی افسران طاقت ور عہدوں پر پہنچ جائیں گے جو انتہائی کائیاں ہوں گے اور اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ عثمان بُزدار کا ذاتی طور پر سیاست میں اتنا بھی مستقبل نہیں ہے جتنا میاں منظور احمد وٹو کا تھا۔ چودھری پرویز الٰہی نے ڈوب کر ابھرنے کی بہترین صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے لہذا بیوروکریسی کو اپنے قبلے کے تعین میں کچھ زیادہ مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور رہ گئے ارکان اسمبلی، انہیں اقتدار کے دوران رام رکھنا چودھری برادران کے لئے مشکل نہیں ہو سکتا، یوں ہمیں سپیکر ہاوس میں ا یوان وزیراعلیٰ سے بھی بڑھ کے رونقیں نظر آ سکتی ہیں، چودھریوں کے دل اور دسترخوان سے بڑا دل اور دسترخوان کم از کم پنجاب میں کسی کا نہیں۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ کو ایک اور مسئلے کا بھی سامنا ہوگا کہ شائد وزیراعلیٰ بننے تک ان کے پاس جناب وزیراعظم کا اپنا واٹس ایپ والا نمبر بھی نہ ہو مگر یہ نمبر پنجاب میں تحریک انصاف کے سینکڑوں نہیں تو بیسیوں پرانے کھلاڑیوں کے پاس ضرور ہے یعنی جب کوئی بات نہیں سنی جائے گی تو ایک منٹ میں شکایت لگ جائے گی۔ عثمان بزدار کے کھلاڑی بنتے ہی کپتان نے اچانک قومی ٹیم میں ڈال دیا ہے جہاں انہوں نے کھیلتے ہوئے اگر کوئی اونچی شاٹ لگانے کی کوشش کی تو ان کے آوٹ ہونے کے خطرات کہیں زیادہ ہوں گے، یہ سیاست کے فٹ بال کے اس میدان میں آ گئے ہیں جہاں مخالف کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی ٹیم ان کے خلاف ایک لمحے میں گول کر سکتی ہے۔اس سیاسی منظرنامے میں وزیراعلیٰ کٹھ پتلی ہوں گے اور ایوان وزیراعلیٰ اس ریموٹ کنٹرول سے چلے گا جس پر نجانے کس کس کا کنٹرول ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).