پاکستان ودھوا آشرم نہیں ہے


نومنتخب وزیر اعظم کا قوم سے پہلا خطاب سن لیا۔ ستر منٹ پر محیط اس تقریر کا پہلا تاثر مایوسی اور اضطراب ہے۔ مرکز اور تین صوبوں میں حکومت قائم کرنے والی جماعت کے قائد کا فکری زاد سفر اس قدر محدود اور سیاسی بصیرت کا ایسا پایاب ہونا تشویش ناک ہے۔ بھٹو صاحب نے 20 دسمبر 1971 کی رات پاکستانیوں سے پہلی بار بحیثیت سربراہ مملکت خطاب کیا تھا۔ ہماری تاریخ میں اس سے زیادہ گمبھیر مرحلے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

آدھا پاکستان علیحدہ ہو چکا تھا۔ باقی ماندہ پاکستان سرزمیں بے آئین تھا۔ 93000 جنگی قیدی اور موجودہ پاکستان کا چھ ہزار مربع میل علاقہ دشمن کے پنجہ گرفت میں تھے۔ اس کے باوجود بھٹو صاحب نے شکست خوردہ قوم کی آنکھوں میں خواب کی جوت جلا دی۔ بھٹو صاحب کا سیاسی پس منظر ہرگز بے داغ نہیں تھا لیکن ان کی ذہنی جودت، سیاسی قامت اور قائدانہ صلاحیت سے ایسا اعتماد ہویدا تھا کہ تیرہ برس تک مسلسل آمریت کی مار کھانے والی قوم نے مستقبل کے بارے میں ایک ولولہ محسوس کیا۔

یہ الگ بات کہ بھٹو صاحب نے ساڑھے پانچ برس تک اس اعتماد کا اذیت ناک امتحان لیا۔ 19 اگست کی شام عمران خان کے خطاب سے مرحوم جنرل ضیاالحق کی وہ تقریر یاد آئی جو انہوں نے 29 مئی 1988 کو محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کرنے کے بعد کی تھی۔ تب منتشر خیالی اور بے یقینی کی یہی کیفیت تھی…. جلد ہی ’بوئے گل و رنگ گل ہوتے ہیں ہوا دونوں‘کا مرحلہ آن پہنچا۔

آئین کے مطابق منتخب حکومت تو بدیہی طور پر تسلسل، استحکام اور ارتباط جیسے اشاروں سے عبارت ہوتی ہے۔ یہاں کیمیا گری، شخصی معجزے، مفروضہ اخلاص نیت اور مشتعل جنون کا ایسا وفور ہے کہ پوری تقریر میں آئین کا ذکر ہی نہیں کیا۔ جمہویت کا لفظ ہی سننے میں نہیں آیا۔ وفاق کی اکائیوں سے مخاطب ہی نہیں ہوئے، مذہبی اقلیتوں سے تحفظ کا وعدہ تک نہیں کیا، مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں کوئی سمت نہیں دی۔

عورتوں کا ذکر کیا تو بیواؤں کا، خدا معلوم سہاگنوں نے کیا محسوس کیا ہو گا؟ وزیر اعظم کے ایک حالیہ مداح نے فرمایا ہے کہ یہ تقریر دانشوروں، صحافیوں اور پڑھے لکھے افراد کے لئے نہیں تھی۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ عامة الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے۔ دانش اگر ایسا ہی حرف دشنام ہے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ فرد ہو یا اجتماع، اپنے تنقیدی شعور، دلیل اور حق اختلاف سے دستبردار ہو جائیں تو شرف انسانیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

وزیر اعظم نے اپنی پرمغز خطابت میں صحافت اور آزادی اظہار کا ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ ربط خیالی کا یہی فقدان باعث تشویش ہے۔ دستور میں پارلیمانی جمہوریت کو پاکستان کا طرز حکومت قرار دیا گیا ہے۔ جمہوریت میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف آئینی بندوبست کا حصہ ہوتے ہیں۔ 342 نشستوں کے ایوان میں 176 ووٹ لے کر منتخب ہونے والے وزیر اعظم مطلق العنانی کے جوہر دکھانا چاہتے ہیں۔

قانون سازی تو پارلیمنٹ میں ہونا ہے لیکن وزیر اعظم نے صرف چیف جسٹس سے رابطے کا عندیہ دیا ہے۔ محترم چیف جسٹس بڑی خوبیوں سے متصف ہیں لیکن یہ چراغ ہدایت تو 17 جنوری کی سہ پہر اس منصب جلیلہ سے رخصت ہو جائے گا، 184 (3) کی روایت باقی رہ جائے گی جس کے سود و زیاں سے وزیر اعظم کو نمٹنا ہو گا۔ ابھی سے سمجھنا چاہیے کہ ملک خیرات سے نہیں چلتے۔ پاکستان ودھوا آشرم نہیں ہے۔ ریاست بیواؤں اور یتیموں سمیت ہر شہری کے یکساں تحفظ کی ذمہ دار ہے۔

وزیر اعظم نے معیشت پر تادیر خیال آرائی کی لیکن یہ صراحت نہیں فرمائی کہ ملک کو چلانا کس معاشی نمونے پر ہے۔ آج کی دنیا میں دو ہی امکانات ہیں۔ کھلی منڈی کی معیشت یا ریاستی مداخلت پر مبنی مرکزیت پسند معیشت۔ قدیم تاریخ میں جنگ و جدل کر کے لوٹ مار سے بھی اپنا گھر بھرا جا سکتا تھا لیکن اب قزاق معیشت کا یہ نمونہ باقی نہیں رہا۔ ایک انوکھا نسخہ البتہ برادر اسلامی ملک نے گزشتہ برس نومبر میں دریافت کیا تھا۔ 400 کے قریب مالدار افراد کو باندھ کے ایک عمارت میں ڈال دیا۔ جو عندالطلب ادائیگی کر دے، وہ گھر چلا جائے۔

تاہم پاکستان میں جی ڈی پی کا کل حجم 284 ارب ڈالر ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر ہیں۔ یہاں کے باشندے چندہ جمع کر کے یا تاوان لے کر 95 ارب ڈالر کا قرض نہیں اتار سکتے۔ خلیجی ملک میں گرفتار ہونے والی ایک شخص کی دولت کا تخمینہ 18 ارب ڈالر تھا۔ ہمارے ملک میں امیر ترین شخص کی مالی حیثیت 1.2 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں۔ بیرون ملک جمع دولت کے انباروں کی حقیقت ہوائی قلعوں سے زیادہ نہیں۔ برسوں سوئس بینکوں میں 200 ارب ڈالر کا سندیسہ سنتے رہے، معلوم ہوا کہ 1.95 ارب سوئس فرانک کو کیلبری فونٹ کی مدد سے فارم 45 پر 200 ارب ڈالر میں بدلا ہے۔

سمجھنا چاہیے کہ ملک کی معاشی اور سماجی بدحالی کی واحد وجہ مالی کرپشن نہیں ہے۔ کرپشن اور کرپشن کے احتساب کا بت سنگی تو جمہوری عمل کو مفلوج کرنے، عوام کو بے دست و پا کرنے اور داخلی معاشی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے تراشا گیا ہے۔ اصل مسائل یہ ہیں کہ پاکستان نے بحیثیت ریاست کے جدید معاشی، سیاسی اور علمی طور طریقوں کی مخالفت پر کمر باندھ رکھی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کو ’یورپ کے ملک جیسا‘ بنانا چاہتے ہیں۔

یورپ کی ترقی کچھ باہم مربوط معاشی، سیاسی، تمدنی اور ثقافتی خطوط پر استوار ہوئی ہے۔ ہم یورپ کی منڈی سے اپنی مرضی کا مال نہیں اٹھا سکتے۔ ایک مثال دیکھیں۔ پانچ برس قبل بجلی کے بحران نے آفت برپا کر رکھی تھی۔ گزشتہ حکومت نے بجلی کی پیدوار بڑھانے میں سر گاڑی پاؤں پہیہ کر دیا۔ اب معلوم ہوا کہ بجلی گھروں کے لئے ڈیزل یا گیس منگوانا پڑے گی۔ ہمارے اپنے پاس تو پیٹرولیم کی ضروریات کے صرف 15 فیصد کے برابر قدرتی وسائل ہیں۔

بجلی پیدا کرنے کے لئے ڈیزل یا گیس درامد کرنا چاہی تو ادائیگیوں کا توازن بگڑ گیا کیونکہ درآمدات بڑھ گئیں اور برآمد ہم کیا کریں گے؟ ہم تو پیداواری لاگت میں حریف ملکوں سے مسابقت نہیں رکھتے۔ سو اب پوری قوم پچھلی حکومت کو قرض بڑھانے کا ذمہ دار قرار دے گی۔ یہ نہیں کہتے کہ 21 کروڑ افراد کو بجلی، پانی، صحت اور تعلیم دینا ہیں تو مربوط منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ اس کے لئے معاشی ترجیحات پر نظر ثانی کرنا پڑتی ہے۔ خارجہ پالیسی پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔ داخلی سیاسی استحکام پیدا کیا جاتا ہے۔ اور یہ وہ تین تاریک غار ہیں جن کا رخ کرنے والے مہم جو عبرت کا نشان بنا دیے جاتے ہیں۔ عمران خان شعور تناسب سے عاری ہیں اور چار صوبوں کے وسیع ملک کو بلدیاتی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں، انہیں ایک کہانی سنانی چاہیے۔

برازیل کے مصنف پاؤلو کوئیلہو کا ناول الکیمسٹ گزشتہ تین دہائیوں کی مقبول ترین کتاب سمجھا جاتا ہے۔ سان تیاگو نام کا ایک لڑکا آزاد زندگی گزارنے کا خواہش مند ہے لیکن اس کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ وہ بار بار ایک خواب دیکھتا ہے جس میں اسے اہرام مصر کے پاس ایک خزانے کی موجودگی کا بتایا جاتا ہے لیکن خزانے کی اصل جگہ دیکھنے سے پہلے ہی اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ خوابوں کی تعبیر بتانے والی ایک خانہ بدوش عورت اسے خزانے کی تلاش میں اہرام مصر جانے کا مشورہ دیتی ہے۔

طول و طویل سفر کے بعد سان تیاگو کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ خزانہ دراصل اسی گرجا گھر کے کھنڈرات میں دفن تھا جہاں اس نے خواب دیکھا تھا۔ پاکستان کی ترقی کی کنجی بھی پاکستان کے لوگوں کے پاس ہے۔ اسے خیراتی نسخوں، جھاڑ پھونک اور چھینا جھپٹی کی مدد سے نہیں، عوام کی حاکمیت، دستور کی بالادستی، علم کی تخلیق اور معاشی پیداوار کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).