مدنی ریاست میں غلام اور لونڈیاں


جناب عمران خان کی بطور وزیراعظم پہلی تقریر میں ہر پانچ جملوں کے بعد مدینہ کی ریاست کا ذکر تھا۔ ہماری خوش عقیدگی کا یہ تقاضا ہے کہ یہ اصرار کیا جائے کہ ایک جدید فلاحی ریاست کے لیے سب سے بہترین نمونہ مدنی ریاست ہے۔ اسی ایک سانس میں ہم سکنڈے نیویا کے ممالک کی مثال لاتے ہیں اور یہ فرض کر لیتے ہیں کہ یہ ریاستیں آج انہی خطوط پر استوار ہیں جن کا ڈول مدینہ میں ڈالا گیا تھا۔ ہمارے بہت سے دوست اس ضمن میں بار بار عمر لاء کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتے۔ سن 2012 میں جناب عمران خان نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ یورپ کا فلاحی نظام اسلام کا عطا کیا ہوا ہے اور سکنڈے نیویا میں سویڈن جیسے ممالک میں قانون کی بنیاد بھی عمر لاء ہے۔

ہمارے کچھ محقق قسم کے صحافیوں کو یہ بات ہضم نہ ہوئی تو وہ ڈاکٹر کان لومکسوٹ کے پاس جا پہنچے جو سوشل ڈیموکریٹک سسٹم اور مارکسزم کے حوالے سے ہوئی تحقیق میں ایک معتبر مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ عمر لاء والی بات ان کے لیے ایک نئی خبر ہے اور انہیں کسی تحقیق میں ایسے کسی اصول یا قانون کا حوالہ نہیں ملا جو اسلام سے ادھار لے کر یورپ میں نافذ ہوا ہو۔ سکنڈے نیویا کی فلاحی ریاستوں کا سرا سو سال پہلے شروع ہوئی مزدور تحریکوں سے جا ملتا ہے۔ سکنڈے نیویا میں اسلامی نظام سے واقفیت نہ ہونے کے برابر ہے اور خلیفہ عمر سے کوئی آشنا نہیں ہے۔ تس پر ہمارے صحافی اپنا سا منہ لے کر لوٹے اور یہ انٹرویو بھی چھاپ ڈالا پر خاں صاحب کی تحسین کے شور میں کسی نے یہ انٹرویو پڑھنے کی زحمت نہ کی۔

https://www.siasat.pk/forums/threads/omars-law-is-unknown-in-sweden-swedish-historian-to-imran-khan.122035/

اسی حوالے سے دوستوں سے مکالمہ رہا۔ اس میں شک نہیں کہ مدنی ریاست عمدہ اصولوں پر استوار تھی لیکن یہ ایک ایسے دور میں تھی جب معاشی اور معاشرتی مضامین گنجلک نہیں تھے۔ اداروں کا ربط باہمی ابھی دور کی کوڑی تھا کہ اداروں کا جنم نہیں ہوا تھا۔ نظام سلطنت صرف اخلاقی اصولوں پر نہیں چلتا۔ اس کے لیے ایک مکمل نظام کی تشکیل ضروری ہے۔ ایسا تمام ادب جس کا مطمح کردار کی تعمیر ہے، ان آفاقی اصولوں کا ذکر کرتا ہے جو اخلاقی تطہیر کے لیے ضروری ہیں۔ ایسا ہی ذکر قرآن حکیم میں بھی ہے لیکن نظام کی تعمیر اس کے بعد انسانوں کے شعور اجتماعی کی مرہون منت ہے۔

تیسرے خلیفہ راشد کے بعد طاقت کا مرکز یوں بھی مدینہ سے منتقل ہو گیا تھا تو پہلے تین خلفائے راشدین کی مدنی ریاست کی کل عمر پچیس سال کے آس پاس رہی۔ ان پچیس برسوں میں خلافت پر خونریز جنگیں بھی ہوئیں۔ دو خلفا شہید ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کے خلاف بغاوت گھر کے اندر سے ہوئی۔ جید صحابہ تلواریں اٹھائے مدمقابل آئے۔ اس کے بعد حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ ایک ہی وقت میں خلیفہ رہے۔ خلافت کو ایک قبائلی اور نسلی حق کے طور پر قریش کو ودیعت کیا گیا۔ انتقال اقتدار کا کوئی مربوط نظام تشکیل نہ پا سکا جس کا نتیجہ تین دہائیوں کے اندر اندر ملوکیت کی شکل میں نکلا۔ یہ ایک پر آشوب دور تھا جس میں مسلمانوں کی زیادہ عمر گھوڑے کی پیٹھ پر گزری۔ فقید المثال فتوحات حاصل ہوئیں لیکن آئینی اور قانونی اصلاحات ایام طفولیت میں ہی رہیں۔

قرآن وسنت کو آئین کہنا بہت بھلا لگتا ہے لیکن قرآن دورِ جدید کے آئین جیسی دستاویز نہیں ہے۔ اس کے رہنما اصولوں کے تحت ایک سوشل کنٹریکٹ تشکیل پا سکتا تھا اور حضرت عمرؓ کے دور میں اس پر پیش رفت بھی ہوئی مگر یہ کسی مکمل شکل میں نہ ڈھل سکا۔ جو مثالیں اور روایات ہم تک پہنچی ہیں ان کا تجزیہ کریں تو پتہ لگتا ہے کہ وہ ذاتی کردار سے متعلق ہیں نہ کہ، حق حکمرانی، انتقال اقتدار اور اختیارات کی واضح علیحدگی اور باہم احتسابی اختیار کے ایک مربوط نظام سے۔ یہی وجہ رہی کہ حضرت عمرؓ کے مثالی دور حکومت کے فورا بعد حضرت عثمانؓ کا دور ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا شکار رہا۔ اور اس کے بعد ریاست ایک ہمہ وقتی اضطراب کا شکار رہی۔ ہماری تاریخ کے اپنے مستند ماخذ اس بات کے گواہ ہیں۔

برسبیل تذکرہ اس بحث میں غلامی کا ذکر بھی آ گیا۔ ازراہ تفنن یہ بات کی گئی کہ مدنی ریاست میں تو غلامی جائز تھی تو کیا نئے پاکستان میں بھی غلام دستیاب ہوں گے۔ اوریا مقبول جان صاحب جیسے مہربان تو خیر اس کے حق میں ہیں اور اس کا برملا اظہار ٹیلی ویژن پر کر چکے ہین۔ لیکن ہمارے کچھ دانشور دوستوں کو یہ بات نہیں بھائی۔

یہ حقیقت ہے کہ مدنی ریاست میں غلامی پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت ایک الگ موضوع ہے اور اس حوالے سے موجود روایتیں اس زمانے کے لحاظ سے قابل تقلید ہیں لیکن غلامی کا ادارہ بدستور قائم رہا۔ جنگوں کے علاؤہ تحفے میں بھی غلام اور لونڈیاں پیش کرنا عام چلن تھا۔ آج کا انسان اس پر معترض ہے اور بجا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے اکثر دوست یہ فرماتے ہیں کہ غلامی کو فوری ختم کرنا حکمت سے خالی تھا اس لیے اسے بتدریج ختم کیا گیا۔ ایک دوست تو یہاں تک کہہ بیٹھے کہ مدینہ کی ریاست کو غلامی سے جوڑنا سطح بینی اور کور چشمی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ شعور اجتماعی اس دور میں غلامی کو غلط خیال نہیں کرتا تھا اس لیے مدنی ریاست میں اس کی موجودگی فطری تھی۔

اس حوالے سے دو سوال اٹھتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ایک انقلابی تحریک اس وقت کے معاشرے کی سب سے بڑی اساس یعنی بت پرستی کو بغیر لیت ولعل ختم کر دیتی ہے لیکن وہی انقلابی تحریک غلامی کو ختم کرنے پر توجہ نہیں دیتی بلکہ غلاموں اور لونڈیوں کو رکھنے اور برتنے کے اصول وضع کرتی ہے۔ بجا کہ اس دور میں غلامی عام تھی لیکن ہر وہ عمل جو عام ہو، اس کا درست ہونا ضروری نہیں ہے۔ ایک انقلاب میں جہاں خدا کے حقوق محفوظ بنائے گئے وہاں انسانوں کے سب سے بنیادی حق یعنی آزادی کا تحفظ کرنے میں کیا امر مانع تھا؟ اس سوال کو جب بھی رکھا گیا۔ وہی بتدریج خاتمے والا جواب ملا۔ آئیے ذرا اس کی حقیقت پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں۔

میرا حقیر مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ غلامی کے بتدریج خاتمے کا دعوی محض ایک متھ ہے۔ حضرت عمرؓ سے یہ قول منسوب کیا جاتا ہے کہ جن لوگوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنا، تم انہیں غلام بنانے والے کون ہوتے ہو۔ لیکن حضرت عمرؓ سے ہی یہ قصہ بھی منسوب ہے کہ یروشلم میں داخل ہوتے ہوئے ان کا غلام ان کے ہمراہ تھا۔ مصر کے بادشاہ مقوقس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کنیز تحفے میں بھیجی تھی اور رسول اللہ صلعم کے بیٹے حضرت ابراہیمؓ انہی کے بطن سے تھے۔ بیشتر مورخین کے مطابق ان کو رسول اللہ صلعم نے کبھی آزاد نہیں کیا۔ حضرت علیؓ کی اولاد میں سے تیرہ بچے ان کی لونڈیوں کے بطن سے تھے۔ باقی خلفا کے غلاموں اور لونڈیوں کی فہرست بھی کتب میں مذکور ہے۔ کسی خلیفہ کے دور میں غلامی کے ”بتددیج“ خاتمے کے لیے کسی قانون سازی کا سراغ نہیں ملتا۔ اکثر اسلامی ممالک میں بیسویں صدی تک غلامی کو قانونی تحفظ حاصل تھا۔ آج بھی شرعی طور پر غلام اور لونڈیوں کو ”مال“ سمجھا جاتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad