پاک بھارت ناز نخرے: انگیجمنٹ کے بغیر سنگم کیسے ہو گا؟


لگتا ہے کہ انڈیا اور پاکستان بات کرنا تو چاہتے ہیں لیکن شاید عنقریب کر نہ پائیں۔ کم سے کم ان کی باتوں سے تو ایسا ہی لگتا ہے۔

لیکن بات کریں بھی تو کیسے، وزیر اعظم نریندر مودی نے حلف برداری کے فوراً بعد وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو جو خط لکھا تھا اس میں یہ جملہ کہیں شامل نہیں ہے کہ ’آئیے کہیں بیٹھتے ہیں، بات چیت کریں گے، میرے خط کو بات چیت کی باضابطہ دعوت ہی سمجھیے گا کیونکہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان بہت سے تصفیہ طلب مسائل ہیں جنھیں مل بیٹھ کر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔‘

نریندر مودی نے اپنے خط میں صرف اتنا کہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے دوستانہ تعلقات قائم کرنے اور خطے کے عوام کی خوشحالی کے لیے بامعنی اور تعمیری ’انگیجمنٹ‘ کے خواہشمند ہیں ( یا ایسا کرنے کے اپنے عزم کے پابند ہیں)۔

زیادہ تر لوگوں کو شاید لگے کہ بات تو ایک ہی ہے، لیکن انڈیا اور پاکستان کے رشتوں میں ہر لفظ کا پوسٹ مارٹم کیے بغیر بات صاف نہیں ہوتی۔

یہ خط انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا اور بس یہ اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے کہ ’انگیجمنٹ‘ سے وزیر اعظم مودی کی کیا مراد تھی۔ کیا بات کیے بغیر انگیجمنٹ ممکن ہے؟

یہ تو اب انڈیا اور پاکستان دونوں نے واضح کر دیا ہے کہ اس کا مطلب ’بات چیت‘ نہیں تھا، یا یہ بات چیت کی پیشکش نہیں تھی، یا اگر بالکل ہی واضح کر دیا جائے تو جیسا ایک اخبار نے ایک حکومتی اہلکار کے حوالے سے لکھا ہے ’یہ جامع مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش نہیں تھی۔‘

پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے یہ کہا ہی نہیں تھا کہ انڈیا نے بات چیت شروع کرنے کی پیشکش کی ہے۔ انھوں نے یہ کہا تھا کہ انڈیا کے وزیراعظم نے بھی اپنے خط میں اس سے ملتی جلتی بات کہی تھی۔۔۔یا تاکہ مزید کوئی کنفیوژن نہ ہو، بس یہ سمجھ لیجیے کہ پاکستانی وزارت خارجہ نے اس سے ملتی جلتی وضاحت جاری کی ہے۔

شاہ محمود قریشی

اف، کس نے کیا کہا تھا! اور اینگیجمنٹ کا مطلب ہوتا کیا ہے؟

میں نے انٹرنیٹ پر تلاش کیا تو چار پانچ دوسرے ممکنہ متبادل نظر آئے: مصروفیت،مشغولیت،ملازم رکھنے کا فعل،منگنی اور نسبت۔

بات ضرور باہمی رشتوں کی ہو رہی تھی لیکن منگنی؟ بالکل نہیں۔ نسبت؟ نو چانس۔ ویسے بھی دونوں میں کیا واقعی کچھ فرق ہے؟ معلوم نہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی خط کے مضمون کے لحاظ سے موزوں نظر نہیں آتا۔

پاکستان کے نئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان پر جب انڈیا میں کافی ہنگامہ شروع ہو گیا، تو دلی میں وزارت خارجہ کے ذرائع نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے خط میں عمران خان کو مبارکباد دی ہے اور ٹیلی فون پر ان سے اپنی اس بات چیت کا بھی ذکر کیا جس میں دونوں رہنماؤں نے برصغیر میں امن، سلامتی اور خوشحالی کے لیے کام کرنے کی اپنی خواہش کا ذکر کیا تھا تاکہ خطے کو دہشت گردی اور تشدد سے پاک کیا جا سکے اور ترقی پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔

آپ کو شاید لگے کہ یہ تو تیز رفتار ترقی کا بلیو پرنٹ ہے اور یہ سب ’انگیجمنٹ‘ سے ہی ہوسکتا ہے لیکن اب ہمیں یہ معلوم ہے کہ انگیجمنٹ چاہے کتنی بھی تعمیری اور بامعنی کیوں نہ ہو، اس میں بات چیت کا پہلو شامل نہیں ہوتا!

اس لیے اب ایک نئی پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔

عمران خان نے انتحابی نتائج کے اعلان کے فوراً بعد کہا تھا کہ باہمی رشتوں میں بہتری کےلیے انڈیا اگر ایک قدم آگے بڑھائے گا تو وہ دو قدم آگے بڑھائیں گے۔ لیکن اگر دونوں بات نہیں کریں گے تو یہ کیسے معلوم ہوگا انڈیا نے ایک قدم آگے بڑھایا ہے یا نہیں اور پاکستان نے جو دو قدم آگے بڑھائے ہیں وہ کس سمت میں بڑھائے ہیں؟

ظاہر ہے کہ یہ بڑی خبر تھی اس لیے ہر بڑے اخبار میں نمایاں طور پر شائع ہوئی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی سرخی ہے: وزیراعظم نے عمران کو ’تعمیری انگیجمنٹ‘ کی پیشکش کی لیکن عنقریب بات چیت نہیں۔

ہندوستان ٹائمز کا کہنا ہے کہ ’آگے کا راستہ انگیجمنٹ ہی ہے، مودی کا عمران کو پیغام۔‘ اور ساتھ ہی انڈیا کی یہ وضاحت بھی شامل ہے کہ ’یہ بات چیت کی پیشکش نہیں ہے۔‘ لیکن اخبار نےبھی یہ واضح نہیں کیا ہے کہ پھر یہ کس بات کی پیشکش ہے؟

لیکن بغیر زیادہ خطرہ مول لیے اتنا تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ اس میں بات چیت کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے۔ ابھی نہیں تو بعد میں ہی سہی، فی الحال انگیجمنٹ کر لیں گے اور اس کے بعد بات چیت۔

انگریزی میں کہتے ہیں کہ “نیور دا ٹوئِن شیل میٹ” (دونوں کی آپس میں ملاقات کبھی نہیں ہوگی)

یہ رڈیارڈ کپلنگ کی ایک نظم کا حصہ ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ مشرق مشرق ہے، مغرب مغرب۔۔۔ یہ بات ثقافت کے ضمن میں کہی گئی تھی اور سیٹنگ خیبر پختونخوا کی ہی ہے۔ بات تقسیم سے پہلے کی ہے اور( آج کل کے ماحول میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ) انڈیا اور پاکستان کی موجودہ سیاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ نظم کے کرداروں سے کوئی مشابہت!

لیکن اس نظم میں کپلنگ کا کہنا ہے کہ جب دو طاقتور شخص آمنے سامنے کھڑے ہوں تو نسل، جنم اور سرحدوں کا فرق ختم ہوجاتا ہے، چاہے دونوں کا تعلق دنیا کے دو کناروں سے ہی کیوں نہ ہو۔

بس فرق یہ ہے کہ اس نظم میں دونوں ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں اور انجام کار ان کی دشمنی گہری دوستی میں بدل جاتی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp