میاں صاحب! آپ کا وقت ہوگیا


الیکشن ہوگیا، اب چیزیں اپنی اپنی جگہ بنانے لگ گئی ہیں، سب کو اپنی پوزیشن کا اندازہ ہوگیا۔ کس نے کہاں بیٹھ کر کیا کرنا ہے۔ کوئی ابہام باقی نہیں رہا نہ کسی کو مزید گمان کرنا چاہیے۔ عید کس نے کہاں اور کس حیثیت میں گزارنا ہے یہ بھی معلوم ہے۔

عمران خان وہاں پہنچ چکے ہیں جس منزل کا ٹھان کے نکلے تھے۔ جونیئر بھٹو بلاول زرداری بھی اپنے ٹارگٹ کے پہلے پڑاؤ پر قدم رکھ چکے ہیں۔ سیاست کا ایک تجربہ کار نام شہباز شریف ایک طویل مدت کے بعد نئی ذمہ داریوں کے ساتھ پارلیمنٹ کی اپوزیشن نشست کے حق دار قرار پائے ہیں۔

ان سب سے الگ پاکستانی سیاسی تاریخ کا اہم کردار میاں محمد نواز شریف جنہیں تین مرتبہ وزیراعظم اور دو مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب رہنے کا اعزاز حاصل ہے، اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں عید کے ایام گزاریں گے۔

قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے انتخاب کے بعد ایک روایتی شور میں عمران خان نے اور پھر شہباز شریف نے وہی کچھ بولا جس کا وہ ذہن بناکر آئے تھے لیکن دونوں کی ذہنی کیفیت کچھ ایسی تھی کہ ان کے لہجے اندر کی حالت کا حال بیان کرگئے۔ نومنتخب وزیراعظم بھی کنٹینر وا الے کپتان لگے اور شہباز شریف بھول گئے کہ اسمبلی میں ہیں اپنی روانی میں ایوان کو جلسہ گاہ سمجھ کر خطاب کر ڈالا۔ سپیکر کے بجائے میرے بزرگوں، خواتین وحضرات مخاطب کرتے رہے۔

جذبات کی رو میں وقت کا بھی اندازہ نہ رہا، موقعے کی مناسبت بھی ذہن سے نکل گئی۔ سپیکر کی کال پر بلاول بھٹو کھڑے ہوئے تو بے ساختہ ان کے منہ سے نکل گیا، ”میاں صاحب! آپ کا وقت ہوگیا“۔ بلاول کا یہ جملہ ہر اعتبار سے اپنے معنی چھوڑ گیا۔ وہ یہی کہنا چاہتے تھے کہ اب کسی اور کو بھی اقتدار میں بیٹھنے اور اپوزیشن بینچوں سے بولنے کا موقع دیں۔

عمراں خان پچھلے پانچ سال سے میاں برادران کو جس انداز سے مخاطب کرتے رہے یہ ان کی پارٹی والے بڑی خوشی سے سنتے ہیں جبکہ مخالفین اور غیرجانبدار مبصرین اس پر تھوڑا معترض ہیں۔ بہرحال بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ کی وکٹ پر اپنی پہلی اننگز کچھ اس انداز سے کھیلی کہ سب نے محسوس کیا کہ پوری پریکٹس اور تیاری کے ساتھ آئے۔ جس میں سپیکر سے لے کر شہباز شریف اور وزیراعظم عمران خان پر بھی درست حملے کرگئے۔ ناتجربہ کاری کی بہت کم جھول محسوس ہوئی۔

کہتے ہیں استاد استاد کا فرق معلوم ہوجاتا ہے۔ ان کے والد کو اگرچہ سیاست میں بہت زیادہ اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جاتا لیکن سیاست کے گرو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ آصف علی زرداری کا ذہن بہت دور کی سوچتا ہے۔

بلاول کو بے بی کہنے والے اس دن خاموش تھے بلکہ بے شمار ہکابکا جسیی کیفیت سے دوچار تھے۔ کسی بھی مبصر نے کوئی تنقید نہیں کی، ہاں زخم خوردہ مسلم لیگی حلقے یہ ضرور کہتے رہے کہاں کی جمہوری جماعت جس نے ووٹ نہ دے کر اپوزیشن کو کمزور کیا۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے اس اقدام کا مقصد اپنی پوزیشن مضبوط کرنا ہو۔

بلاول کی تقریر سننے والوں میں سے کچھ کے ذہنوں میں ایک اور چہرہ بھی آرہا تھا مریم نواز جو کہ مقدموں میں ملوث پائے جانے کے بعد اس دن محروم ہوگئیں۔ ہوسکتا ہے کہ شہباز شریف کی جگہ اس روز مریم نواز اپنی شعلہ بیان تقریر کرتیں اور بلاول کے لیے میدان اس طرح کھلا نہ چھوڑتیں۔ لیکن سیاست میں قسمت کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے، سوچا کچھ ہوتا ہے اور واقعات کسی اور ڈھب میں پیش آتے ہیں۔

اقتدار کی منتقلی کا عمل مکمل ہوگیا، اب صرف صدر کا انتخاب باقی رہ گیا، کچھ جانے والے صدر ممنون حسین کا ذکر بھی ہوجائے، انہوں نے بھی حلف برداری کی تقریب میں چہرے کے تاثرات سے پوری طرح اپنے جذبات کا اظہار کردیا، وہ اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کی طرح سے اندر کی کیفیت چھپانے میں ناکام رہے بلکہ انہوں نے کوئی ایسی کوشش بھی نہیں کی۔ بہرطور وہ اپنے منصب کی ذمہ داریاں بڑے احسن انداز سے انجام دے گئے۔ اگلا صدر کون ہوگا، اس پر بلاول کے والد صاحب نے سکیمیں بنانا شروع کردی ہیں۔ مسلم لیگ نے اعتزاز احسن کے نام پر فی الحال اعتراض کیا ہے۔ لیکن بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن صدر کے الیکشن میں مقابلے کی پوزیشن میں ہے، اگر یہ اتفاق نہ پائے تو حکومت کو فائدہ پہنچے گا، اور اس سب کے نتیجے میں آنے والے دنوں میں اپوزیشن اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنالیں گی۔

شہباز شریف ایسے ہی غصے میں بول جایا کریں گے اور بلاول اچھی اچھی باتیں کرکے واہ واہ سمیٹ لیا کریں گے۔ پھر میاں صاحب کے ساتھ بلاول کا وقت بھی جلد ہو جائے گا۔ باقی رہ گئے حکومتی بینچ ان کے پاس اقتدار ہوتا ہے وہ الٹی سیدھی قلابازیاں لگاتے رہیں گے، پھر کون پوچھنے والا ہوگا۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar