ڈاکیہ: انتون چیخوف کی کہانی


ڈاک گاڑی اب شہر کی حدود سے باہر آ چکی تھیی۔ سڑک کے دونوں سمت یا تو چھوٹے چھوٹے گھروں کے باہر لگی سبزیوں کی کیاریاں تھیں یا ایک آدھ درخت۔ باقی ہر چیز تاریکی کے لبادے میں پوشیدہ تھی۔ کھلی فضا میں چاند بھی کچھ بڑا بڑا سا لگ رہا تھا اور ستارے بھی ذرا زیادہ روشن معلوم ہو رہے تھے۔ ڈاکیے نے اپنا چہرہ اور زیادہ کالر میں گھسا دیا تھا۔ لڑکے کو بھی اب سردی کی ایک لہر نے اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا تھا، اس کے ہاتھ، پاؤں اور چہرہ یخ ہو گیا تھا۔ گھوڑوں کی رفتار کم ہو گئی تھی اور گھنٹیاں ایسے گوںگی ہو گئی تھیں جیسے سردی سے منجمد ہو گئی ہوں۔ گھوڑوں کے سم جب گیلی سڑک پر جمع ہوئے پانی پر پڑتے تو ستاروں کا عکس ان میں ایسے نظر آتا جیسےوہ گاڑی کے ارد گرد رقص کر رہے ہوں۔

لیکن صرف دس منٹ بعد پھر تاریکی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ نہ تو چاند کی روشنی، نہ ستاروں کی چمک دکھائی پڑتی۔ ڈاک گاڑی اب جنگل میں داخل ہو چکی تھی۔ دیودار کے درختوں کی نوکیلی شاخیں لڑکے کے کپڑوں اور چہرے سے الجھ رہی تھیں۔ وہ بار بار مکڑی کے جالے اپنے چہرے سے ہٹا رہا تھا۔ گاڑی کے پہیے اور گھوڑوں کے سم درختوں کی موٹی موٹی جڑوں سے ٹکرا رہے تھا اور گھوڑا گاری ایک بد مست شرابی کی طرح ایک سے دوسری سمت بہکتی بہکتی سی چل رہی تھی۔

‘دیکھ کر کیوں نہیں چلاتے گاڑی، سڑک پر رہو۔ بالکل کنارے پر کیوں چل رہے ہو۔ ‘

ڈاکیے نے نہایت غصیلی اْواز میں کوچوان کو ڈانٹا۔

میرا چہرہ ان شاخوں سے زخمی ہو گیا ہے۔ گاڑی کو دائیں طرف۔۔۔

ابھی ڈاکیے کا فقرہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ۔ گاڑی کو اچانک ایسے جھٹکے لگے جیسے کسی مریض پر مرگی کا دورہ پڑ رہا ہو۔ گاڑی پر ایک کپکپی سی طاری ہوئی اور وہ پہلے ایک طرف اور پھر دوسری طرف جھکی جیسے گرنے کا قریب ہو لیکن اچانک انتہائی تیزی سے جنگل کے کچے راستے پر آگے بڑھی۔ لگتا تھا جیے گھوڑوں نے کسی ڈراونی چیز کو دیکھ لیا ہے اور اس کے خوف سے فرار ہونا چاہتے ہیں

اوئے  اوئے، کوچوان چیخا، شیطان کی اولاد، اس نے گھوڑوں کو گالیاں دینی شروع کر دیں

لڑکا بری طرح سے ڈر گیا تھا۔ اس نے آگے جھک کر کوئی سہارا ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن چمڑے کےگیلے تھیلوں پر اس کے ہاتھ پھسل رہےتھے۔ اس نے کوچوان کے کوٹ کی پیٹی پکڑنا چاہی لیکن کوچوان خود ایسے ہچکولے کھا رہا تھا کہ لگتا تھا ابھی گاڑی سے نیچے گر پڑے گا۔ پہیوں کی گڑگڑاہٹ اور گاڑی کی کڑکڑاہٹ کے شور میں دونوں نے تلوار کے گرنے کی آواز سنی اور اس کے فورأ بعد کسی بھاری سی چیز کے زور سے گرنے کی آواز آئی۔

ٹھہرو ، ٹھہرو، ٹھہرو

کوچوان کی آواز میں خوف اور گھبراہٹ دونوں شامل تھے۔

گاڑی بری طرح ہچکولے کھا رہی تھی۔ لڑکے کا سر کوچوان کی سیٹ سے ٹکرایا اور پھر دوسرے لمحے اس کی کمر گاڑی کے حفاظتی تختے پر اتنی زور سے لگی کہ اس کی چیخیں نکل گئیں۔ لڑکے نے دونوں ہاتھوں سے تختوں کو پکڑا تاکہ وہ گرنے سے محفوظ رہے۔ اتنے میں گھوڑے جیسے زقند بھر کر انتتہای تیز رفتاری سے جنگل سے نکل کر کھلے میں آ گئے۔ پھر دائیں طرف مڑے اور اچانک ایسے رک گئے جیسے کسی ان دیکھی قوت نے انہیں اپنی جگہ پر منجمد کر دیا ہو۔ لڑکے کا سر ایک مرتبہ پھر کوچوان کی سیٹ سے ٹکرایا۔

کوچوان اور لڑکے کی سانسیں بری طرح پھولی ہوئی تھیں۔ ڈاکیہ گاڑی میں موجود نہیں تھا۔ وہ اپنی تلوار اور ایک خطوں کے تھیلے سمیت گاڑی سے نیچے گر گیا تھا۔ لڑکے کی کتابوں کا بھی کچھ پتہ نہیں تھا۔

‘ٹھہر جا بدمعاش، تیرا بیڑا غرق ہو، ٹھہر جا۔

آواز جنگل سے آ رہی تھی

تجھ پر خدا کی لعنت، تجھے میں ابھی مزہ چکھاتا ہوں

ڈاکیہ اب جنگل سے باہر نکل چکا تھا۔ غصے سے بھنایا ہوا تھا، منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ ہوا میں مکہ لہراتے ہوئے وہ کوچوان کو گالیاں سنا رہا تھا

یہ گھوڑے نہیں ہیں حضور یہ تو شیطان گھوڑوں کی شکل میں آ گیا ہے۔ میں میں کر بھی کیا سکتا ہوں، کوچوان نے کہا۔ ویسے اس بیچ والے کو تو ابھی لگام لئے ہفتہ بھی نہیں ہوا اسی لئے بہت جلدی بدک جاتا ہے۔ خاص طور اگر ڈھلوان سے اتر رہا ہو تو بالکل قابو میں نہیں رہتا۔ ابھی اس کی تھوتھنی پر ایک لگاؤں گا تو ٹھیک ہو جایے گا۔

دررر دررر۔ صبر، صبر۔ اس نےبیچ والے گھوڑے سے کہا جس نے دوبارہ بدکنا شروع کر دیا تھا۔

جتنی دیر کوچوان گھوڑوں کو سنبھال رہا تھا، ڈاکیے نے اپنی تلوار اور خطوں کا تھیلا دوبارہ گھوڑا گاڑی میں بڑبڑاتے ہوئے لادا۔ کوچوان تقریباٌ سو قدم پیدل چلا پھر اچک کر گاڑی پر چڑھ کر پر بیٹھ گیا جس میں لڑکا اور ڈاکیہ پہلے سے بیٹھ چکے تھے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3