بچپن کی عید اور بچپن کے مزے


عید پر مزہ تو آتا ہی ہے کہ سرکاری طور پر چھٹی ہوتی ہے۔ پر اصل میں یہ مزہ تب آتا تھا جب ہم چھوٹے سے تھے۔ بڑے تو عید کے دن بھی کسی نہ کسی پریشانی کی وجہ سے مبتلائے غم ہی رہتے ہیں۔ چھوٹے بچے نئے کپڑے پہن کر یہاں وہاں سے عیدیاں اکھٹی کرکے تو جب دیکھو نوٹ گنتے دکھائی دیتے ہیں۔

عید کے موقع پر کھانے پینے والے ادھر اُ دھر کچھ زیادہ ہی ٹھیلے لگے نظر آتے ہیں کچھ پیسے والے بچوں کو پیزا ہٹ یا کے ایف سی لے جاتے ہیں۔ آئسکریم قلفی چاٹ جگہ جگہ پھیرے لگاکے بیچی جارہی ہوتی ہے کئی جگہ تو چھوٹا سا خیمہ لگا کے عارضی طور پر کھانے پینے کی چیزیں رکھی جاتی ہیں۔

قربانی کی عید کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جانوروں کی خوب کھالیں اتاری جاتی ہیں۔ بچپن میں پہنچنے کے لئے کوئی بٹن نہیں دبانا ہوتا آپ ایک سیکنڈ میں پہنچ جاتے ہیں جو ابھی میں بھی پہنچ ہی گئی ہوں۔ گاؤں میں ہمارے گھر میں ایک اسٹور کی طرح استعمال ہونے والا کمرہ تھا۔ جس میں خاصا اندھیرا رہتا تھا۔ وہیں قطاروں میں لوہے کی اور لکڑی کی پٹیاں رکھی ہوتی تھیں۔ لوہے کی پیٹی کے پیچھے کچھ چھریاں بلکہ یہ بہت بڑے سائز کی تھیں اس لئے ان کو چھرے لکھنا چاہیے کو کسی طرح پیچھے سے نکال کے دیکھنا چاہتی تھی پر وہ اتنی مضبوطی سے محفوظ طریقے سے رکھی تھیں کہ بہت دفعہ کوشش کے باوجود بھی میں نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ میں نکال کے چیک کرنا چاہتی تھی پر صیح طرح سے وہاں ہاتھ نہیں پہنچ پاتا تھا۔

ایک دفعہ قربانی کی عید سے ایک دن پہلے ان خوفناک ہتھیاروں کو تیز کروانے کے لئے نکالا گیا تھا تو پتا چلا اس سے گائے یا بھینس کو کاٹا جاتا ہے۔ اس سے پہلے میں نے صرف مرغے مرغیاں ہی کٹتی دیکھی تھیں۔ جب بھی گھر میں مرغی پکنی ہوتی تو ہم بچوں سے مدد لی جاتی تھی۔

ہم لوگ یعنی درجن بھر بچے غریب مرغی کے پیچھے تب تک بھاگتے رہتے جب تک وہ تھک کر ہمارے ہاتھ نہ لگ جاتی۔ پھر تماشا لگتا جب ہمارے گھر میں کام کاج کرنے والے بچل شیدی مرغی کے پیروں کو اپنے پیر کے نیچے دبا کر کلمہ پڑھتے اور اللہ اکبر کے نعرے کے ساتھ ہی مرغی کی گردن پر چھری پھیرتے۔ مرغی اس حالت میں بھی دو تین فٹ تک اچھلتی اور پھر ساکت ہوجاتی ہم سب گول کھڑے ہوئے دیکھتے جب وہ پر صاف کرتا تو قریب بیٹھ جاتے اور دلچسپی سے دیکھتے۔ میرا مطلب صرف اتنا ہے کہ اس سے پہلے میں نے صرف مرغی ہی کٹتے دیکھی تھی۔ اب کوئی بڑا جانور کٹتے دیکھنا چاہتی تھی۔

عید کے دن سحری کے وقت سے ہی رونق لگ جاتی تھی سب اٹھ جاتے تھے اس دفعہ جب میں نے دیکھا کہ چھریاں نکال کے بچل شیدی کو دی گئیں ہیں تو اس کے پیچھے ہی بھاگتی چلی گئی تھی۔
میرے پیرمیں چپل بھی نہیں تھی۔ باہر لوگوں کا رش لگا ہوا تھا ہر ایک کے ہاتھ میں پلیٹیں تھیں۔ ان ہی دنوں تھر سے آنے والے لوگ بھی عارضی چھوٹے چھونپڑے بناکے رہے تھے۔ ایسا اکثر سالوں میں ہوتا تھا جب بھی تھر میں بارش نہیں ہوتی تو وہاں جانوروں کے لئے چارہ تو کیا ان کے لئے روٹی بھی نہیں ہوتی تو یہ لوگ بیراجی علاقے کا رخ کرتے۔ مرد مزدوری کرتے اورعورتیں گھروں میں کام کرتیں یا گاؤں کی عورتیں ان سے کشیوہ کاری کرواتیں اس طرح سے ان کا گزر بسر ہونے لگتا تھا۔ جس میں باہر پہنچی تو زیادہ تر وہی لوگ تھے۔ میں بیچ میں ہی گھس کر راستہ بناتی ہوئی وہیں پہنچی جہاں شاید یہ گائے تھی یا بیل تھا۔ کوئی سفید جانور تھا جس کو لٹا کے پیروں کو رسیوں سے باندھ دیا گیا تھا۔

بہت ہی خوش اور پر جوش ماحول تھا میں بھی انتظار کرنے لگی پر کسی نے میرے بغیر چپل والے پیر پر پیر رکھ دیا تھا۔ سب لوگوں کی توجہ جانور پر تھی کسی کو یہ ہوش نہیں تھا کہ ایک چھوٹی سی بچی بھی موجود ہے۔ میں زور زور سے رونے لگی تھی۔ میرے پیر پر تھر سے آئے ہوئے کسی شخص نے بے دھیانی میں پیر رکھ دیا تھا۔ پھر کیا تھا میں تو روتی ہوئی گھر آن پہنچی تھی۔ اماں تو بہت ہی مصروف تھی آپا نے میری مرہم پٹی کردی ساتھ ہی بہت ڈانٹا کہ باہر گئی ہی کیوں تھی۔ اس دن مجھے بیل باٹم پہنا یا گیا جو ان دنوں فیشن میں کالا چشمہ لگاکے لنگڑاتی ہوئی چل رہی تھی پر جیسا کہ بیل باٹم پہن کر خود کو آسمانی مخلوق سمجھ رہی تھی۔ یعنی کوئی آسمانی مخلوق مجھ سے جو چھوٹی تھی اس کے گلے میں اماں نے اپنا سونے کا ہار ڈال دیا تھا اور اس نے پائل بھی پہن رکھی تھی اور چھم چھم کرتی پھرتی رہی تھی۔

دو تین دکانوں پہ مشتمل گاؤں کے چھوٹے سے بازار کی طرف ہمارا ٹولا روانہ ہوا جو کچھ ہی دور تھا۔ ایک دکان کو تو کاغذی چمکیلے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ چائے کے چھوٹے سے ہوٹل پہ نور جہاں کے پنجابی گانے چل رہے تھے۔ ہم کو مسجد میں شام کو جو مولوی قرآن شریف پڑھاتے تھے وہ ایک دکان کے احاطے میں عطر کی کچھ شیشیاں رکھ کے بیٹھے تھے۔ ہر ایک بچہ دو آنے میں اپنے کان میں عطر میں بسی روئی کا چھوٹا سا گولا کان میں پھنسوا کے رکھوا رہا تھا۔

عید کے دن گاؤں میں کوئی قریبی قصبے سے برف کی رنگین قلفیاں لے کے آجاتا۔ مجھے نہیں معلوم گھبیت کو اردو میں کیا کہتے ہیں۔ یہ تو بہت ہی ذائقے والی بچوں کی پسندیدہ ہوتی تھی۔ ہر عید پر گھبیت والے کا انتظار کیا جاتا تھا۔ بس گاؤں میں عید پر کچھ نیا بھی یہی کچھ ہی تھا۔ گوشت باہر بانٹے جانے کے بعد گھر آتا تھا اس گوشت سے ایک دیگ پک کر گھر آتی جو ہمارے پڑوس کے علاوہ ہماری عورتوں میں بھی بانٹی جاتی تھی۔

بچپن میں جو عیدیں شہر میں منائیں اس میں مہندی چوڑیاں اور بہت ہی بڑا کام فوٹو گرافر کی شاپ پر فوٹو کھنچوانا ہوتا تھا۔ چاند رات کو تو شہر کے بازار میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ اوپر چاند رات کو ہی بابا حاتم طائی کی قبر کو لات مارکر ہمیں چوڑیاں پہننے کے لئے بھیجتے تھے۔ چوڑیاں پہننے کے لئے سارے پڑوس کی لڑکیاں ساتھ جاتی تھیں۔ عید کے دن بابا ہمیں آئسکریم اور ٹھنڈی بوتلیں منگوا دیتے۔

قربانی والی عید پر بھی ہمارے ہاں شہر میں مرغی ہی پکتی کہ گوشت آتے آتے بھی شام تلک ہی پہنچتا تھا۔ سارا دن ہی پی ٹی وی کی خصوصی ٹرانسمیشن چلتی۔ بہت ہی اچھے پروگرام دکھائے جاتے تھے۔ یوں تو اکثر ٹیوی پر کم پیسوں میں خریدی ہوئی فلاپ فلمیں دکھائی جاتی تھیں پر عید کے موقع پر شاہ خرچی کا مظاہرہ کرکے کامیاب فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔
اب تو وہ مزے ہی خواب ہوگئے ہیں۔ سمجھ آتے ہی سکون اور خوشی ہوا ہوجاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).