بیٹے پر قابض ساس اور بے بس بہو


وہ میرے ساتھ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم میں کولیگ تھی۔ تین سال بعد حادثاتی طور پر ہماری ملاقات ہوئی۔ اس دوران اس کی شادی ہوچکی تھی۔ اب اس کے لہجے میں کڑواہٹ اور باتیں سٹریٹ فارورڈ تھیں۔ اس سے قبل اس کا لہجہ کسی شاعرہ کی لہجے سے کم نہیں تھا۔ رسمی سلام دعا کے بعد اس نے روایتی بہو کی طرح ساس کی برائیاں شروع کر دیں۔ حالانکہ میں نے اس کا حال احوال پوچھا تھا۔ خیر میں نے بھی روایتی سوگ والی شکل بنائی تاکہ بحث لمبی ہو جائے۔

میرا شوہر بینکر ہے۔ چار بہنوں کا اکھلوتا بھائی ہونے کی وجہ سے سب گھر والے انہیں اپنا آخری سہارا سمجھتے ہیں۔ ہماری شادی کے دو سال ہوچکے ہیں۔ اب ہمارا ایک بچہ بھی ہے۔ لیکن اب بھی میرے ساس کو مجھ سے مسئلہ ہے۔ جب سے جوائنٹ فیملی سسٹم وجود میں آیا ہے تب سے ماہرین ساس بہو کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں ہیں لیکن تاحال ناکام ہیں۔ میں نے درمیان میں مداخلت کرتے ہوئے یہ سمجھانے کی ناکام کوشش کی کہ یہ مسئلہ ہر بہو اور ساس کا ہے صرف آپ لوگوں کا نہیں۔ وہ خاموش ہوگئی اور گہرا سانس لینے کے بعد گویا ہوئی۔ ہماری شادی کا دسواں دن تھا جب میں نے سہیلیوں کو ساس کے سامنے اپنے شوہر کی تعریف کی۔ جب میری سہیلیاں چلی گئیں تو ساس مجھ سے لڑ پڑی کہ سب کے سامنے پتی کی محبت بیان کرنا شرم کی بات ہوتی ہے۔

میں ایک انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم کی سابقہ کارکن تھی۔ اس لئے مجھے نہ صرف آئین و قانون کی رو سے عورت کی حقوق کا علم تھا بلکہ ان حقوق کا بھی باریک بینی سے مطالعہ کیا تھا جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے ظہور اسلام کے بعد عورت کو دیے تھیں۔ اس لئے میں ساس کا یہی بچگانہ رویہ بہت مشکل سے برداشت کر رہی ہوں۔ گفتگو کی ابتداء سے میں محسوس کر رہا تھا کہ میری کولیگ سمیرہ (فرضی نام) کوئی بات شئیر کرتے ہوئے اس وقت بات کا رخ موڑ دیتی ہے جب ہماری نگاہیں ملتی ہیں۔ شاید ہمارے بیچ سابقہ احترام کا تعلق اور مخالف جنس سے تعلق رکھنا آڑے آجاتا۔

ایک ہی بات بار بار کہنے سے میں جان گیا کہ ظالم ساس نے ہماری سمیرہ کو ابنارمل کردیا ہے۔ اصل مسلے تک پہنچنے کے لئے میں نے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں ایک نیم برہنہ من گھڑت کہانی داغ دی۔ اس کی ذہنی کیفیت ایسی تھی کہ اس سے کوئی بھی بات نکلوانا مشکل نہیں تھا۔ اور ویسے بھی مردوں کے کسی جانبدار گروہ کے سروے رپورٹ کے مطابق خواتین 47 گھنٹوں سے زیادہ راز نہیں رکھ سکتیں۔ یہ تو پھر بھی ساس کی برائیاں کرنے کا معاملہ تھا۔ اس معاملے میں تو بہو اور ساس دونوں کو صرف ایک اشارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب وہ گویا ہوئی تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

اس نے شرمیلے اور آنسو بھرے لہجے میں کہا کہ میں پھنس گئی ہوں۔ میرا شوہر عمر میں مجھ سے دو سال بڑا ہے لیکن ذہنی لحاظ سے مجھ سے سات سال چھوٹا ہے۔ شاید اس کے والدین نے بچپن سے لے کر جوانی تک اسے نماز پڑھنے کے لئے بھی گھر سے باہر نہیں بھیجا۔ دوستی، سیروتفریح، فلم، ڈرامہ، ایڈوینچراور رشتہ داریاں نبھانے سے اسے اتنا لاعلم رکھا گیا ہے جتنا اس ملک میں خارجہ پالیسی بناتے وقت محکمہ زراعت والے وزیر خارجہ کو لاعلم رکھتے ہیں۔ وہ اپنی ماں کی ہر بات ایسے مانتا ہے جیسے دوسری جماعت کا طالب علم اپنے استاد کی ہر بات کا ہاں میں جواب دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ کپڑے خریدنے سے لے کر صابن کے استعمال تک کے لئے اپنی ماں کی اجازت کا محتاج ہے۔

تو آپ کیا چاہتی ہیں؟ مجھ سے صبر نہ ہوسکا اور درمیان میں سوال داغ دیا۔ اس نے کہا اگر بات یہی تک محدود ہوتی تو بھی میں برداشت کرلیتی لیکن میری ساس کسی بھی دوسری عورت کوکسی بھی روپ میں اپنے بیٹے کے ساتھ برداشت نہیں کرسکتی۔ اب آپ اس کو ایک ماں کی اپنے بیٹے سے بے انتہاء محبت کا نام دے یا خودغرضی کہیے۔ سچ یہی ہے کہ میرا شوہر جب بھی مجھ سے مسکراتے ہوئے بات کرتا ہے تو میری ساس کا چہرہ زرد پڑ جاتا ہے اور زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔ شادی کی پانچویں رات کھانے کی میز پر ساس نے احکامات جاری کیے کہ رات کو سوتے وقت کمرے کا دروازہ بند نہیں کریں گے۔ میں جواب دینے ہی والی تھی کہ میرے روبوٹ شوہرنے ٹھیک ہے موم کہہ کر میری بات کو حلق سے باہر ہی نہیں آنے دیا۔ اب کیا تھا ہر ایک دو گھنٹے بعد کسی بہانے سے میری ساس ہمارے کمرے کے سامنے ایسے گزر جاتی۔ جیسے ہمیں پیغام دے رہی ہو کہ ایک دوسرے کے قریب نہیں ہونا۔

اس کے بعد آج تک ہم نے کمرے کا دروازہ بند نہیں کیا۔ ایک دو بار تو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ چھپ کر ہمیں دیکھ رہی تھی۔ اس کے علاوہ جب بھی ہم کمرے میں اکیلے بیٹھ کر کوئی پرسنل بات کرتے ہیں تو یہ اچانک نمودار ہوکر ہمارے ساتھ بیٹھ جاتی ہے۔ اور تب تک بیٹھی رہتی ہے جب تک میں کمرے سے نہیں نکلتی۔ مختصر یہ کہ آج تک میرے ہر حسین لمحے میں اس نے کباب میں ہڈی کا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اب بھی وہ اپنا بیٹا مجھ سے شئیر کرنے کی موڈ میں بلکل نہیں ہے۔ اس لئے میرا ذہنی توازن اب بگڑ رہا ہے۔ آپ کو کیسے پتہ کہ آپ کا ذہنی توازن بگڑ رہا ہے؟ میں نے پھر درمیان میں بات کاٹ دی۔ ایسا لوگ کہتے ہیں۔ اس نے جواب دیا۔

اگر سمیرہ کوئی عام ناخواندہ یا کم پڑھی لکھی لڑکی ہوتی تو شاید ان کی باتوں پر میں کبھی یقین نہیں کرتا لیکن وہ ایک ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ اور دو مضامین میں ماسٹر کرنے والی لڑکی ہے۔ اس نے اپنے شوہر کا جو نقشہ بیان کیا ہے اس کی رو سے سمیرہ کی بات سو فیصد سچ لگتی ہے۔ ساس بہو کی لڑائی میں قصور وار ہمیشہ بہو کو گردانا جاتا ہے۔ لیکن بعض اور اوقات حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ دین اسلام اور آئین و قانون نے ماں کو اپنے حقوق دیے ہیں اور بیوی کو اپنے۔ اس لئے ماؤں کو چاہیے کہ بہو کو برداشت کریں۔ بہو بھی مستقبل کی ماں ہی ہوتی ہے۔ بے شک ماں کا رشتہ مقدس اور محبت بے لوث ہے۔ لیکن بہو کے معاملے میں بعض ماؤں کا رویہ ن لیگ اور پی ٹی آئی والا ہوتا ہے۔ جس دن ساس نے بہو کو بہو کی نظر سے نہیں بلکہ اپنی بیٹی کی نظر سے دیکھا اسی دن یہ کولڈ وار خود بخود ختم ہو جائے گی۔ لیکن پھر پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کا کیا ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).