پاکستان اور ناراضگیاں


جنوبی ایشیا میں واقع ایک ملک پاکستان 14 اگست 1947 کو آزاد ہوا۔ بیشمار خوبصورت اور دلکش مناظر رکھنے والا ملک پاکستان جو علامہ اقبال کا خواب تھا۔ بیشمار قربانیوں کے بعد بننے والا ملک پاکستان جو قائد اعظم کی انتھک محنت کا نتیجہ تھا۔ ایک ایسا ملک پاکستان جو تمام پاکستانیوں کا فخر ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے یوں لگتا ہے جیسے اس ملک پاکستان کو کسی کی نظر لگ گئی ہو۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی نے کالا جادو کر دیا ہو۔ اس لئے تو اس ملک پاکستان کے مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔

یوں لگتا ہے جیسے اس ملک پاکستان میں ہر کوئی ناراض ہے۔ یوں لگتا ہے کہ 1947 میں اسلام کے نام پر اکٹھے ہونے والے پاکستانیوں کے تعلقات میں کہیں نہ کہیں خلوص کی کمی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس ملک پاکستان میں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ہر کوئی اپنی ہی سوچ رکھتا ہے۔ اس ملک پاکستان میں ناراضگی کی حد یہ ہے کہ کوئی کسی سے خوش دکھائی نہیں دیتا۔ اگر حکومت کی بات کی جائے تو حکومت ناراض ہے اپوزیشن سے۔

ناراضگی کی وجہ یہ کہ اپوزیشن میں شامل اکثر سیاسی رہنماؤں نے اپنی پچھلی حکومتوں میں کرپشن کے انبار لگا دیے۔ اور عوام کا پیسہ لوٹ کر بیرون ملک میں جائیدادیں بنا لیں۔ اور دوسری طرف اپوزیشن ناراض دکھائی دیتی ہے حکومت سے۔ ناراضگی کی وجہ یہ کہ حکومت جعلی مینڈیٹ کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے۔ حکومت جعلی ووٹ لے کے حکومت میں آئی ہے۔ ووٹ کو عزت دو، جعلی مینڈیٹ نامنظور، جعلی وزیراعظم نامنظور اور نجانے کیا کیا۔ لیکن حقیقت میں اپوزیشن کا اختیار ہے تنقید برائے تعمیر ناکہ تنقید برائے تنقید۔ اور اپوزیشن کا یہ حق بھی ہے اور حکومت پر بھی فرض ہے کہ اپوزیشن کو ساتھ لے کے چلے اور اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ ملکی مفاد میں حکومت کا ساتھ دے۔

حکومت کے بعد باری آتی ہے حکومت کو ووٹ دینے والے عوام کی۔ عوام ناراض ہے ملکی حالات سے کہ آخر کب ختم ہوں گے پاکستان کے مسائل؟ عوام ناراض ہیں مہنگائی سے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اور کہیں نہ کہیں مہنگائی ناراض دکھائی دیتی ہے عوام سے۔ اس لئے تو بڑھتی ہی جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے عوام اور مہنگائی کسی صورت مذاکرات کرنے کرنے پر تیار نہیں۔

ملک پاکستان کے صوبوں میں کسی حد تک ناراضگی پائی جاتی ہے کہا جاتا ہے کہ ملکی پیداوار کا زیادہ تر حصہ پنجاب کو دے دیا جاتا ہے۔ بلوچستان والے ناراض ہیں کہ اس صوبہ میں ترقیاتی منصوبہ بندی کی جائے نئی اصلاحات لائی جائے۔ پاکستان کی قیادت کرنے والی اور پاکستان کی رہنمائی کرنے والی شخصیات ایک دوسرے سے ناراض ہیں کہیں چیف جسٹس ناراض ہوئے خواجہ سعدرفیق سے۔ خواجہ سعدرفیق ناراض ہیں عمران خان سے۔ اور عمران خان ناراض ہیں بہت سے کرپٹ لوگوں سے۔ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین حکومت سے ناراض ہیں کہ حکومت ان کے لئے کام نہیں کرتی۔ کہیں تنخواہوں میں اضافے کا رونا تو کہیں بہتر پالیسی نہیں۔

پاکستان اپنے اندرونی معاملات کے علاوہ بیرونی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات رکھتا ہے۔ پاکستان کے جہاں چین، ترکی، سعودی عرب، ایران کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں وہاں بھارت کے ساتھ تعلقات میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ وجہ وہی ستر سال پرانی یعنی کشمیر کا مسئلہ۔ اور اس کشمیر کے معاملے پر بھارت اپنی ناراضگی ختم کرنے پر تیار نہیں۔ دوسری طرف امریکہ دہشت گردی کے معاملے پر پاکستان سے ناراض دکھائی دیتا ہے اور پاکستان کو دہشت گردوں کے لئے محفوظ پناہ قرار دیتا ہے۔ اور اسی ناراضگی کے تحت ہی پاکستان کی دفاعی امداد بھی کم کر دی گئی۔ اگر دہشت گردوں کی بات کی جائے تو میرے لیے یہ سوال جواب طلب ہے کہ دہشت گرد آخر ناراض کس سے ہیں؟ اگر مغرب سے ناراض ہیں تو پھر مسلم دنیا نشانے پر کیوں؟ اور اگر اسلامی دنیا سے ناراض ہیں تو مسلمانوں کا روپ کیوں؟ مغرب کا کیوں نہیں؟

پاکستان کو اندرونی اور بیرونی معاملات میں مشکلات کا سامنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر کب پاکستان کے مسائل ختم ہوں گے؟ ختم نہ سہی کم تو ہوں۔ آخر کب تک یہ ناراضگی کا سلسلہ جاری رہے گا؟ آخر کب حکومت اور اپوزیشن ناراضگی ختم کریں گے اور دھرنوں اور احتجاج کی بجائے مل کر پاکستان کے لئے کام کریں گے؟ حکومت ہو یا اپوزیشن اہم مقصد تو قومی اور ملکی مفاد ہی ہے تو پھر یہ ناراضگی یہ ذاتی مفاد کیوں؟ قومی مفاد کیوں نہیں؟ پاکستان ہو یا بھارت اہم موضوع تو کشمیری عوام ہے تو پھر یہ کشیدگی یہ ظلم و ستم کیوں؟ کشمیری عوام کی رائے کیوں نہیں؟ اللّٰہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق یہ دنیا ختم ہو جائے گی تو پھر اس دنیا پر فساد یہ دہشت گردی کیوں؟ امن و امان کیوں نہیں؟ اگر ضرورت ہے تو صرف سنجیدہ سوچ کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).