ذہنی خلفشار، ثواب کی حاجت ، عقیدے کی تبدیلی اور محبت کی ابدیت



گردن پر سر ، سر میں دماغ اور دماغ میں اضطراب ، اضطراب میں بھوک ، بھوک میں طلب ، طلب میں ذائقہ اور ذائقے سے دل میں ہوک کا خلفشار پیدا ہوا۔ اس خلفشارنے زبان کو مزید چٹخاروں کی لالچ اور ہوس میں مبتلا کیا۔ آنکھوں کو بھی یکسانیت سے اکتاہٹ ہوئی ، منظر بدلنے کی خواہش نے اپنی پہچان بنانے کی حرص میں گھیرا تو اختیار ، طاقت ، شہرت، عزت اور دولت میں سے کسی ایک چیز کے حصول پر ساری توجہ مرکوز کر دی ۔ بہادر، طاقت ، زیرک اختیار ، باصلاحیت ، شہرت اور احمق عزت حاصل کرنے کے خلفشار میں مبتلا ہو گئے ۔
جانوراور دور افتادہ بستیوں میں رہنے والے مفلس ہر قسم کے خلفشار سے عاری ہو تے ہیں ، البتہ ان کے پیٹ میں چوہے ضرور خلفشار پیدا کرتے ہیں ۔ جسے روزآنہ دو وقت کی روٹی اور ابلے ہوئے آلو سے ختم کیا جا تا ہے۔رات کو نفسانی خواہش کسمسائے تو کتوں کی طرح نیند میں ڈوبی عورت کو دبوچ لیتے ہیں ۔ کتوں کی طرح ان مفلسوں کا بھی کا کوئی مذہب ہو تا ہے نہ فرقہ۔ نہ ہی کو ئی تبلیغ کر کے اپنا وقت برباد کرتا ہے ۔ یہاں ڈاکٹر بھی نہیں ہوتا کیوں کہ کتوں کی طرح یہ لوٹ پوٹ کے ٹھیک ہو جا تے ہیں یا مر جاتے ہیں ۔ انہیں فلاح کا راستہ معلوم ہے نہ بے حیائی کی جانب ان کے قدم بڑھتے ہیں ۔ ہاں ان کے قدموں تک بے حیائی ضرور آتی ہے ۔ لیکن مبلغین میں بے حیائی کو فلاح کا راستہ دکھانے کی ہمت نہیں اس لیے ۔ وہ یہاں کا رخ نہیں کرتے ۔
ماں بولی کی طرح ماں دین بھی ہوتا ہے ، بچہ فرش پر گرا تو کسی ماں نے بسم اللہ ، کسی نے یا علی مدد، کسی نے ائے بھگوان ، تو کسی نے رب دی خیر کہا۔ ہر ماں کو اپنے بچے کی ذہنی و جسمانی بالیدگی کے لیے اس کی تعلیم و تربیت کے ساتھ اس کی حفاظت کی فکر میں بھی رہتی ہے ۔ اور بچہ بھی ماں کے حصار میں محفوظ اور مسرور رہتا ہے ۔ عمر کے ماہ سال گزرنے کے ساتھ وہ ماں کے حصار سے بھی آزاد ہو تا جا تاہے ۔مائیں وہمی اور اپنے تئیں خود کو اپنے گھرانے کے رسم و رواج اور مردوں کے دین کا محافظ سمجھتی ہیں ۔ بچہ زرا سمجھدار ہوا تو اسے کافروں کے ہاتھ سے کچھ بھی لے کر کھانے پینے سے منع کر دیتی ہیں ۔
لیکن بے دین آنول نال کی محبت میں لپٹے بچوں کو جب اس سے جدا کیا جا تا ہے تب ہی سے محبت اور بے دینیت ان کی روح میں حلول کر جاتی ہے ۔ بے دینیت کو مختلف انداز سے جھاڑنے کے سو جتن کیے جاتے ہیں ۔ اور بچہ ماں کے دین اور باپ کے خیال کی طرف راغب ہونے لگتا ہے لیکن فطری محبت کے ہاتھوں گلی میں کھیلتے یا کلاس روم میں کھانا پانی ایک دوسرے کی بوتل یا چیز ہاتھ سے لیتے ہوئے کبھی یہ خیال نہ کیا کہ سامنے والے بچے کا کیا مذہب ہے ۔ دوستوں سے لڑائی ہوئی پل بھر کی ناراضی دکھائی اور پھر وہی شیرو شکر ۔
اسکول ، کالج میں مذہبی تعلیم کے استاد کو اپنے مکتبہ فکر کی ترویج کا جو موقع مئیسر آیا تو اس نے بساط بھر مذہب کی اپنے مطابق تشریح شروع کی اور یہیں سے ذہنی خلفشار نے ظاہری شکل اختیار شروع کردی ۔ دوستوں میں بحث کا آغاز شروع ہوا ، جب کچے دلائل سے ایک دوسرے کو قائل نہ کر سکے تو اپنے اپنے مکتبہء فکر کے مولاناؤں سے بھڑا دیا ۔ گھاک مولوی نے اپنی دھاک بٹھانے کو بہترین موقع جان کر اس کے دماغ میں ایسی ایسی باتیں ڈالیں ، کہ نوجون گڑبڑا گیا ، موقع غنیمت جان کر اسے اپنے موقف کی تائد میں کتابیں تھما دی گئیں ۔ اور یوں نوجوان اپنے ماں کے دین کے پھیر سے آزاد ہوا ۔
لڑکی ماں کی ہم خیال اور باپ کی تابع ہو تی ہے ۔ بولی ماں کی بولتی ہے ، اورسوچ، باپ کی سوچتی ہے۔ مستقبل میں اسے ماں بننا اورمرد کی غلامی کرنا ہو تی ہے اس لیے وہ صرف آئنے میں دیکھ کر خود کو سنوارنے کے خلفشار میں مبتلا رہتی ہے ۔
ایشیائی ممالک میں عام طور پر اور برّ صغیر میں خاص طور پر لوگوں میں اپنے بزرگوں کے عقائد سے متعلق سوچ بچار،بحث و تکرار ، لڑائی جھگڑے کی روایت عام ہے ۔ لوگ اپنے مذہب ، فرقے نظریات اور عقیدے پر کم دوسروں کے عقائد پر زیادہ غورو فکر کرتے نظر آتے ہیں اور جو بہت تیر مارا تو اپنے بزرگوں کے عقائد سے کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کر دیتے ہیں
کچھ شخصیات کے بلند کردار ان سے والہانہ محبت عام طور پر انسان کو نا صرف اس کے قریب لا تی ہے بلکہ اس کے خیالات ، نظریات بھی انسان کو متاثر کرتے ہیں ، اور انسان اس شخصیت کے سحر میں ایسا گرفتار ہو تا ہے کہ اس کے نظریات ، خیالات اور بعض اوقات اس کا خدا بھی اپنا لیتا ہے ۔ وہ اپنے خاندان کے مذہب کو چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو قبول کر لیتاہے ۔ کبھی کبھی دوستوں کی صحبت بھی ان کے عقیدے اپنا لینے کی جانب مائل کرتی ہے ۔ کراچی میں ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے سروں پر ہری پگڑی کا اضافہ ہو نے لگا ہے ۔ بہت سے سنی ، وہابی ہو گئے، اور کئی وہابیوں نے شیعت اختیار کی ۔ جب انسان اپنے عقیدے فرقے یا کسی دوسرے مذہب کو قبول کرتا ہے تو وہ ابتدا میں بڑا جذباتی ہو تا ہے وہ اس کے بارے میں پوری آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اس عقیدے کے علماء میں اٹھتا بیٹھتا ہے ، علماء کرام اس نو ” مسلم ” پر خاص شفقت فرماتے ہیں اور آئے گئے سے اس کی بلند سوچ اور گہری فکر کو سراہتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں اس نئے آنے والے کو اپنے فیصلے پر بڑا فخر ہو تا ہے ۔ اب وہ یہ ہی باتیں اپنے خاندان میں کرتا ہے ۔ اگر وہ اپنے خاندان میں با اخلاق ، با کردار اور خوش حال ہے تو سب اس کی باتیں غور سے سنتے ہیں ، اور کچھ اس کے ساتھ بھی ہو لیتے ہیں لیکن اگر وہ خوش حال نہ ہو تو اسے ڈانٹ پلا دی جا تی ہے ۔ یعنی مذہب یافرقے کی تبدیلی میں حقیقت کی قبولیت آپ کے اعلیٰ کردار سے کم اور حیثیت اور مرتبے سے زیادہ جڑی ہے ۔
وہ کون سے عوامل ہو تے ہیں جب ایک انسان اپنے ماں باپ کا عقیدہ اور مذہب چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب اس کے افکار اور عقائد کو ناصرف قبول کر لیتا ہے بلکہ اس کا بر ملا اعلان کر نا بھی ضروری سمجھتا ہے ۔ ہو سکتا ہے وہ ضروری نہ سمجھتا ہو لیکن اس مذہب کے پیروکار اسے اس پر آمادہ کرتے ہوں تاکہ اپنے مذہب میں اس کی کی شمولیت پر بینڈ باجے بجا سکیں ۔ ہم سنتے آئے ہیں کہ تمام مذاہب اور اس کے پیشواؤں کی تعلیم اور اخلاقی درس ایک سا ہے ، البتہ عبادات کا طریقہ مختلف ہے ۔ ان عبادات کی روح بھی انسان کے روحانی سکون میں
پو شیدہ ہے ۔ کچھ لوگوں کو یہ سکون سمندر کی خاموش لہروں ، بچوں کی ہنسی ، آسمان پر اڑتے پرندوں ، باغ میں پرندوں کی چہکار ، سبزے پر ننگے پیر ٹہلتے ، کسی مستحق کی مدد کر کے، کسی کی غلطی در گزر کر کے ،اپنی غلطی تسلیم کر کے اور سب سے بڑھ کر معافی مانگنے اور معاف کر دینے سے بھی حاصل ہو جاتاہے۔
مذہب چھوڑ کر جانے والوں کو ایمان سے محروم ، اور مذہب قبول کرنے والوں کو ہدایت کی روشی پالینے والوں میں شمار کیا جا تا ہے ۔
یہ ہی نہیں عقیدے اور دینی نظریات پر سختی سے کاربند رہنے والے اور ان کے مقلد اس کے رومانس میں اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتے ۔
میرے نزدیک جان کی اہمیت ، جان کاری سے زیادہ افضل ہے ۔ ایسی جان کاری کس کام کی جوآپ کو منوں مٹی سے ڈھانپ دے ۔ ہاں مگر دوسروں کی جان کو اپنی جان پر فوقیت دینے کی بات ہو تو موت کو نازاں ہونے دیجیے ۔
قرآن کریم میں کائنات کے اسرار جاننے اور نیکی و بدی میں تمیز کے لیے غور و فکر کی تاکید گئی ہے ۔ لیکن ہم نے دین کو امکانی خطرے سے نکالنے کے لیے اب تک اس میں جو جو تبدیلیاں کیں اس سے دین کو کتنا استحکام ملا اس بحث سے قطع نظر ہم فرقوں میں بٹنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو تے چلے گئے ۔ فرقے ، مذہب یایا عقیدے کی تبدیلی نے پیروکاروں کی کتابوں ، عبادا ت کے طریقہء کار اور عبادت گاہوں کی طرف جاتے رستے تو تبدیل کیے ، لیکن ان کے مزاج، عادات ، شخصیت اور اخلاق میں نمایاں خوبی دیکھنے میں آئی نہ ان کی زات سے معاشرے میں بھلائی کی کو ئی صورت نظر آئی ۔ اپنے رب کے حضور کوئی عادتاً ماتھا ٹیکے ، کوئی ضرورت اسے رب کے آگے گڑ گڑانے پر مجبور کرے یا اضطرابی کیفیت میں یہ عمل اسے سکو ن عطاکرتا ہو ۔ یہ فرد کا بالکل زاتی معاملہ ہے ۔ لیکن یہاں بھی ذہنی خلفشار میں مبتلاافراد ،نمازی کے لباس ، اور اس کے رکوع و سجود کے طریقوں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں ، ان کی بے چین روح کو طمانیت اس وقت ہی محسوس ہو تی ہے جب تک کہ وہ اسے اپنے تئیں راہ راست پر لا کر ثواب نہ کما لیں ۔ ثواب کیا ہے اور اس کے ثمرات کیسے حاصل ہو تے ہیں ۔ ثواب کسی من پسند کام کی تکمیل یامستحق کی مدد کے بعد طمانیت کا وہ احساس ہے جو انسان کی رگ و پئے میں داخل ہو کر اس کی صلاحیتوں کو بہتر کرتا ہے ، اور اس بہتری کے نتیجے میں وہ خلقِ خدا کے مزید کام آتا ہے اور یوں فطرت کی جانب سے اس پر انعام و اکرام کی بارش ہو تی رہتی ہے اور وہ دنیا کو اس میں شریک کرتا رہتا ہے ۔ یوں ثواب( نیک عمل کی توفیق ) کے حقیقی ثمرات اس کے طفیل لوگوں تک پہنچتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سب سے زیادہ مذہبی موضوعات پر کتابیں نہ صرف چھپتی ہیں بلکہ پڑھی بھی جاتی ہیں ۔ اس لیے دینی علوم کے فقدان کا طعنہ بھی عبث ہے ۔ دینی کتابوں میں بالخصوص خواتین کے پردے اور ان کی شرم و حیا کے قائم رکھنے کے کی بابت شرعاً کافی بے باک تحاریر موجود ہیں ۔ لیکن کیوں کہ شرع میں شرم نہیں اس لیے یہ کتابیں بڑی دلچسپی سے پڑھی جا تی ہیں ۔ اور خواتین کو ان کتابوں کو پڑھنے کی تاکید کے بجائے صرف لیکچر دینے کی حد تک ہی فرض پورا کیا جاتا ہے ۔ اگر یہ تمام کتابیں لکھنے یا پڑھنے کے بجائے ہم نے قرآن کریم کی ایک ہدایت غور و فکر پر توجہ کی ہو تی تو چھوٹے بچوں اور بچیوں کو جنسی زیادتی کے بعد کاٹ مار کر کوڑے میں نہ ڈالا جاتا ۔
کہنے والے بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ فائدہ تو افسانے ، کہانیاں ، مضامین ، شاعری ، تحقیق ، تخلیق اور ایجاد کا بھی نہیں ۔ لیکن مطالعہ ،تحقیق ، غور و فکر ، ایجاد اور تخلیقی عمل ایک خوشگوار احساس ہے۔ انسان کے دل میں درد پیدا کر کے سوچ کے در وا کرتا ہے ۔جب کہ دین داری، فرقے بازی ، عقائد کی چھان پھٹک دل ہی نہیں سر بھی تن سے جدا کرتی ہے ۔ مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی مذہب اور فرقوں سے بیزار کچھ لوگ بہت تیر مارتے ہیں تو ببانگِ دہل جنت دوزخ اور خدا سے انکاری ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں ۔ اور ہر دین دار شخص کے خلاف مغلظات بکنا شرع کر دیتے ہیں اس سے بھی انتشار پھیلتا ہے ۔ خدا ہے یا نہیں مگر خدا کے بے بس و بد حال بندے ، ہمیں جا بجا نظر آتے ہیں ، محبتیں بانٹیے۔ نبوّت کے خاتمے کے ساتھ محبت کی ابدیت پر بھی کامل ایمان رکھیے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).