مسٹر پرائم منسٹر۔ ماسی غفوراں کو زہر بھجوا دیں


حکمران جمہوری رہے ہوں یا ڈکٹیٹر، عوام نامی مخلوق کسی حُکمران کی کبھی ترجیح نہیں رہی۔ اور پاکستان تو رہا ہی ٹریننگ گراؤنڈ ہے۔ چاہیں تو کرکٹ کی پِچ بنا لیں، چاہیں تو ہاکی کے لئے آسٹرو ٹرف بچھا دیں اور چاہیں تو پول لگا کر فُٹبال کھیلیں۔ شِکار بھی یہاں کبھی ممنوع نہیں رہا، یہ آپ کے ذوقِ طبع پہ منحصر ہے، پرندے اور اِنسان یہاں پہ وافر دستیاب ہیں۔

سِول سروس ریفارمز کے دلکش نعرے ابتدا ہی سے سُنتے آئے ہیں پر بِلّی ہے کہ تھیلے سے باہر آ ہی نہیں رہی۔ لگے ہاتھوں جناب عشرت حُسین کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہے کہ وہ بندوق سنبھالیں اور اور نشانہ بازی کی ایک اور مشق کر دیکھیں۔
مگر شہنشاہِ معظم! آپ کا اقبال بُلند ہو، اگر اس ساری مارا ماری کا اصل نصب العین عوام کو فوری انصاف کی فراہمی ہے تو پھر ہماری عرض بھی سُن لیں کہ ہم ہی تو ہیں جو آپ کے وژن کو نافذ کرنے کی بنیادی اکائی ہیں۔ یعنی ہم۔ بیچارے گونگے بہرے سِول سرونٹ۔
جناب اظہار الحق کا کالم نظر سے گُزرا۔ صاحبِ تحریر نے بیوروکریسی پر تنقید کرتے ہوئے گدھے گھوڑے ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیے۔

جناب عالی! بلدیاتی نظام میں ناظم کی حیثیت کلیدی سہی پر عوام کو انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری ایک سیاسی آدمی کو دے کر اُسے سیاسی مخالفین کو جوتے مارنے پر کیسے مامور کیا جا سکتا ہے؟ ہاں شہر میں تعمیر و ترقی ایک مختلف سبجیکٹ ہے اگرچہ اُسکے نتائج بھی قابلِ مباحثہ ہیں۔

پھر موصوف سِول سروس کے ڈی ایم جی گروپ کو بھی سمندر بُرد کرنے کے چکّر میں ہیں۔ آپ بھلے اِس گروپ کو دیس نکالا دے دیں کہ مطلق پاور کی چاہ میں اس گروپ نے بھی وہ انت مچائی ہے کہ بس سُنتا جا شرماتا جا، پر سِول سروس کا مطلب بھلا ڈی، ایم، جی کب ہے؟

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پروونشل مینیجمنٹ سروس کے نام سے بھی ایک سروس موجود ہے جو اصل سول سروس ہے۔ جو ہر حکومت کے وژن کو حقیقی معنوں میں نافذ کرتی اور کِسی بھی غلط حکومتی پالیسی کے ردِّعمل میں بے قصور گالیاں کھاتی ہے۔

صاحبِ مضمون ایگزیکٹو میجیسٹریسی کے خلاف ہیں جبکہ ہماری دیانتدارانہ رائے ہے کہ کہ فوری اِنصاف کی فراہمی کے لئے ایگزیکٹو میجسٹریٹ سے بہتر کوئی نظام نہیں۔ ذیل میں سول سروس کو بہتر کرنے کی چند تجاویز پیشِ خدمت ہیں، قابلِ احترام عشرت حُسین جیسے بڑے صاحبوں کو فُرصت مِلے تو پڑھ لیں کہ ان کے بغیر سول سروس کو بہتر کرنا شاید ایک خواب رہے۔

* تمام خُفیہ ایجینسیز کو پھر سے فعال کیا جائے کہ ان میں زیادہ تر اہلکار نکمے اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہیں، آفیسرز کے بارے میں رپورٹ خود اُنہی سے لیتے پھر رہے ہوتے ہیں یا پھر ایک ایجنسی دوسری ایجنسی سے رپورٹ لے کر تھوڑے سے رد وبدل سے رپورٹ تیار کر کے آگے بھیج دیتی ہے۔

* ایگزیکٹو میجیسٹریٹی کو بحال کر کے میرٹ پر افسروں کی تعیناتی عمل میں لائی جائے۔
* ٹرانسفر پوسٹنگزکو سیاسی مداخلت سے مکمل طور پر پاک کیا جائے۔

* نئے قوانین بنائے جائیں اور میجسٹریٹ یا اسسٹنٹ کمشنر کو سپروائزری اختیارات دے کر ٹارگٹس دیے جائیں۔
* مونسپل پولیس قائم کر کے اس کا ہیڈ میجسٹریٹ یا اسسٹنٹ کمشنر کو بنایا جائے جو تجاوزات کو ختم کرے اور میونسپیلٹی کے تمام کام سرانجام دے۔

* بلڈنگ لاز کو بہتر کیا جائے اوران پر سختی سے عمل کروایا جائے۔
* اینٹی اینکروچمنٹ لاء بنایا جائے اور ہر قسم کے تجاوز کو قابل ِگرفت کیا جائے۔

* آرمی کی طرز پر تمام آفیسرز کی خُفیہ ایویلیوایشن کا طریقہ کارطے کیا جائےاور اسی جانچ پر آفیسرز کے لئے سزا اور جزا کا نظام قائم کیا جائے۔
* ٹینیور پروٹیکشن کو یقینی بنایا جائے۔

* سِول آفیسرز کی تنخواہ بڑھائی جائے تاکہ کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکے۔
* آفیسرز فیڈبیک ماڈل متعارف کروایا جائے کہ جس میں بڑے بابوں کے خیالات سُننے کے ساتھ ساتھ فیلڈ میں کام کرنے والوں کی رائے لی جائے۔

* ہر مہینے یا ہر تین ماہ بعد تمام تحصیل لیول کے آفیسرز کی ایک کانفرنس منعقد کی جائے جس کی صدارت وزیرِاعلیٰ خود کریں تاکہ پراگریس رپورٹ لی جا سکے۔

* ہایئکورٹس کے معزز چیف جسٹس صاحبان سے بات کر کے انتظامی معاملات میں لوئر جوڈیشری کی مداخلت بند کروائی جائے۔ اِدھر آفیسرز نے ناجائز تجاوز کنندگان کو نوٹس دیا اگلے ہی لمحے صاحب معزز عدالت سے سٹے آرڈر لے آئے۔ یقین مانئے سٹے آرڈر کی اِس روش نے انتظامیہ کو مفلوج اور مظلوم کو ذلیل کر کے رکھ دیا ہے۔

* انتظامی معاملات میں وکلاء حضرات کی بے جا مداخلت، دھونس اور بعض معاملات میں غُنڈہ گردی سے بچنے کے لئے انتظامی دفاتر کو کچہری سے دور مُنتقل کیا جائے۔

* نیب اور اینٹی کرپشن جیسے اداروں کی ری سٹرکچرنگ کی جائے، نیب کے قانون میں بہت سارے قانونی سقم ہیں، اور نیب کے آفیسرز کی تعیناتی کا کوئی مقابلہ جاتی پروسیجر نہیں، بلکہ بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا ہے۔ جبکہ اینٹی کرپشن پنجاب کا سب سے کرپٹ ڈیپارٹمینٹ جانا جاتا ہے جہاں “کلرکوکریسی” یعنی کلرک مافیا کی حکومت ہے اور جہاں پٹواری رگڑا جاتا ہے اور بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالنے کی ابھی کوئی روایت نہیں پڑی۔

* اور اب تمام مسائل کی جڑ وہ نا انصافی ہے جو ڈی ایم جی گروپ نے باقی سروسز خصوصاً صوبائی سول سروس سے ہمیشہ روا رکھی ہے۔ 1993 میں ایک خود ساختہ فارمولا کو جواز بنا کر کہ جس کی کوئی قانونی، آئینی اور اخلاقی حیثیت نہیں، مذکورہ گروپ نے اُس بندر کی طرح ساری روٹی ہڑپ کر رکھی ہے کہ جسے انصاف کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

ظلم کی انتہا یہ کہ ڈی ایم جی نے اپنے لئے جتنا حصہ مُختص کر رکھا ہے، اس پر اس کے افسر کبھی پورے نہیں ہوئے جبکہ دوسری طرف پروونشل مینیجمنٹ سروس کے انتہائی قابل افسران کو پندرہ پندرہ سال تک ترقی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ وہ کونسی نا انصافی ہے جو صوبائی سول سروس کے افسران سے روا نہیں رکھی گئی۔ سو جب تک ڈی ایم جی گروپ کی موناپلی ختم کر کے صوبائی سول سروس سے منصفانہ سلوک نہیں کیا جاتا تب تک سول سروس ریفارمز کے نام پر کیا جانے والا ہر تجربہ خواب ہی رہے گا۔

2011 میں اس خاکسار کی پہلی تعیناتی خوشاب میں بطور اسسٹنٹ کمشنر ہوئی۔ جولائی کی ایک شدید گرم دوپہر کو میری عدالت میں ماسی غفوراں پیش ہوئی۔ کسی وکیل کے بغیر کہ وکیل رکھنے کی ُاس کی استطاعت نہیں تھی۔ پسینے میں شرابورکوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بولی ”پُت میرے پلاٹ تے کسے نے قبضہ کر لیا اے، میرا سارا کُجھ او ہی پلاٹ سی“۔ فائل پہ نظر دوڑانے ہوئے میں نے اپنے ریڈر مُرتضیٰ سے تفصیل پوچھی تو معلوم ہوا کہ ماسی غفوراں بیوہ ہے اور اُسکے اکلوتے پلاٹ پر قبضہ ہو گیا ہے اور قبضہ کرنے والے انتہائی با اثر لوگ ہیں۔ مُرتضیٰ نے بتایا کہ ماسی کئی سالوں سے حصولِ انصاف کے لئے عدالتوں میں دھکے کھا رہی ہے۔

نئی افسری اور انصاف پسندی کا جنون۔ میں نے اگلے دن ہی دوسری پارٹی کو طلب کر کے فیصلہ سُنا دیا۔
مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2