نظام مصطفی سے ریاست مدینہ تک


عمران خان کے خطاب پر پُرمغز بحث جاری ہے۔ ہمارے ہاں کے سیاسی کلچر کے مطابق اس بحث میں طنز، طعنے اور گالی گلوچ سمیت ہر قسم کا منطقی اورجذباتی انداز حاوی ہے۔ جن لوگوں کے نزدیک عمران کی تقریر فنِ تقریر کے بنیادی اصولوں پر بھی پورا نہیں اُترتی اور کہی گئی باتیں عقل سلیم کے تقاضے بھی نبھاتی نظر نہیں آتی۔۔وہ لوگ ایک گروہ کے نمائندہ ہیں۔ دوسری جانب وہ لوگ ہیں جنکے نزدیک فن تقریر یا عقل سلیم ماضی میں بہت دیکھی جا چکی ہیں اس لئے اب بس۔ عمران کے لہجے میں سچائی اور ایثار کی جو جھلک محسوس ہوتی ہے بس وہی کافی ہے۔ اس کے بعد عمران کی تقریر پر تنقید کرنا بدنیتی اور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو عمران کا ووٹر ہے اور پوسٹ ٹروتھ کے متاثرین میں سے بھی۔ اُنکے نزدیک عمران خان کی تقریر پر تنقید ملک دشمنی اور غداری ہے۔ اُنہیں تنقیدی نقطہ نظر کے لوگ بکے ہوئے، مخالفین کے لفافوں پر پلنے والے فتنہ باز نظر آتے ہیں جن کو دشنام کے علاوہ اگر پھانسی کی سزا دی جائے تو ملک میں امن امان قائم رکھا جا سکتا ہے۔

الیکشن سے پہلے کے برسوں میں عمران خان کی مجبوری تھی کہ وہ مسلسل مخصوص اصطلاحات، نظریات اور تاریخی واقعات کی تکرار کرتا جائے۔۔۔ کیونکہ لوگ وہ سب سُننا چاہتے ہیں۔ عمران کے عروج میں مدینہ کی ریاست، کرپشن کی داستانیں، شریف خاندان کو ولن کی حیثیت سے متعارف کروانا اور جھوٹ سچ پر مبنی مغربی ممالک سے جُڑی باتوں کو سیاق سباق سے ہٹ کر پیش کرنا ان سب کا بڑا کلیدی اور فیصلہ کُن کردار تھا۔ الیکشن کے بعد عمران کے نزدیک یہ ضروری تھا کہ اپنے انتخابی خلقے کو دوبارہ سے یاد دہانی کروائی جائے کہ وہ اپنی باتوں پر قائم ہے اور کسی صورت پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں۔ عمران اس سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ قرائن سے اس سوال کا جواب بھی واضح ہے۔ عمران کے پیغام کی بنیاد نظام مصطفی تحریک سے جُڑی کچھ تاریخی حقیقتوں پر مبنی ہے۔ آیئے پہلے ان کا کچھ جائزہ لے لیں۔

بھٹو کی سیاست سیکولر اشتراکی فلسفے سے متاثر تھی۔ اُس نے جو معاشی اصطلاحات نافذ کیں جن میں سب سے اہم ایوب خان کے زمانے میں پروان چڑھنے والی انڈسٹری کو قومیانا تھا۔۔وہ بھی اپنی اصل میں مکمل طور پر اشتراکیت سے متاثر تھیں۔ چار سال سے کچھ زیادہ حکومت کرنے کے بعد جب بھٹو الیکشن میں گیا تو لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے بھٹو کے نظریہ سیاست کو مسترد کر دیا۔ الیکشن میں دھاندلی کو بنیاد بنا کر جو تحریک چلائی گئی وہ تحریک نظام مصطفی کے نعرے پر تھی۔ بھٹو کی یہ ناکامی رہی کہ اسلامی سوشلزم کا نعرہ تو اس نے لگا لیا مگر وہ مذہبی فکر سے متاثر طبقے کو اپنے ساتھ ملانے اور متاثر کرنے میں ناکام رہ گیا۔ جب نظام مصطفی کا نعرہ لگا تو لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ مدینہ کی ریاست کیسی تھی۔ چونکہ اس سے پہلے ایوب کے زمانے میں لوگوں نے بھرپور صنعتی ترقی دیکھ رکھی تھی جسکے نیتجے میں اُن بائیس خاندانوں کو بھی لوگ جانتے تھے جو ملکی دولت پر دسترس رکھتے تھے۔ گویا صنعتی ترقی نے لوگوں کو اُس طرح متاثر نہیں کیا جیسے کہ کرنا چاہیئے تھے۔ اسکی بجائے نظام مصطفی کے ملک گیر مبہم نعرے نے نا صرف صنعتی ترقی بلکہ بھٹو کی سوشلزم کا بھی جنازہ نکال دیا۔ یہی وجہ تھی کہ بھٹو نے مذہبی قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکے اور آئین میں ایسی بنیادی تبدیلیاں کیں جنہوں نے آئین کا حلیہ ہی بدل دیا۔ اسکے باوجود وہ اپنی سیاست اور جان دونوں نا بچا سکا۔

اس حقیقت کو جنرل ضیئاء الحق نے بہت ہی بہتر انداز سے سمجھا اور پھر نظام مصطفی، مدینہ کی ریاست، زکوۃ اور عشر کا نظام سمیت درجنوں اقدامات کرنے کے بعد گیارہ سال تک بغیر کسی اپوزیشن کے حکومت کی۔ دراصل عمران خان کے سامنے وہ سارا تجربہ موجود ہے جو اُسے اپنے آنے والے پانچ یا دس سالوں کا راستہ دکھاتا ہے۔ پہلی بار قادیانیوں کے مسئلے پر فسادات شروع ہوئے جنکا حل مارشل لاء نے نکالا۔ اسکے بعد نظام مصطفی وہ نعرہ بنا جس نے لوگوں کو تحریک کی سطع پر متحرک کیا۔ اُس تحریک میں اتنی زیادہ جان تھی کہ آنے والے گیارہ سال تک جنرل ضیاء الحق نے حکومت کی۔ یہ بات بالکل واضع ہے کہ پاکستان میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جسے نظام مصطفی، مدینہ کی ریاست، زکوۃ کا نظام جیسے نعرے متاثر کرتے ہیں اور اس حد تک متاثر کرتے ہیں کہ وہ لوگ نا تو ایوب خان کی صنتعی ترقی دیکھنے کو تیار ہوتے ہیں اور نا ہی ن لیگ کی شہری ترقی۔

جس طرح ایوب کے زمانے میں ملکی مجموعی قومی پیداوار اور شرح نمو تاریخ کی بلند ترین سطع پر تھی اسی طرح ن لیگ کی گذشتہ حکومت میں 2016 میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار تاریخ کی بلند ترین سطع پر تھی جسکے بعد اسلام آباد کا دھرنا شروع ہوا۔ لوگوں کے لئے یہ بات بالکل بھی اہم نہیں کہ معاشی ترقی کا راستہ کیا ہے۔ جن قوموں نے معاشی اور سماجی طور پر ترقی کی کیسے کی۔ لوگوں کو اس بات سے بھی دلچسپی نہیں کہ بیس سال پہلے اے سی، ڈش انٹینا، مہران گاڑی، اے سی والی کوچ یہ سب لگژری تھیں جو آج ہر گھر کی بنیادی ضرورت اور حقیقت ہے۔ لوگوں کے نزدیک اس سب سے زیادہ اہم بات نظام مصطفی یا مدینہ کی ریاست جیسے نعروں سے جُڑی وہ رومانویت ہے جسکے لئے وہ اس ساری ترقی اور تبدیلی کو ماننے اور جاننے سے انکاری ہیں۔

عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں قوم کی اس اجتماعی نفسیات کو سامنے رکھا اور اپنی سپورٹ بیس کو وہ جوابی توانائی دی جس کی الیکشن کے بعد اُنہیں ضرورت تھی۔ ساتھ ہی ساتھ عمران نے آنے والے دنوں میں کسی ممکنہ ناکامی کا بھی جواز فراہم کر دیا اور یہ جواز باطل قوتیں ہیں۔ اس کی ایک مثال وہ رائے ہے جو عمران کی تقریر پر تنقید کرنے والوں کے متعلق نظر آتی ہے جس کے مطابق عمران کے ناقد درحقیقت باطل ایجنڈے، ہٹ دھرمی، ملک دشمنی پر ڈٹ جانے والا ایک گروہ ہے جو ہدایت سے نا صرف دور ہے بلکہ جس کے لئے ہدایت کی کوئی صورت ہی موجود نہیں۔ اسی لئے عمران کے ناقدین کو اُس گروہ سے تشبیہ دی جاتی ہے جسکے متعلق سورۃ بقرہ کی آیات نمبر 171 میں ارشاد باری تعالی ہے کہ یہ گونگے، بہرے اندھے ہیں اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آتا۔

پاکستان کی سیاست کے دو ہی بنیادی مسائل ہیں جن میں سے ایک کا تعلق سویلین بالادستی اور دوسرے کا تعلق مذہب کے سیاسی کردار سے ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان نے سیاست کو واپس اُسی جگہ لا کھڑا کیا جہاں یہ 1977 میں تھی۔ اس بات کی قوی امید ہے کہ عمران کو اپنی اس حکمت عملی کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق کی طرح کم از کم گیارہ سال تو مل ہی جائیں گے تاہم پاکستان کو اس کے جواب میں کیا ملے گا اس کا جواب وہ لوگ جانتے ہیں جنہوں نے جنرل ضیاء کے گیارہ سال گذارے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).