پہلی تقریر کا خوشنما خواب اور تلخ حقیقت


مدینہ کی ریاست سےسویڈن’ڈنمارک اور ناروے کے حوالہ جات اور نئےدلکش پاکستان کی منظرکشی سے لبریز خطاب سن کر سچ پوچھیئے تو دل سے دعا اور زبان سے تعریفی کلمات کا نکلنا ایک قدرتی عمل ھے۔ لیکن کیا کریں کہ جب زمینی حقائق پر نظر پڑتی ھے تو دل کچھ بجھ سا جاتا ھے۔وزیراعظم عمران خان کے قوم سے خطاب میں وہ سب کچھ تھا جو ایک قوم کا درد رکھنے والے رھنما میں ھونا چاھیئے۔ انھوں نے تعلیم’ صحت روزگار’ ٹیکس کے نظام کفایت شعاری سستے گھر پولیس، لوکل گورنمنٹس سسٹم غرضیکہ تمام عوامی موضاعات پر تفصیلا اظھار خیال کیا اور بتایا کہ کس طرح ان کی حکومت یہ مسائل حل کرکے پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ایک اسلامی فلاحی ریاست بنا دے گی۔ جس کا موازانہ سویڈن اور ڈنمارک سے کیا جا سکے گا۔ اس خواب کی تعبیر کے لئے انھوں نے عوام کو ٹیکس جھاد سمجھ کر دینے کی ترغیب بھی دی۔ کیونکہ عمران خان نے پاکستان کے عوام کو درپیش مسائل کو تفصیلی اور جذبات سے لبریز انداز میں بیان کیا ھے اس لیے ان کے خطاب کو پذیرائی ملنا ایک قدرتی عمل ھے۔

اب آ جائیے چند حقائق کی طرف وزیراعظم نے صحت تعلیم پولیس اور روزگار کے مسائل کا حوالہ دیا اور بتایا کہ کس طرح وہ انھیں درست کرنے کا ارادہ رکھتے ھیں۔ پاکستان کے آئین کے مطابق یہ تمام شعبہ جات صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ھیں۔ پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ – پنجاب – میں گو تحریک انصاف کی حکومت ھے۔ مگر اسمبلی میں اسے محض سادہ اکثریت حاصل ھے۔ دوسرا عمران خان نے صوبہ کی وزارت اعلٰی کے لئے جس شخصیت کا انتخاب کیا ھے وہ اس انقلابی ایجنڈا سے میل نھیں کھاتا جس کا اظھار وزیراعظم نے قوم سے اپنے پھلے خطاب میں کیا ھے۔ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ایک اوسط درجہ سے بھی کم تر صلاحیت رکھنے والا وزیراعلٰی اپنے انقلابی سوچ رکھنے والے مرکزی رھنما کے خواب کو حقیت میں بدلنے کا ارادہ رکھتا ھے۔ اس کے لیے عین ممکن ھے آئین میں چند ترامیم درکار ھوں۔یہاں مسئلہ دو تہائی اکثریت کا آن پڑے گا۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کے پاس مرکز اور پنجاب میں دو تہائی اکثریت نھیں۔ اس مسئلہ سے کس طرح نمٹا جائے گا اس کے متعلق ھمیں تاحال کچھ نھیں بتایا گیا۔

یہ تو رھا پنجاب سندھ میں صورتحال اس سے زیادہ پیچدہ ھے وھاں پر آصف علی زرداری کی پارٹی کی حکومت ھے جن سے عمران خان کی “محبت” کسی سے ڈھکی چھپی نھیں۔ اگر ان زمینی حقائق کا معروضی جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ھے کی اپنے انقلابی ایجنڈا کے حصول کے لئے تحریک انصاف کو ایک دفعہ پھر ایمپائرز کی خدمات حاصل کرنا پڑیں۔ ھمیں عمران خان کی نیک نیتی پر کوئی شک نھیں وہ یے شک پاکستان کو دنیا میں ایک مثالی ریاست بنانا چاھتے ھیں۔ لیکن کیونکہ وہ آئین کے تحت ھوئے ایک الیکشن کے نتیجہ میں وزیراعظم منتخب ھوئے ھیں۔ اس لیے نہ چاھتے ھوئے بھی انھیں اور ان کی حکومت کو اسی آئین کے حدود و قیود میں کام کرنا ھو گا۔ اس تناظر میں جب عمران خان کے قوم سے خطاب کا جائزہ لیں تو وہ ایک خیالی معاشرہ کی منظر کشی کرتا دکھائی دیتے ھے۔ لیکن یہ بات بھی درست ھے کہ ایک عمدہ خیال ایک مثالی حقیقت کو جنم دیتا ھے۔ تاھم خواب کو حقیقت میں بدلنے کے طویل سفر کے لئے محض نیک نیت ھونا ھی کافی نھیں اس کے لئے مناسب انسانی اور مادی وسائل کو دریافت اور اکٹھا کرنا بھی ضروری ھے۔

عمران خان کی تقریر پر ابھی تک جو ردعمل سامنے آیا ھے وہ توصیفی ھے لیکن اگر عمران خان اور قصیدہ گویان تحریک انصاف واقعی خواب سے باھر جھانک کر حقیقت کی دنیا کا سامنا کرنا چاھتے ھیں تو پھر انھیں یہ بتانا پڑے گا وہ پاکستان کو ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے وہ کس طرح ان سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کریں گے جن کو وہ ابھی چند دن پہلے تک ڈاکو اور لٹیرے کہتے رھے ھیں۔ اگر تحریک انصاف پاکستانی معاشرہ کو حقیقت میں ایک مساوی اور مثالی معاشرہ بنانا چاھتی ھے تو پھر ریاست اور معاشرہ کی بنیادوں سے منافقت کو کسی حد تک ختم کرنا ھوگا۔ ڈنمارک اور سویڈن کی’ مثالیں عوام کو دلوں کو تو گرما سکتی ھیں لیکن دراصل پاکستان جیسے ملک جہاں انسانوں کو مذھب اور عقیدہ کی بنیاد پر تقسیم کر دیا گیا ھے وھاں انصاف پر مبنی معاشرہ قائم نھیں ھو سکتا۔ لندن کے میئر کا نام صادق خان ھے اور وہ مسلمان ھیں۔ کیا پاکستان کو ڈنمارک بنانے والی جماعت کے سربراہ نے آئین میں کوئی اہسی ترامیم لانے کا اشارہ کیا ھے جو پاکستان میں رھنے والے محمد صادقوں کو یہ حق دیں کہ وہ پاکستان کا صدر اور وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ سکیں؟ اگر خطاب میں ایسا کوئی اشارہ نھیں ملتا
تو پھر ہقین رکھیں نیا پاکستان پرانے پاکستان سے کوئی زیادہ مختلف نھیں ھوگا۔
پس تحریر:عمران خان بطور وزیراعظم اپنے قوم سے پہلے خطاب اور اس سے’قبل متعدد عوامی خطابات میں مسلمانوں کے ھاتھوں Roman and Persian Empires کی شکست کا حوالہ دیتے ھیں لیکن کیا ھی اچھا ھو اگر وہ ذرا خود تفصیلا” تاریخ کا مطالعہ کرنے کی زخمت کریں اور ان دیگر عوامل کا بھی حوالہ دیں جو ان بادشاھتوں کے زوال کا باعث بنے۔ تاکہ وہ ایک ایسی قوم کی تشکیل کر سکیں جو خواب نھیں حقیقت کی دنیا میں زندہ ھے۔ اس سلسلہ میں اولا” وہ ایڈورڈ گبن کی تحریروں سے مستفید ھو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).