ایک فوجی اکیڈمی میں پڑھانے کا تجربہ


قسمت کا لکھا تھا سو ہمیں نسٹ یونیورسٹی کے کالج آف ایروناٹیکل انجینرنگ میں پڑھانے کے لیے تعینات کر دیا گیا۔ یہ کالج پی اے ایف اکیڈمی میں ہے، سو ہمارے تجربے میں اضافہ ہوا۔ اکیڈمی میں استادی در اصل استادوں کا کام ہے، سو اس بنا پر ہم اپنے آپ کو شاگردوں میں شمار کرتے ہیں اور اپنے کئی شاگردوں کو استادوں میں گنتے ہیں، بلکہ ہمارے ہوتے ہوئے ہی استانیوں کی بھی آمد اکیڈمی میں شروع ہو گئی تھی۔ اکیڈمی عجب جگہ ہے جہاں گھاٹ گھاٹ کے نوزائیدہ آئی ایس ایس بی کی چھلنی سے گذر کر اکٹھے ہوتے ہیں، اور پھر ارتقائی عمل سے گذرتے ہیں۔ اکیڈمی میں پڑھانے کے دوران ہم نے کیڈٹ کو بکری سے شیر بنتے اور بعد میں اُسی شیر کو نوکری میں بکری کی شکل اختیار کرتے دیکھا۔ اب پتہ نہیں ایسی تبدیلیاں ڈارون نے بھی دیکھی تھیں یا اُس نے بندر کو انسان ہی بنتےدیکھا۔ ہم نے ڈارون سے بڑھ کر اکیڈمی میں انسان کو بندر بھی بنتے دیکھا۔ عجب سڑک پر بندروں کی طرح کیڈٹ بیٹھتے اچھلتے جاتے تھے۔ شروع میں اس ارتقائی تنزل کو دیکھ کر پریشان ہوئے مگر بعد میں پتا لگا کہ یہ ٹریننگ کا حصہ ہے کہ اس سے شخصیت سازی ہوتی ہے۔ اکیڈمی میں تعینات کچھ احباب سے واسطہ پڑا تو ہمیں اس شخصیت سازی کا یقین بھی ہو گیا۔

اکیڈمی میں اگر پڑھنا ایک کام ہے تو پڑھانا اس سے بھی بڑھ کر وزن رکھتا ہے۔ آپ کلاس میں داخل ہوں تو یک دم باادب باملاحظہ کی آواز بلند ہوتی ہے۔ پھر شاگرد استاد کو تولتے ہیں کہ اس کے بعد کا معرکہ اس ذہنی ترازو کے نتیجہ پر منحصر ہے۔ اگر آپ وزن میں ہلکے پائے جائیں تو پھر اس ہوائی فوج کی اکیڈمی میں آپ ہوا میں اچھالے جاتے ہیں، گدگدائے جاتے ہیں، زمین پر رکھے جاتے ہیں، دوبارہ اچھالے جانے کے لیے۔ اسی اچھل کود میں وہ وقفہِ تعلیم مکمل ہوجاتا ہے جسے پیریڈ کہتے ہیں اورآپ خاک جھاڑتے اگلے معرکہِ بے وزنی کے لیے کسی دوسری جماعت کی طرف عازمِ سفر ہوتےہیں ۔

اور دوسری طرف اگر آپ اس معرکہِ ذہنی اوزان میں بھاری پائے جائیں، تو کلاس میں ایک سکوت ہوگا۔ ایسا سکوت کہ کچھ دیر بعد کلاس خوابِ خرگوش کے مزے لیتی پائی جائے گی۔ ایک کو اِدھر سوتے سے جگایا ، دوسرے کو اُدھر سوتا پایا۔ غرض اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے۔ کچھ دیر بعد آپ خود کو وہ چوکیدار محسوس کر رہے ہوں گے جو بار بار صدا بلند کرتا ہے، “جاگدے رہنا، جاگدے رہنا”۔ اسی مقابلہِ بیداری و ندیاری میں یکایک پریڈ گراونڈ سے بینڈ کی دھن بجنے لگتی ہے، ” جاگ رہا ہے پاکستان”۔ پاکستان کا پتہ نہیں جاگ رہا ہے کہ نہیں مگر آپ کی کلاس یقیناً نہیں جاگ رہی۔ شاید ان کیڈٹس نے وہ کاروں پر لگے سٹکر دیکھے ہیں، “آرام سے سوئیے، فضائیہ جاگ رہی ہے”، سو آنے والے کل جو انہیں جاگنا ہے سو اُس کی نیند آج ہی پوری کررہے ہیں۔

اگر آپ اکیڈمی میں پڑھاتے ہیں تو بلاتخصیص ایک درجے کے کیڈٹ آپ بھی ہیں۔ ہفتے میں ایک دن پریڈ گراونڈ پر ڈیوٹی دیں، شام کو وقفہ پڑھائی کے آرام میں مخل ہونے کے لیے کیڈٹ میس کا چکر لگائیں۔ رسالپور کو انگلستان جانیے کہ تمام جگہوں پر ٹائی سوٹ پہننے کی پابندی ہوگی۔ مختلف مقابلہ جات بشمول اتھلیٹکس اور گھڑسواری کی دھول اپنے ولیمے کے کوٹ پینٹ میں لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں۔ اکیڈمی کے مہمان سپیکر کو مہمانداری کے زمرے میں سنیے یعنی آمناً صدقاً۔ پاسنگ آوٹ پریڈ پر جو انتظامات آپ کی ذمہ داری ہیں ان کا عشر عشیر بھی آپ نے اپنی ذاتی شادی پر بھی نہ سوچا ہوگا۔ مہمانوں کو لائیے، حفظِ مراتب بٹھائیے، اٹھائیے، کھلائیے اور پھر بھی یہ گلہ ہے کہ تو وفادار نہیں۔

ان تمام باتوں سے بڑھ کر رسالپور کا مقام خود ایک پُرفضائی مقام ہے۔ یہاں فضا میں تو ہر لمحہ جہازوں سے تغیر ہے، مگر زمینی مقام قبل از مسیح سے جامد ہے۔ رسالپور کے واحد صدر بازار کے بارےمیں کوئی بات بھی کہنا توھینِ صدر کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر تعریف کریں گے تو جھوٹ کہلائے گا ، اگر بد تعریفی کریں گے تو کونسی ایسی بات ہے جو دوسروں کے علم میں نہیں۔ رسالپور جا رہے تھے تو ایک تجربہ کار صاحب نے ہماری پریشانی دیکھ کر کچھ یوں ڈھارس بندھائی، رسالپور اچھی جگہ ہے، وہاں تمہیں کوئی مسلہ نہ ہو گا ۔ اچھی صحت کی سہولیات ہیں اگر تم بیمار نہ پڑو، اچھے نوکر مل جاتے ہیں اگر تم اپنا کام خود کرو، بچوں کے لیے اچھے سکول ہیں اگر تم بچوں کو خود پڑھاؤ، اچھے ریسٹورنٹ ہیں اگر تم کھانا گھر پر کھاؤ۔ غرض اس کے بعد رسالپور کے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات کہنا اصل میں اپنی نااہلی کا ہی اعتراف کرنا ہوگا۔

رسالپور میں ہمیں جو بنگلہ رہائش کے لیے ملا، وہ انگریز دور کی یادگار تھا۔ کچی سی اینٹوں کا بنا مکان ایک وسیع و عریض قطعہِ زمین کےدرمیان میں واقع تھا۔ لان میں ہم بہادروں کے ساتھ گیڈرب ھی دھوپ سینکتے تھے۔ پڑوسی نے خبردار کیا تھا کہ ایک سانپ کی بھی رہائش اسی احاطے میں ہے۔ غرض بڑا قدرتی ماحول تھا؛ سانپ و گیڈروں کے لیے قدرتی اور ہمارے لیے ہول اٹھاتا ۔ مکان کی چھت مٹی کی بنی تھی، اکثر مٹی گرتی اور مٹی کے آدمی کو اپنی اوقات یاد کرادیتی تھی۔ بارش ہوتی تو جلترنگ سا بج اٹھتا ، گو یہ ان سٹیل کے برتنوں کی دھن تھی جو بیگم اپنے میکے سے لیکر آئی تھی اور اب خوش تھی کہ برتن پکانے کے لیے نہیں بلکہ قومی خدمت کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔ رات کو گر بارش ہو جاتی تو ہم بغیر گرامو فون کےہی تمام رات راگ ملہار سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔

انتظامیہ کے کسی عقلمند نے سوچا کہ پاکستان بن چکا ہے سو اس انگریز سامراج کی نشانی کا بھی بٹوارہ کیا جائے، سو آثارِ قدیمہ کی اس نشانی کو دو خاندانوں کو الاٹ کر دیا گیا۔ اس تقسیم کے بعد ہمارے حصے کے بنگلے کا لان چار کنال کا اور رہائش تین کمروں کی رہ گئی۔ ان میں سے بھی ایک کمرے میں سکواڈرن اولرچ پاولسکی کی روح 1934 سے رہائش پذیر تھی۔ شروع میں تو ہم سے بڑے کھنچے کھنچے سے رہے، مگر پھر ایک گرمیوں کی رات لوڈ شیڈنگ سے تنگ آ کر ہم سے ہاتھ کا پنکھا مانگنے آ گئے۔ کہنے لگے کہ قدیمی مکین کا بھی آخر کوئی حق ہوتا ہے اور یہاں تم سے پہلے کئی آئے اور کئی گئے۔ اور پھر اپنی بات میں اثر ڈالنے اور پنکھا حاصل کرنے کے لیےمصرعہ پڑھنے لگے کہ، “سب مسافر ہیں بظاہر نظر آتے ہیں مقیم”۔ اُس کے بعد جب بھی بوریت یا لوڈشیڈنگ کا شکار ہوتے تو تشریف لے آتے۔ پرانے بیوروکریٹّوں اور سینیئر افسروں کی خو رکھتے تھے کہ متواتر اور بلاتکان بولتے تھے۔

مذہبی نہ تھے مگر رسالپور کے گرجوں کو خوب یاد کرتے (مصنف کا نوٹ: رسالپور شہر میں انگریز دور کے یورپین طرزِ تعمیر کے دو تین خوبصورت گرجے موجود ہیں) اور ایسے میں ان کے چہرے پر معصومانہ اور معنی خیز مسکراہٹ ہمیشہ ساتھ ہوتی کہ چرچوں میں اتوار کی تقریبات کے چرچے رسالپور آفیسر میس میں ہفتہ وار رہتے تھے۔ عبادت کے بعد چرچ کا سکاٹش پادری اپنے خاص مہمانوں کی تواضع مقامی کشید کیے مشروب سےعلیحدہ کرتا تھا۔ فرمانے لگے بارہ بانڈے (رسالپور کا نزدیکی گاوں) کی کشید ہوئی کی کیا بات ہے، میرا اردلی حضرت خان سپیشل لے کر آتا تھا۔ اِسی کے سہارے رسالپور کی گرمیاں کاٹ پاتا تھا۔ ایک رات راز کی بات بھی افشا کردی کہ اسی حضرت اور بنتِ عنب کے باعث وقت سے پہلے دوسرے جہاں کو عازمِ سفر ہوئےتھے۔ اچھے بندے تھے، بس آج کی کئی زندہ روحوں کی طرح ناسٹیلجیا بقول یوسفی صاحب یادش بخیریا کے شکار تھے۔ رسالپور کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے لیے ہم ہر روز ابالتے تھے۔ ہمارے اس روزانہ پانی ابالنے کی مشقت سے سیخ پا ہوتے تھےکہ ان کے نزدیک پانی پینے کے نہیں صرف حل کرنے کے کام آتا۔ پرانے آدمی تھے، پانی کی ایسی بے حرمتی انہوں نے پہلےنہ دیکھی تھی۔

ہمارے چھوٹے بیٹے پر خاص شفقت فرماتے تھے۔ کہتے تھے کہ میرا بچپن بھی اس کی مانند تہذیب سے دور گذرا ۔ اس سے انسان میں کم عمری سے ہی تپسیا، غور و فکر اور سوچ بچار کی عادت پڑ جاتی ہے۔ ہم بھی بیٹے کو اکثر صبح مونٹیسری جانے سے پہلےبستر پر چپ چاپ گم سم پاتے۔ کیا خبر کہ حاضر و غائب کے مسلے پر غور کر رہا ہو۔ شاید یہ اہم مسلہ اب تک حل ہوگیا ہوتا مگر اُس کی ماں اسکی ذہنی فکر میں ہمیشہ مخل ہوکر اسکا گیلا پاجامہ بدلنے میں مصروف ہو جاتی۔

موسم کی طرف آئیں تو رسالپور کا موسم بھی الگ آن بان رکھتا ہے۔ گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں سخت سردی آپ کو اور کہاں ملے گی۔ حشرات الارض کی فراوانی اور اشیا صرف کی گرانی آپ کو مسلسل خدا کی یاد دلاتے رہتےہیں۔ پشتو آپ کے ذخیرہِ الفاظ میں اضافے اور تذکیر و تاںیث کی درستی کے لیے یہاں آب و تاب سے موجود ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود جب آپ کا کوئی دوست آپ کو کہتا ہے کہ استاد صاحب، آپ تو موج میں ہیں، تو میر تقی میر سے معذرت کے ساتھ دل بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے:

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے استاد نکلتے ہیں

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor