جنسی تشدد: پاکستانی معاشرے کا بھیانک چہرہ


\"edit\"لیہ سے آنے والی اطلاع کے مطابق 2002 میں تیزاب سے جھلسی جانے والی ایک نابینا خاتون کو تین افراد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ ان میں سے ایک شخص کچھ عرصہ سے اس خاتون کی مالی مدد کرتا رہاتھا۔ گزشتہ روز اس نے زکوٰۃ دینے کے لئے خاتون کو اپنے گھر بلایا۔ اس موقع پر دو دوسرے مرد بھی گھر میں موجود تھے ۔ خاتون کو جبری ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ اب پولیس اس معاملہ کی تفتیش کررہی ہے اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ جلد ہی ملزمان کو پکڑ لیا جائے گا۔ اخلاقیات اور مذہب کے نعرے بلند کرنے والے پاکستانی معاشرے کا یہ ایک ایسا بھانک چہرہ ہے جس سے گھن آتی ہے۔

اس کے باوجود ملک کے سیاست دان اور مذہبی رہنما خواتین کی حفاظت کے معاملہ کو خلاف اسلام اور شریعت پر حملہ کا معاملہ بنا کر صورت حال کو خراب کرنے میں نہایت افسوسناک اور شرمناک کردار ادا کررہے ہیں۔ اس کا مظاہرہ خاص طور سے فروری میں پنجاب اسمبلی میں خواتین کے تحفظ کا بل منظور ہونے کے بعد مذہبی سیاسی جماعتوں کے پر زور احتجاج کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ اس احتجاج کی قیادت اس وقت مسلم لیگ (ن) کے قریب ترین سیاسی ساتھی جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کررہے تھے۔ انہوں نے اس قانون کو اسلامی اور سماجی شعائر پر حملہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔ حالانکہ اس کے تحت صوبے میں گھریلو تشدد اور جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی حفاظت اور داد رسی کے لئے ایک نظام استوار کرنے اور مظلوم خواتین کو قانونی اور سماجی مدد فراہم کرنے کا انتظام کرنے کی بات کی گئی تھی۔ اس قانون کی چھتری تلے مذہبی جماعتوں کو معاشرے سے غیر اخلاقی اور غیر انسانی رویوں کی روک تھام کے لئے حکومت سے تعاون کرنے کی ضرورت تھی ۔ گلی گلی مدرسے اور مساجد کھولنے والے ان ملاؤں کا فرض تھا کہ وہ ایسے واقعات کی نشاندہی میں کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے لیکن اس کی بجائے عورتوں کے تحفظ کے معاملہ کو یوں پیش کیا گیا گویا یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف اقدام ہے۔ میاں شہباز شریف کی صوبائی حکومت نے ان علما اور مذہبی ٹھیکیداروں کی بات ماننے کے لئے مشاورت کا طویل سلسلہ شروع کیا جس میں مذہبی تنظیموں کے متعدد نمائندے شامل ہوئے۔ اس عمل میں ایک اہم اور ضروری قانون کا نفاذ سیاسی مفادات کی نذر ہو گیا۔

پاکستانی معاشرے میں اسلام کے نفاذ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے عورتوں کو گھر کی چہار دیواری میں محدود کرنے کے لئے دلیل دی جاتی ہے۔ متعدد رجعت پسند سماجی کارکن اور کالم نگار ، جنسی زیادتی کے واقعات کا اصل ذمہ دار مظلوم عورتوں کو قرار دیتے ہوئے ذرہ بھر خدا کا خوف یا شرم محسوس نہیں کرتے۔ حالانکہ عالمی سطح پر یہ اصول تسلیم کرلیا گیا ہے کہ جارحیت کا مظاہرہ کرنے والا ہی قصور وار ہوتا ہے۔ یہ کہہ کر کسی مرد کی جنسی بدعملی کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی جا سکتی کہ وہ گھر سے باہر کیوں نکلی یا اس نے ’غیر مناسب‘ لباس کیوں پہنا۔

یہ رویہ صرف مذہبی حلقوں میں ہی نہیں ملک کے ہر سماجی طبقے کا مزاج بن چکا ہے کہ جنسی جرائم کا ارتکاب تو مرد کریں لیکن اس کی ذمہ دار عورت کو ٹھہرایا جائے۔ اس کی کلاسیکل مثال 2005 میں واشنگٹن پوسٹ کو دیا گیا سابق فوجی حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف کا وہ انٹرویو ہے جس میں انہوں نے ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کا ٹھٹھہ اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کسی کو بیرونی ملک کا ویزا لینا ہو یا لاکھوں روپے کمانے ہوں تو وہ خود کو ریپ کا شکار بنانے کا دعویٰ کرنے لگتی ہے۔ یہ المناک سماجی رویہ ملک میں عورتوں کے تحفظ اور حقوق کے لئے سب سے بڑی مشکل کا سبب بنا ہؤا ہے۔

صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد شمار کے مطابق گزشتہ برس کے دوران 777 خواتین نے جنسی زیادتی کا شکار ہونے کے بعد خودکشی کی یا کرنے کی کوشش کی۔ 939 خواتین کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ خاندانی عزت کے نام پر 1096 خواتین کو قتل کیا گیا۔ کمیشن کے مطابق یہ اعداد وشمار صرف ان سانحات کے بارے میں ہیں جو رپورٹ ہوئے تھے۔ اکثر صورتوں میں جنسی ظلم کا نشانہ بننے والی لڑکی شکایت کرنے کا حوصلہ ہی نہیں کرتی یا اس کا خاندان ’عزت‘ بچانے کے نام پر پولیس تک جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ ملک کا عدالتی نظام بھی اس قدر ناقص ہے کہ وہ زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو بروقت تحفظ اور انصاف فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ اصلاح کی کوششوں کو روکنے کے لئے معاشرے کے طاقتور طبقے ہر وقت برسر جنگ رہتے ہیں۔

لیہ میں ایک مظلوم عورت کے ساتھ ہونے والاظلم صورت حال کی سنگینی اور معاشرے کی سنگدلی کا اعلان کررہا ہے۔ یہ تکلیف یا دکھ صرف مقدمہ درج کرنے سے دور نہیں ہو سکتی۔ملک کے رہنماؤں کو خواتین کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لئے مؤثر قانون سازی کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ سماج میں ایسے وحشیانہ اقدامات کے خلاف مزاج سازی کی ضرورت ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali