گلوبل وارمنگ اور ہماری ذمہ داری



موسمیاتی تغیر یا کرہ ارض پر ماحولیاتی دباؤ زمین کے ماحولیاتی نظام کے اوسط درجہ حرارت میں مشاہداتی بگاڑ ہے. سائینسی بنیادوں پر کی جانے والی تحقیقات اس بات کی شاہد ہیں کہ ماحولیاتی نظام میں اس تخریبی بدلاؤ کی وجہ گذشتہ دو صدیوں میں بے قاعدہ درجہ حرارت میں اضافہ ہے. پیلیوکلائیمیٹ پراکسی ریکارڈ (وہ سائینس جو ہزاروں سال کی موسمی تغیرات کا مطالعہ کرتی ہے) کے مطابق بیسویں صدی عیسوی میں برپا ہونے والے صنعتی انقلاب اور جدید جنگی ہتهیاروں کا استعمال اس تبدیلی کے اہم محرکات ہیں.

بین الاقوامی تنظیم برائے ماحولیاتی تبدیلی کے مطابق “یہ انسانوں کا رویہ ہی ہے جو بیسویں صدی میں ماحولیاتی دباؤ کا اہم محرک ہے.”

گرین ہاؤس گیسز(کاربن ڈائی آکسائیڈ، کلوروفلورو کاربنز، اور نائیٹرس آکسائیڈ وغیرہ) کے بے قابو اخراج نے نے معاملات کو مذید گهمبهیر کر دیا ہے. ہوا کی کمپوزیشن میں 71.1 فیصد نائیٹروجن، 20.9فیصد آکسیجن .9فیصد آرگون ، .03فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کچھ دیگر عناصر شامل ہیں. اس ترکیب میں بگاڑ کی وجہ یہی گرین ہاؤس گیسز ہیں جو خالصتا انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہیں. ہوا میں کاربن ڈائی آکسئیڈ کی ذیادتی درج حرارت میں اضافے کا باعث بنتی ہے.

تجربات اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں اکیسویں صدی کے اختتام تک کرہ ارض کے اوسط درجہ حرارت میں 0.7 سے 1.7 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ متوقع ہے بصورت گرین ہاؤس گیسوں کا کم سے کم اخراج ہو. بصورت دیگر یہ اصافہ 2.6 سے 4.8 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوسکتا ہے.

گلوبل وارمنگ کے مختلف ایکو سسٹمز پر مختلف اثرات دیکهنے کو ملتے ہیں. زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ، سطح سمندر میں اضافہ، ہوا میں نمی کے تناسب میں تغیر، زیر زمین پانی کی سطح میں بدلاؤ اور صحرائی پهیلاؤ جیسے عوامل حرارتی دباؤ کے باعث درپیش ہیں. گلیشئرز، پرومافورسٹ اور سطح سمندر پر موجود برفیلی تہہ کا مسلسل پگهلاؤ اور اس سے غیر متوقع موسمی تنوع بهی وقوع پذیر ہیں.

اس صورت حال میں زمین کے موسمی خطوں کا ہزاروں سال سے قائم ایکویلبریم بری طرح سے متاثر ہوا ہے. مون سون بارشوں کے نظام میں بے قاعدگی کے باعث ایک طرف خشک سالی میں اضافہ دیکهنے میں آیا ہے تو دوسری طرف سال در سال سیلاب آ دهمکتے ہیں.

موسموں کی بے قاعدگی بهی مسلسل اپنے اثرات چهوڑ رہی ہے. کراچی جیسے شہر جہاں کی آب وہوا معتدل مزاج رکهتی تهی شدت اختیار کرگئی ہے. دسمبر میں درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا جارہا ہے. اپریل مئی کے مہینوں میں ہیٹ ویوز ایسے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں جن سے نہ صرف قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں بلکہ ایکو سسٹم کا توازن بهی بگڑ رہا ہے. بدلتے موسموں کے ساتھ سونامی اور سائیکلونز ایسے شہروں کو صفحہ ہستی سے مٹا رہے ہیں.

تیزابی بارشیں کرہ ارض کی زرخیزی کو گہنا رہی ہیں. آبی حیات کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں. شعور کی نگاہ سے دیکها جائے تو یہ خطرات آبی حیات کو نہیں بلکہ اس مخلوق کی بقاء کو لاحق ہیں جنکا گذر بسر ان پر ہوتا ہے. انسانوں کی خوراک کا ایک بڑا حصہ پانیوں سے میسر آتا ہے. زمینی اجناس تو پہلے ہی قحط سالی کا شکار ہیں. قابل کاشت رقبہ مسلسل سیم تهور کا شکار ہو کر نا قابل کاشت ہوتا جارہا ہے. ماحولیاتی بگاڑ سے فصلوں پر نت نئی بیماریوں کے حملوں سے اوسط پیداوار میں مسلسل کمی آرہی ہے. ایسی صورت حال میں بیماریوں پر کنٹرول پانے کی جستجو میں ادویات کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ سمندر اور دریائوں کا پانی اس سے بهی بری طرح متاثر ہو رہا ہے. اگر ماحولیاتی دباؤ کو کنٹرول نہیں کیا گیا اور گرین ہاؤس گیسز کا اخراج اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب بهوک افلاس صحراؤں اور ریگستانوں سے نکل کر شہروں تک کو نگل لے گی. ہوائیں اس قدر آلودہ ہوجائینگی کہ آکسیجن سے ذیادہ کاربن کا تناسب اس میں ہوگا. گلیشیئرز پگهل کر سمندروں کو شہروں میں داخل کردینگے. درجہ حرارت کا اضافہ پہآڑوں میں چهپے لاوے کو باہر کهینچ لائے گا. زلزلے اور بگولے زمین پر الٹ پلٹ مچا کے رکھ دینگے. اس سب سے بچاؤ کے لئے ہمیں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا. اس المیے سے متعلق معاشروں کو آگاہ کرنا ہوگا. اس روش کو ترک کرنا ہوگا کہ بس ہمارا وقت گذر جائے. آنے والی نسلوں کی بقاء کی جنگ موجودہ نسلوں کو لڑنی ہوگی.

اس ضمن میں صنعتی فضلہ سائینسی اصولوں پر دفن کرنا ہوگا. نئی صنعتیں ایسے علاقوں میں لگائی جائیں جہاں ذمین ناقابل کاشت ہو. آبادی سے دور مقامات کا چناؤ کیا جائے. کلین انرجی کے ذرائع کو استعمال میں لاکر ایٹما سفیئر پر گرین ہاؤس گیسوں کا پریشر کم کیا جاسکتا ہے. اس سے ذمینی وسائل پر دباؤ بهی کم ہوگا. شجر کاری مہم کا آغاز ہنگامی بنیادوں پر کیا جانا چاہیے. اس سلسلے میں دنیا بهر میں کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لے کر کوئی ماڈل تیار جائیں. خیبر پختون خواہ میں ہونے والے کام کو باقی صوبوں میں بهی شروع کیا جائے. ہر لگنے والا ایک نیا درخت ایک نئی ذندگی کی ضمانت دیتا ہے. درخت لگاؤ نسل بچاؤ .

ہمارے آس پاس
دهواں سا چهایا رہتا ہے
باد نسیم
سموم بن کر
نگل رہی ہے
وجود ہستی
یہ پیڑ پودے
اور پهول کلیاں
چمن کی خوشبوؤں
میں مہکتی گلیاں
یہ تتلیوں کی
رنگین بستی
اجڑ رہی ہے
سیاہ راتوں میں
ٹمٹماتے
وہ ننھے جگنو
جو بهولے بهٹکے
مسافروں کی
امید بنتے تهے
بجھ رہے ہیں

شفاف چشموں کا بہتا پانی
حسین پریوں کی
جس سے منسوب تهی کہانی
وہ جهیل جوہڑ کا روپ دهارے
ہماری شکلیں
چڑارہی ہے
ہمیں حقیقت بتا رہی ہے
کہ بہتی ندیاں
شفاف پانی
وہ پهول کلیاں
فضا میں پهیلی
یہ ست رنگیاں
دهواں دهواں ہے
دهواں دهواں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).