وزیراعظم ہاؤس کے شاہانہ اخراجات اور شریف خاندان


عمران خان نے قوم سے پہلے خطاب میں سابق اور نااہل وزیر اعظم نواز شریف کے بھاری اور ذاتی اخراجات کا ذکر کیا۔ اس پر جنگ جیو کے اینکر اور کالم نویس سلیم صافی نے اپنے تجزیہ میں کہا کہ نواز شریف تو اپنے ذاتی اور خاندان کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے رہے ہیں اور جب عمران خان نے اخراجات کی تفصیل مانگی تو انہیں وہ چیک فراہم کر دیے گئے کہ وہ تو ذاتی اخراجات کی ادائیگیاں خود کرتے تھے۔

مجہھے یہ بات نہ ہضم ہوئی اور نہ کبھی ہضم ہوگی، کیوںکہ میں نے 1997 سے لیکر 1999 تک لاہور میں دونوں بھائیوں کی سرکاری تقریبات اور وہاں کے اخراجات اور وہاں شاہانہ انتظمات کو رپورٹر کی حیثیت سے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ سلیم صافی سے بہت اچھا تعلق رہا ہے اور رہے گا کیوں کہ صحافی ایک دوسرے سے تعلق کبھی توڑا نہیں کرتے تاہم ان کو شاید  شریفوں کا ابھی پتہ نہیں۔

سوشل میڈیا پر نواز شریف کے حالیہ دور کے تین اخراجات کی کچھ تفصیلات جاری کی گئی ہیں (جس کی درستی کی تصدیق تردید کہیں سے نہیں ہو سکی) کہ وہ انھیں نے خود ادا کیے، ان میں صدقے کے سات بکروں کی خریداری مریم نواز کی بیٹی کی سالگرہ کی پنجاب ہاؤس میں تقریب اور دیگر اخراجات اور حسین نواز کے گیسٹ ہاؤس میں قیام و طعام کے اخراجات شامل ہیں، یہ سب کے سب اخراجات 2013 سے جون 2017ء تک کے ہیں، جن کی کل رقم اکسٹھ لاکھ سے کچھ زاید بنتی ہے اور میاں صاحب نے اس کی ادائیگی چیک کے مطابق انتیس اگست دو ہزار سترہ کو کی یعنی وزارت عظمیٰ سے جب جولائی میں فارغ کے گئے اسکے بھی بعد۔ میں نے دستاویزات پر اپنے ایک آڈٹ اینڈ اکاونٹس کے گریڈ بیس کے عزیز اور کچھ سابقہ افسران سے جب اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے سوال اٹھا دیا کہ صدقہ کے بکروں کی خریداری سے لے کر پنجاب ہاؤس کو وزیر اعظم کے بجٹ سے ادائیگیاں کرنا ہی سب سے بڑی مالی بدعملی ہے جس کو کوئی بھی آڈیٹر نظر انداز کر ہی نہیں کر سکتا۔

میرا سوال یہ ہے کہ جو شخص صدقہ کے بکرے خرید نے کے لئے اور نواسی کی سالگرہ کی تقریب کے اخراجات سرکار کے فنڈ سے ادا کرتا ہے وہ باقی کون سے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتا ہوگا ؟

ہمارے ایک دوست نے قومی ایئر لائن کا آڈٹ کیا تو پتہ چلا کہ میاں صاحب جب سرکاری دورے پر جاتے تھے تو ان کے لئے دہی بھی سعودی عرب سے منگوائی جاتی تھی، اور ایک مرتبہ آصف علی زرداری جب صدر تھے تو پرواز کے دوران ان کے لئے جو بھنڈی بنائی گئی اس میں شوربہ زیادہ تھا، جس پر وہ سیخ پا ہو گئے اور ملازمین کو معطل کر دیا گیا۔ یہ اس ملک کی اشرافیہ جو سیاست اور پارلیمنٹ پر قابض ہے اور رہے گی، اپنے اختیارات کو ذاتی مفاد اور عیاشیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب عام آدمی پارلیمان کا ممبر نہیں بن جاتا اور یہ جاگیردار ساہوکار ان کو اپنے مذموم مقاصد کے استعمال سے باز نہیں رہتے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی مثال سب کے سامنے ہے جو درمیانہ طبقے کی جماعت قرار دی جاتی ہے، پر اشرافیہ پر مشتمل بڑی جماعتیں ان کو اپنے لئے استعمال کرتی ہیں۔

گزشتہ پانچ سال میں نواز شریف کے دور میں کئی ایسے اخراجات ہیں جن پر بہت سنجیدہ تحقیقات اور آڈٹ ہو تو شریف خاندان مزید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔ مثلاً نواز شریف جب اپنے دل کے عارضہ کے علاج کے لئے ایک ماہ تک لندن میں رہے تو انکا سارا عملہ وہاں منتقل ہو گیا اور پی آئی اے کا طیارہ لندن میں ہی کھڑا رہا جس پر کروڑوں رپے کے سرکاری اخراجات ادا کئے گئے، کیا نواز شریف نے وہ رقم اپنی جیب سے ادا کر دی؟ پھر مریم نواز کی بیٹی کا نکاح مسجد نبوی میں ہوا تھا جس کے لئے قومی ایئر لائن کی امریکہ کی پرواز کینسل کر دی گئی اور جہاز سعودی عرب لے جایا گیا، کیا وہ اخراجات نواز شریف نے اپنی جیب سے ادا کر دیئے ہیں؟ سلیم صافی کو چاہیے کہ وہ ان دو معاملات کی ہی تحقیقات کر لیں۔ حالانکہ مریم نواز  اپنے بال بچوں سمیت پانچ سال تک وزیر اعظم ہاؤس کس حیثیت میں رہتی رہیں اور دنیا کے کس ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ شادی شدہ بچے بھی سرکار کے خرچ پر پلیں ، کیا نواز شریف نے ان پر اٹھنے والے اخراجات ادا کر دیے؟

نواز شریف جب ستانوے میں وزیر اعظم بنے تو ان کے ساتھ خصوصی جہاز میں کراچی تک کا سفر کرنے کا موقع ملا۔ صبح کی پرواز تھی جس میں ناشتہ دیا گیا تو سات مختلف ڈشیں تھیں جو ہمیں ناشتہ میں دی گیں، جس میں لسی اور سری پاے بھی شامل تھے۔ یہ ایک پرواز کی داستان ہے، اگر پچھلے پانچ سال کی خصوصی پروازوں کی داستان نکلوا لیں تو سب کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔

پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو بھی سیاست دان اقتدار میں آتا ہے وہ سب سے پہلے اپنے ذاتی گھر کو چاہے وہ جہاں کہیں بھی ہو اسے وہ اپنا کیمپ آفس قرار دے کر اس کی وہ مرمت، تزئین آرائش سرکاری خرچ پر کرواتے ہیں۔ یہی کچھ نواز شریف اور شہباز شریف کرتے رہے ہیں، انہوں نے پہلے جب وہ نوے کی دھائی میں اقتدار میں تھے تو ماڈل ٹاؤن کے مکانوں کو کیمپ آفس ڈیکلیر کیا پھر جب جاتی امرا کے محل تعمیر ہو گئے تو وہ ہر مرتبہ ان کا کیمپ آفس رہا ور سب کی سب تزئین و آرائش اور ملازمین کا خرچہ سرکار کے فنڈ سے ادا ہوتا رہا۔

 موجودہ حکومت اگر اپنے دور کو شفاف رکھنا چاہتی ہے تو ذاتی مکانات کو کیمپ آفس میں تبدیل کرنے پر مکمل پابندی لگا دے، تاکہ لوٹ مار کا یہ سلسلہ تو بند ہو۔ میری صحافتی زندگی میں صرف ایک سیاستدان ایسا آیا جس نے اپنے گھر کو کیمپ آفس قرار نہیں دیا، وہ شریف النفس انسان محمد خان جونیجو تھے جن کو میاں صاحب نے ضیاءالحق کے ساتھ سازش کر کے فارغ کرا دیا تھا۔

اسکے علاوہ عمران خان ایک حکم ضرور جاری کریں کہ گزشتہ تمام ادوار میں جتنے بھی کیمپ آفس قرار دے گئے ان کی تفصیلات اور تزئین و آرائش کے اخرجات کا پتہ لگائیں اور اخرجات ان سے واپس لیں کیوںکہ یہ بھی لوٹ مار کا ایک طریقہ ہے۔ نہ صرف سیاست دان یہ کرتے ہیں بلکہ اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری افسران سرکاری گھروں کی تزئین و آرائش پر کروڑوں خرچ کر دیتے ہیں

قوم کی دولت کو اس طرح لوٹنے کا سلسلہ اب نہ روکا گیا تو عمران خان پر بھی یہی الزام لگے گا کہ انہوں نے اقتدار کو اپنے اور دوستوں کے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا۔ انہیں اپنے قریبی دوستوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی، خاص کر تونسہ شریف کی سرکاری زمینوں پر جن پر ان کے دوستوں کی نظر بتائی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).