بابا فرید کے دربار سے سند حکومت پانے والے دو حکمران


گنج شکر کے فیوض و برکات کے چشمے پھوٹ رہے تھے جب غلاموں کے جتھے سے نعمان نامی غلام اپنے آقا کی اجازت سے بارگاہ درویشیت میں شرف باریاب ہوا۔ اجازت گویائی ملتے ہی اس کے نتھنے پھڑکنے لگے ہونٹوں کے کنارے تڑپنے لگے اپنی ٹوٹی پھوٹی ذات کو مجتمع کرتا یوں گویا ہوا۔ میرا تعلق ترکوں کی قراختائی نسل کے قبیلے البری سے ہے میرا باپ اپنے وطن میں دس ہزار گھرانوں کا سردار تھا جب منگولوں نے ہماری سر زمین کو گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا، اموال و اسباب لوٹنے پہ قانع ہی نہیں ہوئے بلکہ طوق غلامی میں ہماری گردنیں پِرو دیں۔ خرید و فروخت کی منڈیوں میں ہاتھ در ہاتھ بکتے اس بکاؤ مال کو ترکستان سے بغداد اور اب یہاں دہلی لایا گیا ہے۔

اے روشن چہرہ بزرگ۔ میں نہیں جانتا میری گردن میں پڑی زنجیروں کے گھاؤ اور کتنے گہرے ہوں گے۔ یہ کہتے ہوئے اِدھر دام غلامی میں مقید آنکھوں میں دکھ اور بھڑاس کے عکوس تیرنے لگے چہرے پہ پڑی ستم ظریفیوں کی شکنوں پہ ندامت و لجاجت کے رنگ شوخ ہوئے ادھر برہان شریعت، گنج حقیقت بابا فرید ایسے کھڑا ہوا جیسے تقدیر کھڑی ہوتی ہے۔ عالم تفکر سے صدائے درویش بلند ہوئی۔ اے پرسان قسمت تیری پیشانی کا چمکتا ستارہ بتاتا ہے کہ عنقریب تجھے تاج و تخت نصیب ہو گا۔

نقش حیرت بنے غلام کو اگلی صبح سلطان التمش کے دربار میں فروخت کر دیا گیا۔ التمش نے جوان کے چہرے سے ٹپکتی بلند اقبالی کو بھانپتے پوئے خواص میں شامل کر لیا۔ طلوع ہوتے قسمت کے ستارے نے فراز افلاک کی طرف اڑان بھری تو بالترتیب رکن الدین کے زمانے میں امیر اعلیٰ، رضیہ سلطانہ کے دور میں میر شکار، بہرام شاہ کے زمانے میں داروغہ اصطبل، اور امیر حاجب، اور ناصر الدین کے دور میں وزارت کی منزل تک جا پہنچا۔ فرض کے راستوں کو ایسا ناپا کہ ناصر الدین کی موت پہ قصر سفید میں رسم تخت نشینی سے خواجہ فرید کی پیشین گوئی پر مہر حقیقت ثبت کرتا تاریخ کے آسمان پہ سلطان غیاث الدین بلبن کے نام سے دمکنے لگا۔

امرا کی تقرری میں جانچ پڑتال میں کوئی کمی رہ جاتی تو بعد میں کسی بھی خطا پہ معزول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ اس کا راستہ نہ روک پاتی۔ انصاف اور حق پرستی کی نگہداریاں کرتے سلطان کے لئے بڑا چیلینج التمش کے جانشینوں کے زمانے سے چلے آئے میواتی تھے۔ جو رات کی سیاہی پھیلتے ہی گھروں میں گھس جاتے، مال و اسباب لوٹتے خون بہانے سے بھی باز نہ آتے۔ سوداگر و تجار بھی ان کے دست و برد سے محفوظ نہ تھے۔ رات کی زلفیں کھلتے ہی شاہراہیں ویران ہو جاتیں۔ اور اب تو دن دہاڑے ڈاکے و خونریزی عروج پہ تھی۔

ان سے نمٹنے کے فیصلے پہ درباری فرط حیرت میں مبتلا تھے لیکن سلطان نے جو ٹھانی وہی مانی اور دہلی کے مضافات میں گھنے جنگلات کی کمین گاہوں پہ ایسا حملہ آور ہوا کہ ڈاکہ زنوں پہ قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہزاروں کی تعداد میں یا تو تہ تیغ ہوئے یا گرفتار۔ جنگلوں کو آگ لگوا دی اور زمین غربا میں تقسیم کر دی گئی۔ ان اقدامات سے نہ صرف رعایا کا امن و سکون لوٹ آیا بلکہ شاہراہیں خطرات سے پاک ہو گئیں اور کچھاریں لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل ہو گئیں۔

کسی نازنیں کی نگاہ ناز کی طرح بلبن کے نعرے ڈاکو یا ہندوستان نے بھی پلٹ کے دیکھا جب نو منتخب وزیر اعظم کی صدا مواصلاتی لہروں میں گونجی کہ کرپشن یا پاکستان۔ خط غربت کے نیچے بسنے والوں کی درد شناسی کرتے الفاظ بیوگی کی لاچاریوں اور بے چاریوں میں رستے زخموں پہ پھاہے بن کے جا ٹکے تو کہیں سود در سود کی گتھیوں میں الجھے کسان کے ورم بنتے دردوں کو آسودگی پہنچی۔ دیار اغیار میں بسنے والوں کی اپنائیتیں جوش مارنے لگیں تو تعلیمی میدان میں پرائیویٹ مافیا کی شکار طالبہ کے بابا کی آنکھوں نے دو موتی دامن کو تحفہ کر دیے۔

ناقابل رسائی علاج معالجے کی سہولتوں کو حسرت بھری نظروں سے تکتے بیماروں کی آنکھوں میں امید کے چراغ جل اٹھے تو کہیں ہر بچے کو بستہ تھمانے کے خواب نے کروڑوں تعلیم سے محروم نونہالان میں نئی امنگ کی لہر دوڑا دی۔ دفاتر میں غریب کو عزت دو کانعرہ درحقیقت ووٹ کو عزت دو کا مصداق نظر آیاتو کہیں انصاف کی بھیک مانگتی طوالت و تاخیر کی شکار عرضیوں میں ایک مژدے نے سرسراہٹ پیدا کر دی۔ ٹیکس وصولی کے نظام کی سرعت ذخیرہ اندوزوں کے ہیکلوں پہ ناگواری کے آثار مرتب کر گئی تو وطن عزیز کی لوٹی دولت کی واپسی کی خبر نے محبان وطن کے چہروں پہ مسرتیں مرتسم کر دیں۔

وردیوں کی بجائے پولیس نظام کا مزاج درست سمت پہ گامزن کرنے کی اطلاع پر ڈی ایس پی کے فرزند کی غنڈہ گردی سے دبکے سکول جاتے بچوں نے خوف کے لباس اتار پھینکے تو کہیں بوند بوند کو ترستے پیاسوں کے ہونٹوں پہ جمی پپڑیوں نے انگڑائی لی۔ بقول غالب
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

جناح کے خوابوں کی قبا میں کالی آندھیوں نے شکنیں ڈال دی ہیں جو ستر سالہ بوڑھے ملک نے زیب تن کر رکھی ہے۔ یہ وطن زادے ایک ایسے بیمار کی طرح دیدے پھاڑے پڑے ہیں جس کی آنکھیں کسی مسیحا کے لئے مجسم انتظار ہوں۔

صوفی کی بارگاہ سے فیضیاب ہونے والے غیاث نے اپنے نام کی لاج رکھ کر فریاد رس کا کردار نباہتے ہوئے انہونی کو ہونی میں بدل ڈالا اب دیکھنا یہ ہے کہ آج اسی بزرگ کی درگاہ کو چھو کر وزارت عظمیٰ کی مسند سنبھالنے والے کے دعوے لوح جہاں پہ عمل کا نقش کس قدر کھود پاتے ہیں نعروں میں مشابہت رکھنے والوں کی ہم مرشدی بھی اعتبار کی فضا کو سازگار بناتی ہے تو عوام کے آزمائے ہوئے بازو دلوں میں ہول بھی ڈال رہے ہیں۔

بنیادی جمہوریت کی بہتری کو عملی جامہ پہنانا مقصود ہو تو دائرہ احتساب کو سابق ضلعی ناظمین اور ضلعی مارکیٹ کمیٹیوں تک وسیع کیا جائے تاکہ اربوں مالیت کی لوٹی دولت کو لاٹا کر متعلقہ ضلع کی ترقی کے لئے صرف کیا جا سکے۔ ایسا کرنے سے کشکول پھینکنے کا خواب یقینا شرمندہ تعبیر ہو پائے گا۔ یاد رہے کہ گوادر گئے بیٹے کے انتظار میں بیٹھی جنوبی پنجاب کی ماں نے بھی خانقاہ پر منت کا دیا جلایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).