میر صاحب کی سادگی اور بارہواں کھلاڑی عمران خان


کیا خوش قسمتی ہے موصوف کی کہ نہ کبھی سیاست پڑھی نہ کبھی سیاست سیکھی۔ کبھی کسی سیاسی پارٹی یا کسی سیاست دان کے ساتھ نہیں رہے۔ بس کہیں سے اشارہ ملا اور پارٹی بنا کے کرکٹر سے سیاست دان ہو گئے۔ اگر قائداعظم سے بھی شروع کریں تو گوکھلے اور نورو جی وغیرہ کی مثال سامنے آتی ہے۔ پھر بھٹو صاحب اور نواز شریف کو دیکھیں تو ایوب خان اور ضیاالحق کی حکومتوں میں وزارتیں وغیرہ بھگتاتے رہے ہیں ۔

سیاسی کھلواڑ میں اگرچہ حمید گل اور ہارون رشید سے کچھ داؤپیچ سیکھتے رہے لیکن صاف ستھری سیاسی تربیت سے محروم رہے جس کا اعتراف دوست بھی کرتے ہیں کہ خان صاحب سیاست کے رموز سے ہنوز دلی دور است والی کیفیت سے دوچار ہیں۔ بس ہدایت نامہ پڑھ کے یا سن کے بڑھکیں مار لیتے ہیں اور اب تو کچھ استخارہ وغیرہ سے بھی ہاتھا پائی کا شوق فرمانے لگے ہیں۔

وزیر اعظم بن جانے سے پہلے وہ بہرحال کسی راج نیتی عہدہ کا تجربہ براہ راست نہیں رکھتے۔ یوں تو کہا جا سکتا ہے کہ پچھلے پانچ سال سے تحریک انصاف کے پی کے میں حکومت کرتی رہی ہے مگر وہاں بھی وزیرِ اعلیٰ کا قلمدان پرویز خٹک کے پاس رھا تھا۔ اور کچھ نہیں کیا تو کم از کم اسمبلی میں بیٹھ کر کچھ اچھے برے معاملات کا مشاھدہ کرتے مگر وہ ساراوقت بھی اسمبلی پر لعنت بھیج کے اسلام آباد کے چوراہوں پر ہلڑ بازی میں برباد کرتے رہے۔

اس لحاظ سے ھماری نہایت ادنیٰ سی رائے میں جناب عمران خان اب تک کرکٹ کی اصطلاح کے مطابق بارہویں کھلاڑی ہی رہے ہیں اور اب موصوف بہت سارے لوگوں کی اچھی اور بری دوںوں طرح کی کوششوں سے بالآخر راج نیتی کا کھیل کھیلنے والی ٹیم کے کپتان بن ہی گئے ہیں بہت بہت مبارک باد

بارھواں کھلاڑی بہت سارے حادثوں بہت ساری بنائی اور بگاڑی گئی سیاسی ساعتوں کے انتظار کے بعد آخرِکار مسند نشین ھو ہی گیا اب کھلاڑی کا انتظار تو ختم ھوگیا اب میدان میں بیٹھے تماشائیوں کا انتظار شروع ھوگیا ہے کہ کھلاڑی کیسے کھیلتا ہے۔ ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر کھیل دیکھنے کے احساسات مختلف ھوتے ہیں لیکن میدان میں آکر کیفیت اور احساس بالکل بدل جاتے ہیں اب پچ اور ڈرائیونگ کھلاڑی کے ہاتھ میں ہے۔ خوش امیدی انسانی فطرت کا واحد سہارا ہے جو انسان و مسلسل آگے بڑھنے پر راضی رکھتا ہے ھم بھی خوش گمانی اور خوش امیدی کے ساتھ امید سے ہیں۔

لیکن یہاں تو صورت حال میر ٓ صاحب کی سادگی سے ملتی جلتی نظر آرہی ہے کہ بیماری کی دوا اسی عطّار کے لونڈے سے لینے جارہے ہیں کہ جو بیماری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔اب ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ لونڈے کی اصطلاح اس کمپاؤنڈر کی سی ہے جو آج کے گلی محّلے کے دواخانوں میں ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخہ کے مطابق دوا تیار کر کے کسی مریض کو دیتا ہے اور بس۔ یعنی مریض مرض دوا سب ڈاکٹر پر ہے کہ وہ کیا مرض تشخیص کرے اور کیا دوا تجویز کرے۔

دلچسپ پہلو اس منظر کا یہ بھی ہےکہ اس لونڈے کے ساتھ کچھ چپراسی بھی شامل ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لمڈا تو نیا ہے مگر چپراسیوں کی تاریخ یہاں بہت پرانی ہے تقریباّ لیاقت علی خان کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ شروع ھوگیا تھا اس دوران ایک دو چپراسیوں نے افسر بن جانے کی کوشش کی تھی مگر انجام کسی کا پھانسی ھوا اور کوئی بیچارہ آج کل بھی جیل اور نا اہلی کی سزائیں بھگت رھا ہے لیکن فرماں بردار آج بھی ھوائی جہاز اور ریلوے کی افسری کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

اس صورتِ حال میں ھمیں اس لمڈے کا تونہیں البتہ اپنے مرض کی دوا کا تھوڑا بہت علم ہے کیوں کہ آج بھی کچھ شرم اور حیا اور ضمیر اور دانش کا خیال رکھنے والے حکیم اکثر اس دوا کا ذکر کرتے رھتے ہیں کہ وہ دوا تو ھم سے قائدِ اعظم ہی کے زمانے سے اڑا لی گئی تھی جس کا کچھ کچھ اندازہ قائد اعظم کو بھی ھوگیا تھا جب ہی انہوں نے ایوب خان پر نظر رکھنے کا کہا تھا۔تو خیر پرانی باتیں دھرانے کا یہ موقع نہیں ہے واقفانِ حال سب جانتے ہیں ھم تو گھوم پھر کے آج کے منظر نامہ میں آتے ہیں کہ جہاں اور دوسرے جانے پہچانے ناموں کے ساتھ ھمیں فہمیدہ مرزا اور زبیدہ جلال کے فہیم اور جلالی چہرے نظر آتے ہیں جن کے لیے برادر رؤف کلاسرا چیخ چیخ کے تقریباً تھک چکے ہیں۔

تو ایسے میں ھمیں اس اصلی دوا کے ملنے کی اس پینسٹھ سال کے ھینڈسم لونڈے سےکوئی خاص توقع تو نہیں ہے جس کے لیے بے نشان درویش برادران بہت شور مچاتے ہیں مگر کیا کریں کہ دل اس کوچۂ ملامت میں جانے سے باز ہی نہیں آتا اگرایسےمیں سندھ اور بلوچستان کے بچّوں کو دودھ اور بسکٹ بھی مل جائیں تو کافی سمجھیے گا کہ شاید یہیں سے آگے کا کوئی راستہ صاف ھو جائے۔

مگراس کے لیے اس دل آزار بندوبست میں موجودگی ضروری ہے۔ میدان خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ رسن و دار کبھی کبھی بھاول پور کی فضاؤں میں الٹے پڑ جاتے ہیں۔ کبھی کسی مر حوم کی بیوہ نے شکوہ کیا تھا کہ راج محل کا راستہ دکھانے والوں کے لواحقین سے تعزیت بھی نہیں کی گئی ھمارا پتہ نہیں کیا شمار ھوگا۔ بس انتظار ہے کہ قطرے پہ صدف ھونے تک کیا گزرتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).