گستاخانہ خاکے اور مغرب


 

گزشتہ شب عزیزم فرحان سے ملاقات ہوئی جو شدید قسم کے لبرل ہیں۔ عموماً ہم مذہبی ایشوز پر مکالمہ کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ ہر بار مذہبی بحث کے اختتام پر ان کا درجہ حرارت اس قدر بلند ہوتا ہے کہ تھرمامیٹر بھی ماپنے سے صاف انکار کر دے۔

وہ موبائل کی طرف نگاہ کرتے اور زور دار قہقہہ لگاتے، میں کافی دیر تک انہیں نظر انداز کرتا رہا مگر جب تجسّس سے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو عاجز نے ان سے وجہ مسرت دریافت کرہی لی۔
انہوں نے آفریدی والے انداز میں موبائل میری طرف اچھالا اور بولے ” یار دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہم خاکوں سے ہی باہر نہیں نکلے“۔
انکے یہ الفظ میرے کانوں پر نہایت گراں گزرے، مگر میں نے خود کو قابو میں رکھا اور شفقت سے پوچھا کہ جناب یہ بتائیں کہ اگر آپ کسی سے محبت کرتے ہوں اور کوئی اس کی عزت و آبرو پر حملہ کرنے کی جسارت کرے تو آپ کیا کریں گے؟

وہ بولے کہ میں اسے پیار سے سمجھاؤں گا، اس میں ہائپر ہونے والی کوئی بات نہیں، ہر بندے کا پوائنٹ آف ویو مختلف ہوتا ہے۔
میں نے کہا اگر کوئی آپ کے والد کو گالی دے تو؟
وہ فوراً آگ بگولا ہوگئے اور کہنے لگےکہ کوئی مائی کا لال ایسا پیدا نہیں ہوا، میں اس کا سر پھاڑ دوں گا وغیرہ وغیرہ۔

جب ان کا ٹمپریچر تھوڑا کم ہوا تو میں نے ان کو بتایا کہ ہم سب مسلمان ہیں اور رسولِ مقبول (صلی اللہ علیہ وسلّم) کی عزت و آبر ہمارے والدین اور اس جہاں میں موجود ہر شے سے زیادہ ہے۔
سورہ توبہ کی آیت نمبر 24میں اللّٰہ تبارک ہو تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
”کہ دیجئے اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو خدا اور اس کے رسول سے اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ خدا اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے۔ اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا“

اس آیت مبارکہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسولِ دو جہاں ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کی عزت و آبرو کی حفاظت کس قدر ضروری اور ہر مسلمان پر فرض ہے۔
آیت مبارکہ سن کر فرحان خاموش ہوگئے۔

میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ویسے تو مغرب اور اس کے چاہنے والےہر وقت انسانیت کی رٹ لگائی رکھتے ہیں مگر اب ان کی آنکھوں پر سیاہ پٹی کیوں بندھ گئی ہے؟
کیا وہ نابینا ہوگئے ہیں؟ ان کو نظر نہیں آرہا کہ ہالینڈ میں ہونے والے مقابلے سے اربوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔ مغرب میں گزشتہ کئی عشروں سے گستاخی تسلسل سے ہوتی آرہی ہے مگر مجال ہے کسی بھی لبرل یا انسانیت نواز نے اس کے خلاف آواز بلند کی ہو، اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ ان انسانیت کے علمبرداروں کا انسانیت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کا مقصد صرف و صرف اسلام و مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنا ہے۔

قومی اسمبلی میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف قرار داد متفقہ طور پر منظور ہو گئی ہے، اور شاہ محمود قریشی نے ہالینڈ کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے ان کی حکومت سے اس کے خلاف ایکشن لینے کی درخواست بھی کی ہے، مگر میرے خیال سے یہ کافی نہیں، سنا ہے کہ عمران خان اقوام متحدہ کے اجلاس میں شمولیت کے لیے جا رہے ہیں خان صاحب کوچاہیے کہ لگے ہاتھ ساری دنیا کے سامنے مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ مسئلہ اٹھائیں تاکہ ان انسانیت نوازوں کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو۔

یہ بات ہمارے لئے قابل افسوس ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ہونے کے باوجود گستاخانہ خاکوں کے خلاف کوئی خاص احتجاج نہیں کیا گیا، سب کا اجتجاج صرف فیسبک تک محدود ہے۔
اِک تِرے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی
اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).