عصمت آپا


(21 اگست کو اردو ادب کی پہلی جون آف آرک محترمہ عصمت چغتائی کا 109واں یوم پیدائش ہے۔)

عقیل عباس جعفری نے جب مجھ سے عصمت چغتائی کے حوالے سے کچھ لکھنے کو کہا تو میں انکار نہ کرسکی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ نثر میرا میدان نہیں ہے، میں نے ان سے وعدہ کرلیا۔ میں قلم لے کر بیٹھی تو عصمت آپا جیسے میرے سامنے آبیٹھیں۔ محسوس ہوا کہ آنکھیں سکیڑے مسکرا رہی ہیں۔ وہی گہری معنی خیز مسکراہٹ۔ جیسے مجھ سے کہہ رہی ہوں۔ لڑکی ڈرتی کیوں ہو۔ لکھ دو جیسا تم نے مجھے دیکھا۔”

اب جب کہ میرے اور ان یادوں کے بیچ کوئی تیس چالیس برس حائل ہیں۔ عصمت آپا کی آواز، ان کی ہنسی اور چھوٹے چھوٹے تیز جملے کہیں تحت الشعور سے امنڈ امنڈ کر آرہے ہیں۔ عصمت چغتائی سراپا لفظ تھیں۔ ان کی آنکھیں الفاظ کو ادا کرتے ہوئے ہونٹوں کے زاویوں کے ساتھ سکڑ جاتی تھیں اور پھر یوں جگمگا کر پھیلتی تھیں گویا پھلجھڑی چھوٹنے کا منظر۔ ان کے ہونٹوں سے چنگاریاں پھول بن کر جھڑتی تھیں۔

عصمت آپا سے میری پہلی ملاقات کی تاریخ جون 1976ء میری آٹوگراف بک میں درج ہے۔ لیکن ان سے پہلی ملاقات کا وہ منظر! وہ ناقابل بیان صورت حال جس نے میرے حافظے پر گہرے نقش چھوڑے۔ شاید الفاظ اس کا احاطہ نہ کر سکیں۔ کراچی میں “گلِ رعنا کلب “کا مرکزی ہال، خواتین کا جم غفیر، بھری دوپہر میں کھلے ہوئے دروازوں سے آتی جون کی چلچلاتی دھوپ میں بروکیڈ کے چمچماتے اور آنکھوں میں چبھتے ہوئے لال گلابی جوڑے پہنے دوڑتی پھرتی عورتیں۔ ہال میں ایک افراتفری اور بد نظمی کا عالم تھا کہ مائک پر مشاعرے کے آغاز کا اعلان ہوتا ہے۔ مشاعرے کی نظامت معروف صحافی سلطانہ مہر کر رہی ہیں۔ انہیں کی سفارش پر میرا نام شاعرات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

بات یہ ہے کہ میں عصمت چغتائی سے ملنا چاہتی تھی (اس وقت تک میں عصمت چغتائی کے کچھ افسانے پڑھ چکی تھی، خاص طور پر لحاف جو مجھے بے حد بور لگا تھا) اور میں حیران ہوئی تھی کہ آخر ایسی کیا بات ہے اس معمولی سی تحریر میں جس سے انہیں اتنی شہرت ملی! خیر ملی ہو گی مجھے اس سے کیا۔ مجھے ان دنوں اس سے بھی کچھ خاص سروکار نہ تھا کہ لوگ کیا لکھ رہے ہیں مجھے توصرف یہ پتہ تھا کہ میں لکھ رہی ہوں اور بس۔ چونکہ عصمت چغتائی ایک بہت مشہور ادیبہ ہیں لہذا ان سے ملنا اشد ضروری ہے اور ان سے ملنے اور بہ زعم خود اپنی “باکمال شاعری “سے متعارف کرانے کا یہ واحد موقع تھا جسے میں کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتی تھی۔

میں اپنی امی کے ساتھ سامعین میں بیٹھی تھی۔ مشاعرے کا آغاز ہوا، یاد نہیں کتنی بیبیاں اس بڑے سے اسٹیج پر براجمان تھیں۔ میری آنکھوں کے سامنے تو بس نیلے پیلے بروکیڈ دھبوں کی شکل میں ناچ رہے تھے۔ بروکیڈ جو اس زمانے میں ایک خاص طبقے میں کافی رواج پا گیا تھا۔ شاید یہ بھی ایک طبقے کی محرومیوں کا کسی حد تک ازالہ تھا (ان کا جنہوں نے صدیوں سونے چاندی کے تاروں کو ریشم کے تانے بانے میں پرویا تھا اور انگلیاں فگار کی تھیں لیکن ان کے جسم اس لمس سے محروم ہی رہے)

 پہلے نمبر پرجس لڑکی کا نام پکارا گیا وہ میں نہیں تھی۔ میں مایوس ہوگئی۔ امی نے ڈھارس بندھائی۔ “فکر نہ کرو۔ بڑے شاعرکو دیر سے بلاتے ہیں۔ ” اس لڑکی نے ایک غزل پڑھی جس کی ردیف تھی۔ ” آدھا اِدھر آدھا اُدھر” امی بولیں اے ہے یہ تو لڈّن بھیا ہمارے بچپن میں پڑھا کرتے تھے” ناک میں مرغی کا پر آدھا ادھر آدھا ادھر”۔ ابھی میں اس مرغی کے پر میں پھنسی ہوئی تھی ناگہاں سلطانہ مہر نے اعلان کیا کہ اب ایک اور نو آموز شاعرہ عشرت جہاں آفرین (ان دنوں میں اپنا اصلی نام عشرت جہاں مع آفرین تخلص لکھا کرتی تھی) ترنم سے اپنا کلام پیش کریں گی۔ زور” ترنم “پر تھا۔۔ میں اور ترنم؟ میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ امی نے کہا جاﺅ جاﺅ ورنہ کوئی اور نام پکار لیا جائے گا۔۔ میں گرتی پڑتی اس عظیم ا لشان اسٹیج پر پہنچی اور غزل سرا ہوئی۔۔ ترن۔۔ نم۔۔ کے ساتھ

جو ہم زلف وفا برہم کریں گے

سحر کو مثل شام غم کریں گے

 میں ان دنوں بے حد دبلی پتلی تھی دوسرے معنوں میں بالکل سوکھی سڑی، لہٰذا جتنی بار غزل کی تان اٹھانے کی کوشش کرتی، پورے قد سے لہرا جاتی تھی۔ آواز میں دم تھا نہ کلام میں۔۔ سامنے مجمع ایک افراتفری کا شکار۔ چلتے وقت عصمت آپا کے چہرے پر نظر ڈالی۔ لگا ابھی مجھے کچا چبا جائیں گی۔ سہم کر واپس امی کے برابر والی کرسی پر آ بیٹھی جو ہم نے ہال میں داخل ہوتے ہی اپنی ذاتی محنت سے بمشکل تیسری یا چوتھی قطار میں حاصل کی تھی۔ اس کے بعد کس نے کیا پڑھا ذرہ برابر یاد نہیں۔ بس عصمت چغتائی کے چند صدارتی کلمات یاد ہیں۔

 انہوں نے فرمایا۔ ” یہ جو محفل ہے اسے محفل مشاعرہ کہنا کفرہے۔ یہ تو مجھے کسی منگنی،  شادی یا مونڈن کی رسم معلوم ہورہی ہے۔ بھئی مجھے تو سخت کوفت ہوئی ی۔ یہ عورتیں شاعری کررہی تھیں یا پکوڑے تل رہی تھیں۔ افوہ! اس شاعری سے تو کہیں اچھی ان سموسوں اور پکوڑوں کی خوشبو ہے۔ مجھے تو سخت بھوک لگ آئی ہے۔۔ “

 آگے میری سماعت جواب دے گئی۔ لگتا تھا عصمت چغتائی براہ راست مجھ سے مخاطب ہیں۔ میرے کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔ معلوم نہیں کب مشاق ریفری کی طرح سلطانہ مہر نے معاملہ ہاتھ میں لیا اورچائے سموسوں کی خوش خبری کے ساتھ مشاعرے کے اختتام کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی سارے کا سارا لال پیلا ہجوم اسٹیج پر پل پڑا۔ امی نے ٹہوکہ دیا۔ دوڑو۔ میں دوڑ پڑی۔۔ وہاں فوٹو سیشن ہو رہا تھا۔ گردن اٹھا اٹھا کے پیچھے کھڑے ہونے کی کوشش کی۔۔ پھر آٹو گراف لینے کے لئے ہزاروں دھکے مکے کھائے اور امید تھی کہ کچھ نیک کلمات لکھ دیں گی مگر وہ بی بی ایسی سفاک اور سنگ دل کہ یہ بتانے پر بھی کہ میں نے ابھی ابھی غزل پڑھی ہے کچھ لکھ دیجئے ان کے کان پر جوں نہ رینگی اور سوائے تاریخ اور نام کے انہوں نے کچھ لکھ کر نہ دیا بلکہ میری طرف دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ اس معاملے میں میں نے قصور وار اس کمبخت ” ترنم “کو ٹہرایا جس کا لاحقہ مہر باجی نے میرے نام کے ساتھ لگایا تھا۔ میں نے سوچا ترنم والی بات ان سے پوچھوں لیکن اس میں خطرہ یہ تھا کہ آئندہ سفارش بھی نہیں کریں گی۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4