دیامر کے پہاڑوں سے ابھرتا فتنہ



ان دنوں گلگت بلتستان عالمی میڈیا اور ملکی خبروں کی مسلسل ہیڈ لائن میں ہے۔ یہ نام گلگت بلتستان کے قدرتی حُسن اور سیاحوں کے لئے جنت کے حوالے نہیں بلکہ دیامر میں شدت پسندوں کی جانب سے برپا فتنہ کی وجہ سے ہے جس کے تحت 12سے زائد لڑکیوں کے سکول جلا دیے گئے ہیں۔ دلیل وہی طالبان کی آئیڈیالوجی کہ لڑکیوں کی تعلیم حرام ہے۔
کہانی بہت دراز ہے دیامر کے واقعہ کو سمجھنے کے لیے امریکہ کی سرپرستی میں لڑی جانے والی ’’افغان جہاد‘‘ کو سمجھنا ہوگا۔روس گرم پانی کے تعاقب میں افغانستان میں داخل ہو چکا تھا اور یہی لمحہ تھا جس کا امریکہ کو انتظار تھا وہ ویت نام میں اپنی شکست کا داغ مٹانے کے لئے عرصے سے موقع کی تلاش میں تھا۔ پاکستان اقتدار پر جنرل ضیاء الحق قابض تھے جنہوں نے اسلامی نظام نافذ کرنے کا شوشہ چھوڑا اور دس سال تک خوف و جبر سے حکومت کی، باقی سب تاریخ ہے۔ یہ سب پہلے سے ہی ڈیزائن کردہ تھا۔ امریکہ اور دنیا کی Capitalistحکومتوں کو روس کے اشتراکی نظام کے پھیلاؤ کا خطرہ تھا۔ اور ایشیاء کی جانب اس کی پیش قدمی روکنا مقصود تھا۔ سوشلزم کے پھیلاؤ پر سدسکندری باندھنے کے لیے سی آئی اے کی نگرانی میں ریڈیکل اسلام کو بڑھاوا دیا گیا ، ملک بھر کے مدرسوں کے طلباء کی برین واشنگ کی گئی اور جہادی جتھے تیار کر دیے گئے۔ محاذ گرم تھا امریکہ نے ڈالر، سٹنگر میزائل اور اسلحے کا بندوبست کر دیا جبکہ پاکستان کی حکومت اور اسٹبلشمنٹ نے ایک خاص قسم کی ’’مذہبی فکر ‘‘ کو اس معرکے کیلئے بطور ہتھیار استعمال کیا جس کا تفصیلی تذکرہ Eaman Murphyکی تدوین یافتہ کتاب “The making of Terrorism in Pakistan”اور “The History of Terrorism from antiquity to ISIS” میں کیا گیا ہے۔
غرض ملک میں جہادی کلچر کو فروغ دینے کیلئے مدرسوں کی سرپرستی کی گئی اور ذہن سازی کیلئے خاص قسم کا لٹریچر تیار کر دیا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرسید احمد خان، قائد اعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر محمد اقبال کے روشن افکار پس پشت چلے گئے۔ نیز جمہوریت، رواداری اور مذہبی ہم آہنگی انتہا پسندی اور تنگ نظری کی نذر ہوگئے۔ دنیا بھر سے جہادی جمع کر دئے گئے اور انہیں Safe Heavensفراہم کی گئی جہاں وہ آزادی سے نئی نسل کو جسے اقبال ’’عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں۔نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں‘‘ کے مصداق گردانا تھا افغانستان اور سابقہ فاٹا کے پہاڑوں اور ویرانوں میں امریکہ کی سرپرستی میں لڑی جانے والی جہاد کی نذر کرتے گئے اور جو زندہ رہ گئے وہ پاکستان کے جمہوری نظام کو بدی کا نظام اور جدید تعلیم کو مغرب کا فتنہ قرار دے کر اس کی بیخ کنی کے لیے کمر بستہ ہوگئے جس کا خمیازہ قوم کو سکولوں، مساجد، امام بارگاہوں اور معصوم عوام پر خود کش حملوں اور دھماکوں کی شکل میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔


گلگت بلتستان جغرافیائی لحاظ سے چین، انڈیا اور سنٹرل ایشیا کے ساتھ مشترکہ سرحدیں رکھتا ہے اور زمانہ قدیم سے اسے اہمیت حاصل ہے۔ جب برصغیر میں تاج برطانیہ کا جاہ و حشم عروج پر تھا تو دوسری جانب زار روس اپنی طاقت کے گھمنڈ میں ہمسایہ کے علاقوں کو نگلتا آگے بڑھ رہا تھا اس دوران گلگت بلتستان کے پہاڑی درّوں اور دور افتادہ وادیاں روس اور برٹش انڈیا کے کارندوں، جاسوسوں اور تحقیق کاروں کا سوانگ بھر کر آنے والوں کی رزم گاہ بن گیا تھا جسے تاریخ میں ’’گریٹ گیم‘‘ سے یاد کیا جاتا ہے۔
ضیاء الحق کے دور حکومت میں گلگت بلتستان میں بھی ریڈیکل اسلام کے پھیلاؤ کے لیے لشکر کشی کی گئی اور واقفان حال کا کہنا ہے کہ دیامر کے پہاڑوں میں بھی شدت پسندوں کے لیے “Sanctuaries”بنائی گئی جہاں سے تازہ خون افغان جنگ کے لیے تیار کرکے بھیجا جاتا تھا بعد ازاں افغانستان سے طالبان حکومت، جسے “Strategic Assets” قرار دیا جاتا تھا کے خاتمے کے بعد جہادی کمانڈر پاکستان کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور دیامر میں بھی ان کی موجودگی کا شور رہا۔ لیکن بڑے عرصے سے چشم پوشی کی گئی۔ دیامر کا علاقہ ایک بار پھر 2003ء میں اس وقت ملکی اور عالمی خبروں کی زینت بنا جب تربیت یافتہ دہشت گردوں نے ایک منظم پلان کے تحت ننگا پربت بیں کیمپ پر دس (10)کوہ پیماؤں پر حملہ کر دیا اور انہیں بے دردی سے قتل کیا۔ یہ حملہ کوئی عام حادثہ نہیں تھا روز مرہ کی دہشت گردی سے ہٹ کر کوہ پیماؤں پر حملہ شدت پسندوں کی طرف سے اپنی موجودگی اور طاقت کا عملی اظہار تھا۔ سلسلہ اسی پر موقوف نہیں رہا۔ لولوسر اور چلاس کے ایریا میں بسوں سے نہتے اور بے گناہ مسافروں کو اتار کر باقاعدہ شناخت پریڈ کے بعد خون کی ہولی کھیلی گئی۔ سوشل میڈیا پر موجود اس اندوہ ناک سانحہ کی ویڈیو کلپ میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ایک مذہبی فکر کے حامل لوگوں کو چن چن کر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ لیکن حکومت ان کے سامنے بے بس اور خاموش نظر آئی۔


اب جبکہ گلگت بلتستان سے سی پیک جیسے اہم منصوبے کا آغاز ہونا ہے تو ایسے موقع پر ایک بار پھر یہ علاقہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ کیا یہ کسی نئے گریٹ گیم کا حصہ تو نہیں؟ اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں نے گرلز سکولوں کو جلانے اور دھماکے سے اڑانے کے علاوہ اپنے بازوؤں کی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے سول جج کی گاڑی اور ڈی سی چلاس کے گھر پر بھی فائرنگ کی ۔ جبکہ اس واقعہ کے اگلے دن کارگاہ نالے میں متعین پولیس چوکی پر حملہ کرکے تین پولیس جوانوں کو شہید کیا ۔ اس واقعے سے گلگت بلتستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ خود وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے وائس آف امریکہ اور دیگر میڈیا کو انٹرویو میں دیامر حادثہ میں تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کا ذکر کیا ہے جو کہ پورے پاکستان میں دہشت گردی کی ذمہ داریاں بڑے فخر سے لیتی ہے اور اقوام متحدہ کی جانب سے Bannedلسٹ میں شامل ہے۔عوام دیکھ رہے ہیں کہ ان شرپسندوں کو’ ’ردالفساد‘‘ جیسے کسی آپریشن کے ذریعے انجام تک پہنچایا جاتا ہے یا کہ جرگوں اور کمیٹیوں کے نہ ختم ہونے والے چکر میں ڈال کر مٹی ڈالی جاتی ہے۔ دوسری جانب انسانی حقوق، حکومتی بے اعتدالیوں، مسائل کی نشاندہی کرنے اور عوام کی منشا و مشاورت کے بغیر بنائے جانے والے آرڈر 2018ء پر تنقید کرنے والوں کے لیے شیڈول فور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).