حکومت کی بْو ہوتی ہے


’’حکومت کی بْو ہوتی ہے۔ جو پھیلتی رہتی ہے۔ مشامِ جاں میں سوئیوں کی طرح چبھتی ہے۔ شریانیں اڈھیر دیتی ہے۔ نسلیں پھاڑتی ہے۔ سوچ مفلوج کرتی ہے۔ ضمیر کا گلا گھونٹتی ہے۔ قوی مضحمل کرتی ہے۔ حکومت مردار جسم کی طرح ملک کے تمام شہروں، گاؤں قصبو ں، کھلیانو ں، صحراؤں، پہاڑوں، ندیو ں، دریاؤں اور سمندرو ں میں پڑتی ہوتی ہے۔ کٹی کھوپڑیو ں اورپھٹے پیٹ کے ساتھ، جس کی انتڑیو ں میں گدھ چونچوں اور پنجوں کے نشترچبھو کر مرا ہوا فضلہ ہو امیں اچھالتے ہیں۔ حکومت کی بو ہوتی ہے۔ جو آتی ہے۔ کھانے نہیں دیتی، سونے نہیں دیتی، جینے نہیں دیتی۔،،

عید پر اس سے ملتے جلتے مناظر سب کی نظروں سے گذرے ہو گے۔ میرے شہر سے بھی یہی بو آ رہی ہے۔ ذہن تک کو جھنجوڑ رہی ہے۔ کل سے یہ سب جملے میری یادداشت میں بے خود رقص کررہے ہیں۔ حکومت کی بو ہوتی ہے۔ اس بو کے خالق ڈاکٹر وحید احمد ہیں۔ جنہو ں نے ایک عام آدمی کی نسبت زیادہ قریب سے اس بو کو محسوس کیا ہے۔ یہ بو ان کے ناول ’’مندری والا،، میں سمائی ہوئی ہے۔

ناول میچورٹی کی ایک خاص سطح کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جہاں خاک اور خمیر ایک دکھائی دیتے ہیں۔ جہا ں تاریخ برہنہ دکھائی دیتی ہے۔ جس کو انہو ں نے ریشم و اطلس کا لبادہ نہیں پہنایا۔ جو بو آتی ہے اس کو ویسے ہی پیش کر دیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی دیوانہ جنونیت میں پردے چاک کرتا چلا جاتا ہے۔ جس سے اپنا ہی چہرہ دیکھنا دشوار ہو گیا ہے۔

’’قدرت نے انہیں کمیونسٹ ہونے کے باوجود برابری کی بنیاد پر اعضاء عنایت نہیں کئے تھے۔ شاید ضرورت کے مطابق دئیے تھے۔ چنانچہ وہ نظریاتی اعتبار سے کمیونسٹ اور جنسی اعتبار سے سوشلسٹ تھے۔ اذیت کے نت نئے طریقے سوچتے ہوئے ذہین، اسلحے سے بھری چھولداریاں، بارودی سرنگیں بچھاتے دستے، نشے میں اپنی عورتوں کی تصویریں نکال کر روتے ہوئے عشاق، لاشیں ٹھکانے لگاتے ہوئے خاکی گورکن، رنگو ں کی پھواریں، دماغ میں ہولی کھیلتی ہیں، ،

’’پکی عمر کے لوگ آخر خود کش حملہ کیوں نہیں کرتے، ،

’’نہیں اجتماعی موت اجتماعی ہے۔ جسم مل کر جھڑتے ہیں اور روحیں مل کر اْٹھتی ہیں، ،

کتنا خوبصورت منظرہے۔ موت کی ساری تنہائی ہی ختم کر دی ہے۔ یہ ناول روایتی نہیں۔ قاری کو ا س میں غیر روایتی پن کی بو آسکتی ہے۔ اس لئے اس کو مروجہ پیمانو ں پہ پرکھنا دشوار ہے۔ اصل تخلیق یوں بھی روایت سے غیر روایتی ہو تی ہے۔

حکومت سے بو آتی ہے۔ مگر ہم اس کے عادی ہو گئے ہیں۔

’’کئی کامیاب مرد اسمبلی ممبروں کے پیچھے کسی خاتون اور کامیاب خاتون کے پیچھے کسی مرد کا ہاتھ نظر آتا ہے تو چہرو ں پہ معنی خیز مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے۔ شرفا بھی اسمبلی ممبر منتخب ہوگئے مگر ان کی حالت دیدنی ہے۔ وہ اس کھیل میں پنجابی کی ایک کہاوت کے مصداق گمشدہ گائے کی طرح ادھر اْدھر دیکھتے رہتے ہیں، ،

’’ہمارے قومی ادارے صحرائی مزار کے کیکر پر بندھے پارچوں کی طرح ہیں۔ پہلے جن کا رنگ اڑا اور اب دھجیا ں بکھر رہی ہیں۔ ہمارے ملک کی سرحدوں میں ریت ہے۔ بنیادوں کے پاؤ ں اْکھڑتے ہیں۔ ملکی سیاست دورافتادہ اور غریب گاؤ ں کے ا میر جاگیر اور وڈیرے کی بیٹھک ہے۔ جہا ں کارندوں کے ذریعے غریبو ں سے لوٹا گیا سرمایہ اور بنیو ں سے بھیک لیا گیاقرضہ طوائفوں کے سر پر اڑیا جاتا ہے۔ ہمارے جمہوری معمارغیرپیشہ وارانہ اور بے ہنر ہیں۔ کئی عشرو ں سے تخریبی تعمرات میں مصروف ہیں۔ ان کے ہاتھو ں میں کجی ہے۔ عمارت کی بنیاد ٹیڑھی رکھتے ہیں۔ ، ، ۔ ’’جن معمارو ں کو واجبی ہنر آتا ہے وہ عمارت کو فالٹ لائن پر بنا کر زلزلے کا انتظار کرتے ہیں۔ یا دریا کنارے دیوار اٹھا کر سیلاب کا۔ سیاست دان اور فوجی میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلتے ہیں۔ اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ اس کھیل میں عوام کو داد طلب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ صدر اور وزرائے اعظم قرآن اورحدیث سے فال نکالتے ہیں۔ عوامی خطاب سے پہلے ان آیات کو منتخب کرتے ہیں جو ان کے عہدوں کی طوالت پر خدائی مہر ثبت کریں۔ یہا ں اتناگھناؤنا مذہبی کھیل کھیلا جارہا ہے کہ تاریخ ِعالم منہ چھپانے کے لئے اندھیرا ڈھونڈتی ہے۔ عجب حادثہ ہے۔، ،

یہ ناول بھی اک عجب حادثہ ہے۔ اس با شعو ر طبقے کے دل کی آواز ہے۔ جس کی آواز حکومتی گمبھیرتا میں سنائی ہی نہیں دیتی۔ جس کی سوچ کسی کی سوچ سے میل ہی نہیں کھاتی۔ جو حقیقت میں مستقبل کو کسی ولی کی طرح اپنی بصارت سے دیکھ رہا ہو تا ہے۔ جس کے لئے غالب نے فرمایا تھا

ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے۔۔۔

چلئے ہم کو کیا، ہم اپنے گھروں کے دروازے بند کر کے، انہیں معطر کر کے، اپنے گھرو ں کے لان اور چھتو ں پہ باربی کیو پارٹیاں انجوائے کرتے ہیں کہ ابھی تو عید کا دن ہے۔ دماغ پہ چربی چڑھ جانے کا یہ فائدہ تو ہو گا کہ ایسے خیالات منتشر ہو جائیں گے۔ پھر تمام شہرو ں، گاؤ ں، قصبو ں، کھلیانو ں، صحراؤ ں، پہاڑوں، ندیو ں، دریاؤ ں اور سمندرو ں سے جتنی مرضی بو آتی رہے۔ کیا فرق پڑتا ہے۔

نوٹ: وحید اختر گزشتہ پنتیس برس سے ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ 1994 اور دوسرا مجموعہ 2002ء میں شائع ہوا۔ وحید اختر کا پہلا ناول “زینو” 2003ء میں شائع ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے یہ ناول لکھنے میں پانچ برس صرف کئے تھے۔ “زینو” کا ترجمہ سویڈش زبان مین بھی ہو چکا ہے۔ مندری والا 2012ء میں شائع ہوا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).