دی پارٹی از اوور


مجھے کالم نگاری کی طرف برادرم سہیل وڑائچ نے مائل کیا۔ اُن کے ساتھ شناسائی کی ابتدا 1993ء کے دوران استنبول میں ہوئی۔ میں اُن دنوں قونصل جنرل تعینات تھا۔ نئے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی حکومت بنا چکی تھی۔ کشمیری مسلمانوں کی حالت ِ زار پر دُنیا کی توجہ حاصل کرنے کے لئے ایک وفد ترکی بھیجا گیا۔ برادرم سہیل وڑائچ اُس وفد کے ساتھ بطور صحافی تشریف لائے۔ وفد میں نوابزادہ نصر اللہ خاں ، سردار ابراہیم مرحوم اور شفقت محمود شامل تھے۔

واپڈا کی سربراہی کے دوران بین الصوبائی سمجھوتے کو ممکن بنانے کی خاطر کالا باغ ڈیم کے منصوبے پر وضاحتی کالم لکھے تو سہیل وڑائچ نے میری بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ وہ ادارتی صفحے کے انچارج تھے اور مسلسل چھبیس دن تک میرے کالم چھاپتے رہے۔ رابطہ ہوا تو ہم دونوں نے ’’ایک دن کالا باغ ڈیم کے ساتھ‘‘ گزارنے کا پروگرام بھی بنایا۔ اِس کی نوبت نہ آئی۔

میں واپڈا کی سربراہی سے مستعفی ہوا تو اپنے پہلے عشق، ’’فکشن رائٹنگ‘‘ کی طرف توجہ دی۔ چند ماہ بعد جمہوری پبلی کیشنز نے میرے افسانوں کا مجموعہ ’’دائروں کے درمیاں‘‘ شائع کیا تو کتاب سہیل وڑائچ کو بھجوائی۔ وہ اُن دنوں ایک او میڈیا گروپ میں شامل ہو چکے تھے۔

جہاں اُنہیں کالم لکھنے کے لئے مائل کیا جا رہا تھا اور دُوسری طرف سہیل وڑائچ مجھے کالم لکھنے پر اُکسا رہے تھے۔ یوں ہم دونوں نے تقریباً ایک ساتھ مارچ 2017ء میں لکھنے کا آغاز کیا۔ وہ دوبارہ جنگ گروپ میں آئے تو کچھ دیر بعد میں بھی اِس ادارے میں شامل ہو گیا۔ اِس شمولیت پر حسن نثار نے جس طرح مجھے ویل کم کہا وہ میرے لئے باعث فخر ہے۔

کالم نگاری ایک مشکل کام ہے۔ افکارِ پریشاں میں بکھری ہوئی معلومات کو وحدت خیال کی حُرمت قائم رکھتے ہوئے، اخباری کالم کے کوزے میں بند کرنا آسان نہیں۔ برادرم سہیل کی اوّلین تحریروں سے اندازہ ہوا کہ وہ ایک تجرباتی دور سے گزر رہے ہیں۔

اپنے کالموں پر مشتمل کتاب کا ابتدائیہ لکھتے ہوئے اُنہوں نے اِس کیفیت کو اس طرح بیان کیا، ’’لکھنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ کچھ ہٹ کر کیا جائے تو بہتر ہو گا۔ اِس لئے مواد اور ہیئت کے تجربے کرنے شروع کئے۔ تمثیل، ڈائیلاگ، خط نویسی اور دوسرے اسالیب کو مدنظر رکھا، کردار تخلیق کئے کہ سخت معاملات اور حالات کھلے کھلے بیان کرنے کے بجائے رمز اور اشارے میں بات کی جائے … ہر تحریر میں کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی ٹھانی۔

اُن کی کتاب ’’دی پارٹی از اوور‘‘ سال بھر میں لکھے ہوئے کالموں کا مجموعہ ہے۔ کتاب چھپی تو بہت مقبول ہوئی۔ بطور کالم نگار جو بات اُنہیں دُوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ علامتی کرداروں کا استعمال اور پیش بینی کی صلاحیت ہے۔ یہ صرف اُس لکھاری کو نصیب ہو سکتی ہے جس کی رگوں میں صحافت، خون کی طرح دوڑ رہی ہو۔

کالم تو میں بھی لکھتا ہوں مگر تربیت کے لحاظ سے صحافی نہیں۔ چالیس سال تک سرکاری اُمور کی انجام دہی کے بعد اگر کوئی صلاحیت حاصل کی ہے تو اُس کا تعلق انتظامی اُمور سے جُڑا ہے۔ انتظامی شعبہ، صحافت سے بہت مختلف ہے۔

اِس دشت کی سیاحی کے دوران علم ہوا کہ سیاست کسی پارٹی کو اقتدار تو سونپ سکتی ہے مگر اُس کی کارکردگی سیاست سے نہیں بلکہ طرزِ حکمرانی پر منحصر ہو گی۔ حکمرانی کے دو اہم پہلو ہیں۔ عوام حق حکمرانی عطا کرتے ہوئے، حکومت کو ٹیکس لگانے کی اجازت دیتے ہیں۔ کس سے کیا وصول کرنا ہے، یہ ایک پہلو ہے۔ دُوسرا پہلو جمع شدہ رقم کے خرچ میں ترجیحات کا تعین ہے۔

ہمارے ہاں صحافت کی توجہ، سیاست سے نہیں ہٹتی۔ صحافی طرزِ حکمرانی کے بجائے، سیاست کا تجزیہ کرنے میں ماہر ہو چکے ہیں۔ اِس میدان میں اگر صحافی کے پاس پیش بینی کی صلاحیت ہو تو سونے پر سہاگہ۔ برادرم سہیل نے ایک سال پہلے مسلم لیگ حکومت کے خاتمے کی خبر دی۔

اُسے شاعرانہ زبان میں، ’’دل کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا کہ شام گیا‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ برادرم سہیل نے صبح شام کی بات ہی نہیں کی۔ ایک سال پہلے ہی بتا دیا کہ جولائی اور اگست میں لیگی حکومت کی آخری رسومات ادا ہوں گی۔

اُن کی پیش گوئی درُست ثابت ہوئی۔ اب عمران خان وزیرِ اعظم کے عہدے کا حلف اُٹھا چکے ہیں۔ اُن کے حامیوں کی آنکھوں میں توقعات کا الائو روشن ہو چکا ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ 1997ء میں نواز شریف وزیرِ اعظم بنے تو اُن کی حکومت کے بارے میں خوش گمانی انتہا پرتھی۔ ’’قرض اُتارو، ملک سنوارو‘‘ سکیم میں لوگوں نے دل کھول کر حصہ لیا۔ ’’لوٹی ہوئی دولت واپس لانے‘‘ کا عزم بھی بار بار دہرایا گیا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت کے حامیوں کی توقعات اور انتظامیہ کی کارکردگی کے درمیان فرق بڑھتا گیا۔ ایٹمی دھماکے سے پیدا ہونے والا جوش و خروش ٹھنڈا ہوا تو اقتصادی پابندیوں نے رنگ دکھایا۔ بگڑتے ہوئے معاشی حالات نے عوامی حمایت پر منفی اثر مرتب کیا۔ یہی وجہ تھی کہ پرویز مشرف کے مارشل لاء پر، عوام کی طرف سے مخالف ردِ عمل نظر نہیں آیا۔

آج کل ہر شخص کے ذہن پر ایک ہی سوال ہے۔ کیا عمران خان کی حکومت لوگوں کی اُمید پوری کرتے ہوئے اپنے وعدے نبھا سکے گی۔ اِن سوالوں کا جواب تو وقت ہی دے گا۔ کابینہ کی تشکیل ہو چکی ہے۔ اِس میں شامل بہت سے اراکین کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ شفقت محمود میرے سینئر کولیگ، انتظامی تجربہ حاصل کرنے کے بعد سیاست میں آئے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر بنے اور حکومتی ذمہ داریاں ختم ہوئیں تو صحافت سے منسلک ہو گئے۔

دس سال پہلے میں وفاقی سیکرٹری پٹرولیم تھا۔ ایک معاملے پر حکومت ناراض ہوئی تو مجھے گھر بیٹھنے کا حکم صادر کر دیا۔ چھ سات ماہ او ایس ڈی رہا۔ اُن دنوں شفقت محمود نے اپنے کالم میں میرے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے جن پر کوئی بھی سرکاری افسر فخر کر سکتا ہے۔ اُن کے حسن سلوک نے اِس مشکل دور میں میری ہمت بندھائے رکھی۔ وہ اب نئی کابینہ کا حصہ ہیں اور اُمید ہے کہ اُن کی انتظامی صلاحیت کو بہتر طور پر استعمال کیا جائے گا۔ میری بہترین تمنائیں اُن کے ساتھ ہیں۔

محترم شاہ محمود قریشی، کسی زمانے میں میرے وزیرِ خزانہ تھے۔ بعد ازاں 2011ء کے دوران بطور سیکرٹری تجارت، اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ایک دفعہ ہمارا دو رُکنی وفد چار دن میں یورپ کے پانچ ممالک کا دورہ کرنے گیا۔ مقصد جی ایس پی پلس کے لئے لابنگ تھا۔ وہ ایک متحرک وزیرِ خارجہ تھے اور پاکستان کا موقف بہت اچھی طرح بیان کرتے رہے۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ دورہ نہ کیا جاتا تو پاکستان کو جی ایس پی پلس کی تجارتی سہولت نہ ملتی۔

اِسی طرح جناب رزاق دائود اور ڈاکٹر عشرت حسین کے ساتھ بھی رابطے میں رہا۔ سیکرٹری تجارت اور چیئرمین واپڈا کی تعیناتی کے دوران جناب رزاق دائود صاحب سے ملاقات رہی۔ جناب عشرت حسین اور راقم ہندوستان کے ساتھ تجارتی روابط کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک رہے۔ اِسی طرح ارباب شہزاد میرے کولیگ اور بہت اچھی شہرت کے مالک ہیں۔

پی ٹی آئی نے صوبہ کے پی کے میں حکومت بنائی تو اُنہیں چیف سیکرٹری مقرر کیا۔ اُن کی راہ میں دُشواریاں حائل ہوئیں تو عمران خان کو خط لکھ کر صوبائی انتظامیہ سے علیحدہ ہو گئے۔ عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کی کارکردگی کیسی رہے گی، اِس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ اِس قسم کے اندازے صرف صحافی لگا سکتا ہے۔ بیوروکریٹ کی تربیت مختلف ہوتی ہے۔ وہ ریٹائر ہو کر بھی پیش بینی سے خائف رہتا ہے۔

مجھے روزنامہ جنگ میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہوئے، بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ قارئین کا ردِ عمل بہت کچھ بتا دیتا ہے۔ اگر لکھاری خود اپنا محاسبہ کرے تو اُس کی تحریر میں توازن قائم رہتا ہے۔ ادارۂ جنگ نے ہمیشہ میری عزت افزائی کی۔ اُن سے درخواست ہے کہ ہفتہ وار کالم نگاری کی ذمہ داری سے مجھے چند ماہ کے لئے رخصت عنایت کر دیں۔

اِن شاء اللہ نئے سال جنوری 2019ء سے یہ سفر دوبارہ شروع ہو گا۔ اِس وقفے میں فکشن رائٹنگ پر توجہ دینا چاہتا ہوں۔ اِس دوران کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے، اُس کا اندازہ محترم سہیل وڑائچ کے کالموں سے ہوتا رہے گا۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood