بیمار معیشت اور لایعنی سیاسی نعرے


\"mujahidہمارے سیاسی لیڈر بدستور قومی مسائل حل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے اور نعروں کے ذریعے کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس دوران ملکی معاشی صحت کے بارے میں سامنے آنے والی معلومات کے مطابق حکومت اس سال بھی قومی پیداوار میں اضافہ کا ٹارگٹ پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق رواں مالی سال کے لئے قومی پیداوار میں ساڑھے پانچ فیصد اضافہ کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا تھا۔ اگرچہ عالمی مالیاتی فنڈ IMF نے یہ ہدف ساڑھے چار فیصد مقرر کیا تھا۔ تاہم حکومت 2جون کو ملکی اکنامک سروے میں قومی پیداوار میں 4.7 فیصد اضافہ کا اعلان کرے گی۔ ماہرین کے نزدیک یہ نتیجہ اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ملکی پیداوار میں حقیقی اضافہ چار فیصد یا اس سے کچھ کم رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت مسلسل تین برس میں قومی پیداوار میں اضافہ کے اہداف پورے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس دوران ملک کے سیاستدان حقیقی مسائل پر غور کرنے کی بجائے الزام تراشی اور حکومت بنانے اور گرانے کی سیاست میں مصروف ہیں۔

رواں مالی سال میں قومی پیداوار میں اضافہ کا ہدف پورا نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ زرعی پیداوار میں اضافہ کی بجائے کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس کا اہم سبب کپاس کی خراب فصل بتائی جا رہی ہے۔ لیکن حکومت کے ناقدین کا خیال ہے کہ نواز شریف حکومت کے دور میں زراعت کا شعبہ عدم توجہی کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے کئی دہائیوں بعد زرعی شعبہ کی پیداوار میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ صنعتی شعبہ میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے لیکن یہ بھی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ قومی پیداوار میں اصل اضافہ سروسز شعبہ میں دیکھنے میں آ یا ہے، جو قومی پیداوار میں ہونے والے اضافہ کے دو تہائی کے برابر ہے۔ اس میں بھی حکومت کی طرف سے سرمایہ کاری اور ملازمتوں کی فراہمی کی وجہ سے یہ اضافہ ممکن ہوا ہے۔ تاہم ترقی کی اصل علامت صنعت و زراعت کے علاوہ تجارتی شعبہ میں اضافہ، برآمدات کے فروغ اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے ذریعے سامنے آتی ہے۔ ان تمام شعبوں میں پاکستان کی معیشت زبوں حال رہی ہے۔ ملک کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ حکومت نے مالی سال کے دوران دس لاکھ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ منصوبہ بری طرح ناکام ہوا ہے اور گزشتہ مالی سال کے دوران ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اسی لئے حکومت کے اخراجات کا انحصار بیرونی قرضوں پر ہے۔ حکومت پاکستان نے گزشتہ دس برسوں میں اوسطاً 5 ارب ڈالر سالانہ قرض حاصل کیا ہے۔ اس طرح 2005 سے 2015 تک ملک کے قرضوں میں 49 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت ملک پر 70 ارب ڈالر بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے۔ موجودہ معاشی صورتحال میں آئندہ چار برسوں کے دوران ملک پر قرضوں کا بوجھ ایک سو ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔

قومی پیداوار میں اضافہ میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے پاکستان کے لئے سخت اور مشکل معاشی حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ ملک ہر سال پانچ سے چھ ارب ڈالر کا نیا قرضہ لیتا ہے۔ اس میں سے نصف قرضوں پر سود کی ادائیگی اور باقی نصف قومی بجٹ کا خسارہ پورا کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ اس تکلیف دہ صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے قومی پیداوار میں اضافہ ضروری ہے۔ ملک کی آبادی اور کام کے خواہشمند نوجوانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق اس بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے قومی پیداوار میں کم از کم 7 فیصد اضافہ کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اضافہ کی موجودہ مایوس کن شرح کے حساب سے قومی پیداوار میں اضافہ کی ضرورت بڑھتی جائے گی لیکن اس کے امکانات کم ہوتے رہیں گے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے معیشت میں فوری طور پر نئی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ رواں مالی سال کے دوران بیرونی سرمایہ کاری کی شرح ایک ارب ڈالر سے کم رہی ہے۔ پاکستان کے اہم حلیف ملکوں امریکہ اور سعودی عرب نے پاکستان میں سرمایہ لگانے کی بجائے، سرمایہ نکالنے کے اقدامات کئے ہیں۔

حکومت قومی پیداوار میں 4.7 فیصد اضافہ کا جو اعلان کرنے والی ہے، اس کے بارے میں بھی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ہدایات پر اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے سامنے لایا جائے گا۔ اخبارات کی اطلاعات کے مطابق 18 مئی کو وزیر خزانہ اور اعداد و شمار بیورو کے سربراہ آصف باجوہ کے درمیان ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں قومی پیداوار میں اضافہ کی شرح کا تخمینہ 4 فیصد بتایا گیا تھا۔ یہ شرح اضافہ آئی ایم ایف IMF کے مقرر کردہ ہدف سے بھی کم تھی۔ وزیر خزانہ نے اعداد و شمار بیورو کو اعداد و شمار میں تبدیلیاں کر کے قومی پیداوار کی بہتر صورتحال سامنے لانے کی ہدایت کی تھی۔ اس نئی شرح کو مستقبل کے معاشی امکانات کی رپورٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔ تاہم اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ ملک کی قومی پیداوار میں حقیقی اضافہ ساڑھے تین سے چار فیصد تک رہا ہے۔ یہ تشویشناک پیداواری صورتحال ہے۔ اس مالی سال کے دوران پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ پر بھی عمل شروع ہوا ہے۔ اس منصوبہ کے تحت آئندہ دس برس میں چین پاکستان میں 46 ارب ڈالر سرمایہ کاری کرے گا۔ تاہم منصوبہ کے پہلے سال کے دوران منصوبہ کے مطابق چین سے سرمایہ کی آمد نوٹ نہیں کی گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ملک کی حکومت اس حوالے سے مناسب وقت پر ضروری سیاسی اور انتظامی فیصلے کرنے میں ناکام رہی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور مہنگائی کی شرح متوقع 6 فیصد سے کم رہنے کی خبر دی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکومت کا خسارہ بھی کم ہوا ہے۔ لیکن سرمایہ کاری کی عدم موجودگی، برآمدات میں کمی اور ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہونے کے سبب آئندہ برس افراط زر میں اضافہ کا امکان ہے۔ پاکستان کے لئے بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے ترسیل زر میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں کم سطح پر رہی ہیں۔ ان دونوں عوامل میں منفی تبدیلی کا پاکستانی معاشی صحت پر برا اثر مرتب ہو سکتا ہے۔ معیشت میں نمو اور اقتصادی بہتری کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔ حکومت مثبت ہتھکنڈے استعمال کر کے اقتصادی ترقی کا ڈھنڈورا ضرور پیٹتی ہے لیکن اسے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے مسلسل بیرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ اس اقدام سے وقتی ریلیف تو مل جاتا ہے لیکن وسیع المدت تناظر میں قرضوں کا یہ بوجھ ملکی معیشت کے لئے ناقابل برداشت ہو جائے گا۔ کیونکہ یہ قرضے صرف سود کی ادائیگی اور بجٹ خسارہ پورا کرنے پر صرف ہو رہے ہیں۔ پیداواری منصوبوں میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔

ملک میں معاشی بہتری کے لئے سکیورٹی کی صورتحال میں بہتری، سیاسی استحکام، مرکز اور صوبوں کے خوشگوار تعلقات اور حکومت کے وسائل میں مسلسل اضافہ ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں مردم شماری کروانا بے حد اہم ہے کیونکہ اسی کی بنیاد پرہی قابل عمل اقتصادی منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ اور اسی کی روشنی میں چھوٹے صوبوں کو وسائل کی تقسیم کے مسئلہ پر شکوک و شبہات کو رفع کیا جا سکتا ہے۔ حکومت بوجوہ ان تمام شعبوں میں قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے۔ سکیورٹی کی بہتری کے لئے قومی ایکشن پلان پر مناسب طریقے سے عملدرآمد نہیں ہو سکا اور نہ ہی دہشت گردوں کے مالی وسائل کا راستہ روکنے کے لئے مناسب قانون سازی کی جا سکی ہے۔ حکومت کو مسلسل سیاسی چیلنج کا سامنا ہے اور ملک میں یہ مباحث ہوتے رہتے ہیں کہ کیا موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کر سکے گی یا نہیں۔

پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد جو سیاسی بحران سامنے آیا ہے، اس میں حکومت اور اپوزیشن کے سیاستدانوں کی پوری توجہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر مبذول ہو چکی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کل مینگورہ سوات میں بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ لوگ نیا صوبہ بنانے کی بجائے سڑکوں پر آنے کی بات کرتے ہیں۔ اس لئے میں سڑکیں اور شاہراہیں بناؤں گا تا کہ جن کی قسمت میں سڑکوں پر آنا ہے، وہ اپنا شوق پورا کر لیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سڑکیں ہوں گی تو یہ لوگ احتجاج کرنے کے لئے سڑکوں پر آئیں گے۔ دوسری طرف عمران خان کل فیصل آباد کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ملک پر چوروں کی حکومت ہے جو قوم کی دولت لوٹنے پر کمر بستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر نواز شریف نے اپنی دولت کا حساب نہ دیا اور اپنے عہدے سے مستعفی نہ ہوئے تو کوئی دوسرا ساتھ دے یا نہ دے تحریک انصاف حکومت کے خلاف احتجاج کرے گی اور اس کا خاتمہ کر کے دم لے گی۔

ملک میں سیاسی تصادم اور بداعتمادی کی یہ صورتحال فطری طور پر سرمایہ داروں میں بے یقینی پیدا کرتی ہے اور معاشی معاملات مشکل اور پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ موجودہ مشکل حالات میں ملک میں سیاسی ہم آہنگی اور اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔ منتخب حکومت کو مدت پوری کرنے کا موقع ملے اور 2018 میں سب پارٹیاں اپنے واضح منشور کے ساتھ عوام سے ووٹ طلب کریں۔ اس بنیادی اصول سے انحراف کرنے کی ہر کوشش صرف جمہوریت کو ہی زخمی نہیں کرتی بلکہ وہ قومی معاشی بہتری کے امکانات کو بھی محدود کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali