پاک فضائیہ نے ایک سائیکل مکینک سے جدید ترین طیارہ ٹھیک کروایا


گوہر ایوب خان کی کتاب
Glimpses into the corridors of Power
ایک ایسے شخص کا تاثر دیتی ہے جس کے ہمراہ آپ کسی باغ میں ٹہل رہے ہوں اور وہ آپ کو اپنے تجربات و واقعات سے سرسری طور پر آگاہ کر رہا ہو۔ کبھی وہ سیاست پر آجاتا ہے تو کبھی ذاتی واقعات پر تو کبھی لطائف پر تو کبھی دوسروں کی خاکہ آرائی پر اتر آتا ہے۔

ان میں سے بہت سے واقعات تصدیق اور تحقیق کا تقاضا کرتےہیں اور سیاسی تنازعات و سیاستدانوں سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔

گوہر ایوب خان کا جھلک نامہ

کھانے کا بل

ایک جگہ گوہر ایوب لکھتے ہیں کہ والد کے صدر بننے کے بعد جب بھی میں اور میری بیوی زیب ایوانِ صدر جا کر ان کے ساتھ کھانا کھاتے تو ہم دونوں کو اس کا بل پیش کردیا جاتا۔ اگر صدر کمپٹرولر آفس سے کوئی شے منگواتے چاہے وہ سافٹ ڈرنکس ہی کیوں نہ ہوں تو اس کا بل صدر کو پیش کیا جاتا۔

امریکی ناراضگی کا خوف

یا یہ واقعہ کہ ’والد صاحب چراٹ ( صوبہ سرحد) میں فوجی کمانڈوز ایس ایس جی کے دستے کی تشکیل و تربیت کرنا چاہتے تھے۔ وہ ایک جرمن کمانڈو آفیسر کرنل اوٹو سکورزینی سے بہت متاثر تھے جس نے نہایت دلیری کے ساتھ ایک پہاڑی قلعے میں قید اطالوی آمر مسولینی کو ایک ہلکے طیارے میں نکالا تھا اور برلن میں ہٹلر کے روبرو کھڑا کردیا تھا۔ والد نے پتہ چلایا کہ کرنل سکورزینی سپین میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اسے ایس ایس جی کی تربیت کے لیے پاکستان آنے کی دعوت دی گئی۔ لیکن پھر والد کو احساس ہوگیا کہ شاید امریکیوں کو یہ بات پسند نہ آئے۔ چنانچہ لیفٹیننٹ کرنل ابوبکر مٹھا کو ایس ایس جی کی تربیتی ذمہ داری دے دی گئی۔ ‘

رن آف کچھ اور فضائیہ

یا یہ بات کہ ’اپریل انیس سو پینسٹھ میں رن آف کچھ کے معرکے کے دوران پاک فضائیہ نے بری فوج کو فضائی مدد فراہم نہیں کی۔ فضائیہ کے سربراہ ائرمارشل اصغر خان نے اپنے بھارتی ہم منصب کو فون کیا کہ اس معرکے سے دونوں ملکوں کی فضائیہ کو باہر رہنا چاہیے۔ اس واقعے کے بعد اصغر خان کو پی آئی اے کا سربراہ بنادیا گیا اور ان کی جگہ فضائیہ کی کمان نور خان کے حوالے کردی گئی۔ ‘

ایف ایک سو چار اور سائیکل مکینک

یا ایف ایک سو چار طیارے سے متعلق یہ بات کہ ’انیس سو پینسٹھ کی لڑائی میں رات کو حملے کی صلاحیت رکھنے والے بھارتی کینبرا طیاروں کا تعاقب کرنے کے لیے پاک فضائیہ نے امریکی ساختہ ایف ایک سو چار طیارے کا بخوبی استعمال کیا۔ لیکن ایف ایک سو چار کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ اس کی اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت ایک میل سے زیادہ نہ تھی۔ جو نہایت ناکافی تھی۔ کراچی میں بائیسکل مرمت کرنے والے ایک مستری کو جب اس بات کا پتہ چلا تو اس نے پیشکش کی کہ وہ مدد کرسکتا ہے۔ اس نے کچھ عرصے تک اس کام کا جائزہ لیا اور پھر اس نے ان طیاروں کی رات میں دیکھنے کی صلاحیت میں واقعی اچھا خاصا اضافہ کر ڈالا۔ ‘

ملکوں کی دشمنی جنرلوں کی دوستی

لڑائی کے دوران جب ایک بھارتی ہنٹر مارگرایا گیا تو اس کا زخمی پائلٹ ستائیس سالہ فلائٹ لیفٹیننٹ کے سی کری اپا بھارتی فوج کے سابق سربراہ جنرل کری اپا کا بیٹا نکلا۔ جنرل کری اپا اور میرے والد کی اچھی دوستی تھی۔ چنانچہ میں، والدہ اور بھائی اختر سی ایم ایچ پنڈی میں نوجوان پائلٹ کی عیادت کو گئے اور اس کے والد کو اس کیخیریت کی اطلاع دی۔ چار ماہ بعد اسے بھارت بھیج دیا گیا۔

ممبئی پر بمباری

جنگ کے آ خری دنوں میں منصوبہ بنایا گیا کہ مال بردار سی ون تھرٹی طیاروں اور بی ستاون طیاروں کے ذریعے ہزار ہزار پونڈ کے بم بمبئی پر گرائے جائیس۔ تئیس ستمبر کو یہ کارروائی کی جانی تھی لیکن اس سے پہلے ہی جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔

اس سیریز کے دیگر حصےجب ایک فوجی نے بھٹو کی پٹائی کر دی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).