جب ایک فوجی نے بھٹو کی پٹائی کر دی


جب ایک فوجی نے بھٹو کی پٹائی کر دی

انیس سو اکہتر کے اوائل کی بات ہے جب کراچی کے ایک مشہور ہوٹل ’لا گورمے‘ میں زلفی ( ذوالفقار علی بھٹو) اپنے ایک دوست کے ہمراہ بیٹھے پی رہے تھے اور بیلے رقص سے بھی لطف اندوز ہورہے تھے۔ اس دوران لیفٹیننٹ کرنل شمس الزماں داخل ہوئے اور زلفی کے برابر والی میز پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں شمس اور زلفی نے بیلے ڈانسر پر تبصرے اور پھر ایک دوسرے پر پھبتیاں کسنی شروع کردیں۔ زلفی نے جاتے جاتے شمس سے کہا کہ مجھے اقتدار میں آنے دو پھر تمھیں دیکھ لوں گا۔

شمس کا قد اگرچہ چھوٹا تھا لیکن اس نے غالباً اچھی خاصی پی ہوئی تھی اور ویسے بھی غصے کا تیز تھا۔ اس نے زلفی سے کہا کہ اتنا انتظار کیوں کرتے ہو مجھ سے ابھی ابھی نمٹ لو۔ یہ کہتے ہوئے شمس نے زلفی کے جبڑے پر مکہ جڑ دیا۔ زلفی فرش پر گرگیا اور جب اٹھا تو غصے سے کانپتے ہوئے کہا کہ اب تو میں یقیناً تمہیں اقتدار میں آ کر نہیں چھوڑوں گا۔ اس پر شمس نے دو گھونسے اور جڑ دیے اور زلفی دوبارہ گر پڑا۔ جس جس نے بھی یہ منظر دیکھا وہ سکتے میں آ گیا۔ زلفی اپنے کپڑے جھاڑتا ہوا چلا گیا اور شمس بیٹھا رہا۔ شمس بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی فوج میں برقرار رہا۔

وزیراعظم ہاؤس کی کراکری، تلوار کا نشان

بھٹو کا خیال تھا کہ وہ کم ازکم بیس برس ضرور وزیرِاعظم رہے گا۔ اس نے وزیرِاعظم ہاؤس کے لیے جو نئے برتن اور کٹلری منگوائی ان سب پر وزیرِاعظم کا سرکاری نشان ثبت کروانے کے بجائے تلوار کا نشان ثبت کروایا۔ چنانچہ بھٹو کی معزولی کے بعد ساری کراکری سٹور میں جمع کردی گئی۔

ایوب خان کے انتقال کی خبر

بیس ستمبر انیس سو چوہتر کو جب والد صاحب کا انتقال ہوا تو سب سے پہلی خبر آل انڈیا ریڈیو نے نشر کی۔ جب کہ پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان نے خاصی دیر بعد والد صاحب کا نام لیے بغیر یہ خبر نشر کی کہ پاکستان کے ایک سابق صدر کا انتقال ہوگیا ہے۔

الہی بخش سومرو، محمد خان جونیجو

جب انیس سو پچاسی کے انتخابات کے بعد پارلیمنٹ کے ارکان کی حلف برداری ہونا تھی تو اس سے ایک رات پہلے صدر ضیا الحق نے الہی بخش سومرو سے کہا کہ وہ فی الحال میڈیا سے دور رہیں کیونکہ کل بطور وزیرِاعظم ان کے نام کا اعلان ہونے والا ہے۔ صدر کی خواہش تھی کہ یہ نام خفیہ رہے تا کہ دیگر امیدوار ان پر دباؤ نہ بڑھا سکیں۔ اگلی صبح پارلیمنٹ کی گیلریاں بھری ہوئی تھیں۔ الہی بخش سومرو کے اردگرد ارکانِ پارلیمان کا جمگھٹا تھا جبکہ محمد خان جونیجو پوڈیم کے قریب صرف ایک ایم این اے اسلام الدین شیخ کے ساتھ کھڑے تھے۔

میں ٹہلتا ٹہلتا جونیجو صاحب کے پاس پہنچا۔ انہوں نے پوچھا گوہر صاحب کیا ہورہا ہے۔ میں نے کہا سائیں آپ خود بھی دیکھ رہے ہیں۔ سومرو کو نامزد کرنے کی خبریں ہیں۔ اس پر جونیجو صاحب نے پوچھا کیا ابھی بھی کچھ ہوسکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا اسلام الدین شیخ بھی جونیجو کے پاس سے ہٹ کر سومرو والے جمگھٹے کی طرف چل دیے۔ میں نے جونیجو صاحب سے کہا کہ حلف بردادی کے بعد آپ کہیں نہیں جایئے گا۔ ہمیں اپنی کوشش ترک نہیں کرنی چاہیے۔

حلف کے بعد ہم دونوں مسلم لیگ کے صدر پیرپگارا کے پاس پہنچے۔ جب پیر پگارا کو بتایا گیا کہ سومرو کو نامزد کیا جا رہا ہے تو پیر پگارا نے فوراً صدر کو پیغام بھیجا کہ بطور مسلم لیگ کے صدر انہیں یہ صورتحال ناقابلِ قبول ہے۔ چنانچہ ضیا الحق کو بادلِ نخواستہ عین وقت پر فیصلہ بدلنا پڑا اور پھر سومرو کو مبارکبادیں دینے والوں نے جونیجو کا گھیراؤ کرلیا۔

اس سیریز کے دیگر حصےپاک فضائیہ نے ایک سائیکل مکینک سے جدید ترین طیارہ ٹھیک کروایاجونیجو کی بدمعاشی اور نصرت بھٹو کی خواہش

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).