نیا پاکستان: سجا ہے جھوٹ کا بازار دیکھو


گزشتہ کم و بیش پانچ چھ برس سے سیاسی عصبیت (political polarization) اتنی گہری ہو گئی ہے کہ سچ اور جھوٹ کی پہچان مشکل ہو چکی ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا ایک ایسا میدان جنگ بن گیا ہے جہاں سب سے زیادہ قتل عام، تاریخی حقائق اور سچ کا ہو رہا ہے۔خاص طور پر انتخابات کے موسم میں سوشل میڈیا کا استعمال (بلکہ غلط استعمال) اپنے عروج پر تھا۔ اب بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ سوشل میڈیا پر گمراہ کن معلومات اور مبالغہ آمیز تجزیوں کی بھرمار نظر آتی ہے ۔ یو ں تو دیگر سیاسی جماعتیں اور ان کے چاہنے والے بھی ایسی معلومات پھیلاتے ہیں، مگر تحریک انصاف اور اس کے  followers  اس معاملے میں سب سے آگے ہیں۔

مثال کے طور پر انتخابی برتری حاصل ہونے کے بعد عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے امکانات دکھائی دینے لگے تو سوشل میڈیا پر اس بات کی خوب تشہیر کی گئی کہ پاکستان کو پہلی بار ایسا وزیر اعظم نصیب ہونے جا رہا ہے جو آکسفورڈ کا تعلیم یافتہ ہے۔ پڑھے لکھے افراد بھی یہ پیغام نہایت فخر سے شیئر کرتے رہے۔ حالانکہ اگر ذرا سی تحقیق کر لی جاتی تو یہ جان کر اس فخر میں مزید اضافہ ہو سکتا تھا کہ ہمیں ماضی میں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ وزرائے اعظم دستیاب رہے ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ تھے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو، جو پہلے صدر پاکستان رہے اور بعد میں وزیر اعظم پاکستان بنے، انہوں نے بھی آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، (جو دو بار پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں) وہ بھی ہاورڈ اور آکسفورڈ جیسے تعلیمی اداروں سے تعلیم یافتہ تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں صدر پاکستان کے عہدے پر فائز فاروق خان لغاری بھی آکسفورڈ کے فارغ التحصیل تھے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اس سے پہلے بھی پاکستان کو آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ وزرائے اعظم اور صدور میسر رہے ہیں۔ مگر سوشل میڈیا یہ تاثر دیتا رہا (اور اب بھی دے رہا ہے) کہ عمران خان کی صورت پہلی بار پاکستان کو ایسا وزیر اعظم ملے گا جو آکسفورڈ کا گریجویٹ ہے۔ ویسے یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی امریکی جامعات کے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ، لاس اینجلس سے گریجویشن کیا جبکہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری لے رکھی ہے۔ وہ بطور انجینئر امریکہ میں ملازمت بھی کرتے رہے۔ اکثر و بیشتر ہم اپنی نوجوان نسل کو یہ باور کرواتے ہیں کہ جیسے ہمارے نصیب میں صرف ان پڑھ (اور جاہل) سیاست دان لکھے ہوئے ہیں۔ یہ سراسر غلط اور تاریخی حقائق کے برعکس ہے۔ ایسے پاکستانی سیاستدانوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اندرون ملک اور بیرون ملک اعلی تعلیم حاصل کی۔

عمران خان نے وزیر اعظم ہاوس میں نہ رہنے کا فیصلہ کیا تو اس بات کا بھی سوشل میڈیا پر بہت چرچا ہوا۔ انہیں خوب داد پیش کی گئی۔ اگرچہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ایک دن بھی وزیر اعظم ہاوس میں رہائش پذیر نہیں رہے، اور اسلام آباد میں واقع اپنے گھر میں قیام پذیر رہے۔ مگر اسے ان کی تشہری ٹیم کی “نالائقی” ہی کہنا چاہیے کہ اس کے باوجود وہ اس تعریف وتحسین سے محروم رہے جو عمران خان کے حصے میں آئی ۔ ویسے اب عمران خان باقاعدہ طور پر وزیر اعظم ہاوس میں رہائش اختیار کر چکے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اس وقت نظر آئی جب عمران خان کے ترجمان کی جانب سے اعلان ہوا کہ وہ پروٹوکول نہیں لیں گے اور سادگی اختیار کریں گے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر خان صاحب کی سادگی ثابت کرنے کیلئے خوب محنت کی گئی۔ ایسا مبالغہ آمیز تاثر دیا گیا کہ جیسے وہ 300 کنال کے گھر کے بجائے کسی چھوٹی سی کٹیا میں رہتے ہیں۔ انتہائی سادہ کھانا کھاتے ہیں۔ جہاز کے بجائے عام آدمی کی طرح (خجل خوار ہو کر) سفر کرتے ہیں۔

بر سبیل تذکرہ ابھی چند ماہ پہلے جناب خان عمرے کی ادائیگی کی غرض سے دو روز کیلئے سعودی عرب گئے تھے۔ اس عمرہ پر کم و بیش دو کروڑ روپے خرچہ آیا تھا۔ عمرہ کیلئے جو جہاز کرایہ پر لیا گیا اسکا کرایہ 7 لاکھ روپیہ فی گھنٹہ تھا۔ یہ ہے ان کا اصل لائف اسٹائل مگر ڈھنڈورا ایسے پیٹا جا رہا ہے کہ جیسے عمران خان درویشی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ چلتے چلتے یاد دلا دوں کہ تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک نے اپنی حکومت کے پہلے ہی سال، سرکاری خزانے سے 26 لاکھ روپے چائے اور بیکری پر خرچ کر ڈالے تھے۔ اس پروپیگنڈہ مہم کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ عمران خان کی سادگی کی تشہیر کرتے ہوئے، یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے دیگر تمام سیاستدان انتہائی پر تعیش زندگی بسر کرتے رہے ہیں اور آج تک کسی بھی سیاستدان کی زندگی میں سادگی کا کوئی عمل دخل نہیں رہا ۔حالانکہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ مثلا جماعت اسلامی کے اراکین اسمبلی کو ہی دیکھ لیجئے۔ وہ حقیقتا سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ نہ انکے پاس ذاتی جہاز ہیں۔ نہ کئی سو کنالوں پر محیط “جھونپڑا” ۔ یہاں تک کہ جماعت کا امیر بھی ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے اور صحیح معنوں میں سادہ زندگی بسر کرتا ہے۔ تحقیق کریں تو دیگر جماعتوں میں بھی ایسی کئی مثالیں مل سکتی ہیں۔

مگر تحریک انصاف والے تلے بیٹھے ہیں کہ عمران خان کو سادگی کا ایوارڈ دلوا کر ہی چھوڑنا ہے۔ لہذا انتخابات جیتنے کے بعد عمران خان نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کیا تو انکی شلوار قمیض کو بھی” سادگی” کی علامت بنا کر پیش کیا گیا۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پیغامات میں اس کی قیمت (مبلغ 1500 روپے) بتا کر تصویر شیئر کی جاتی رہی۔ اچھے بھلے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ اس سوٹ کی قیمت والی تصویر کو اس اعتماد کیساتھ شیئر کرتے رہے جیسے یہ پندرہ سو روپے کا سوٹ انہوں نے خود خرید کر عمران خان کو گفٹ کیا تھا۔ اس تصویر ی (اور تشہیری) تبصرے کی دلچسپ بات یہ تھی کہ سادگی کا ذکر کرتے ہوئے اس پنج ستارہ ہوٹل کو کلی طور پر نظر انداز کر دیا گیا جس میں کھڑے ہو کر خان صاحب پارٹی اراکین سے خطاب کر رہے تھے اور جس کا چند گھنٹوں کا خرچ لاکھوں روپیہ بنتا ہے۔ ویسے شلوار قمیض پہننا ہی” سادگی” کا معیار اور کسوٹی ہے تو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی اسی صف میں شامل کرنا چاہیے، جو اکثر وبیشتر شلوار قمیض میں ہی نظر آتے تھے۔ یہاں تک کہ ا پنا سرکاری دورہ امریکہ اور اقوام متحدہ کا خطاب تک شلوار قمیض میں بھگتا آئے تھے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2