افغانستان میں دولتِ اسلامیہ کی موجودگی اور پاکستان کے لئے خطرات


پاکستان میں جمہوریت کے تسلسل کے بعد نئی آنے والی حکومت کو جہاں ملک میں موجود بہت سے مسائل جن میں کرپشن، بے روزگاری، تعلیم کی سہولیات کا فقدان، اداروں میں بے ضابطگیاں، مجرموں کو کیفر کرادار تک پہچانا اور ملک کی دولت کو جیسے غیر قانونی طریقوں سے ملک سے باہر بھجا گیاکو واپس لانا، عدالتوں میں انصاف کی فراہمی کو فوری اور یقینی بنانا شامل ہے وہی امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا سب سے بڑا چیلنچ ہے۔ پاکستان میں ہم نے ان پارٹیز کو بھی ایلکشن میں پیش پیش دیکھا جو کالعدم قرار پا چکی ہیں۔ اس پر کھل کر احتجاج ہمیں اسمبلی فلور پر تو نظر آیا لیکن میڈیا میں کوئی خاطر خواہ آگاہی نا دی گئی۔ بین الاقوامی سطح پر اس مدعے پر خوب چرچے ہوئے۔

بہرحال انتہا پسندتنظیموں کی حوصلہ افزائی کے اثرات وقتی طور پر ظاہر نہیں ہوتے قوموں کو ان غلط فیصلوں کی سزا آنے والے وقتوں میں بھگتنی پڑتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بین الا اقوامی سطح پر خطرے کے بھیانک بادل پاکستان پر منڈلا رہے ہیں۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے باعث میرے ملک میں کتنے ہی لوگ لقمہ اجل بن گئے لیکن ہم اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے حقائق چھپ نہیں سکتے۔ اور حقیقت یہ کہ ہمارے ہمسائے ملک افغانستان میں فرقہ واریت کی بھیٹ چھڑنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جس کے اثرات یقیناً پاکستان پر بھی آئے گے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں داعش کے کم از کم سات ہزار جنگجو موجود ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان عید الفطر میں عارضی جنگ بندی کے بعد پہلی مرتبہ طالبان جنگجو عید کے اجتماعات میں نظر آئے لیکن دوسرے دن ہی مشرکی صوبے ننگرہار میں ایک اجتماع میں ایک خود کش حملے میں26 افراد ہلاک اور کئی درجن زخمی ہوئے۔ اگلے دن ایک اور حملہ کیا جاتا ہے جس میں 17افراد ہلاک اور50 سے زائد زخمی ہوتے ہیں۔ یعنی افغان حکومت اور طالبان جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے ایک ہوتے ہیں لیکن ایک تیسری قوت داعش امن کو خراب کرنے کے لئے حملہ کرتی ہے اور اس کی ذمہ داری بھی قبول کرتی ہے۔ افغانستان میں داعش کا وجود ایک واضح حقیقت کے طور پر سامنے آچکا ہے۔ شام میں داعش اور پورے خطے میں انتہا پسند تکفیری دہشت گردی کے فتنے کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں میں دیامر او ر چلاس میں لڑکیوں کے بارہ اسکولوں کو نذرِآتش کرنے اور دھماکہ خیز مواد سے تباہ کرنے کے واقعات سامنے آئے۔ جن میں سے دو اسکول پاک فوج کے زیر انتظام تھے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ عسکریت پسندوں کا تعلق داعش سے ہو سکتا ہے۔ 13جولائی 2018 بلوچستان کے ضلع مستونگ میں انتخابی مہم کو دوران خودکش حملے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سراج رئیسانی سمیت 150 سے زائد افراد ہلاک اور200 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔

شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ جس کا سراغ دورانِ تفتیش سندھ کے ضلع ٹھٹہ کے شہر دھابیجی سے ملا۔ گھر والوں کے مطابق خود کش حملہ آور حفیظ نواز افغانستان جہاد کے لئے گیا تھا۔ کراچی پولیس کا ایک ہیڈ کانسٹبل حاجی داؤد پہلے تحریکِ طالبان پاکستان میں شامل ہوا اور پھر اختلافات کے بعد داعش میں شامل ہوگیا۔ مستونگ سانحہ کا ذمہ دار حفیظ نواز تھا جس کے بڑے بھائی عزیز نواز کا تعلق بھی حاجی داؤد سے تھا اور پاکستان میں ہونے والی داعش کی سرگرمیوں میں حاجی داؤد کا اہم کردار ہوتا ہے۔

اس سے پہلے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں دہشتگردی کی ایک اندوہناک واردات میں اسلام، انسانیت اور تعلیم کے دشمنوں نے مکتب مہدی موعود(تعلیمی سنٹر) پر حملہ کیا تھا جس میں ساٹھ سے زائد طلبہ وطالبات لقمہ اجل بن گئے اور ستر سے زائد زخمی ہوگئے۔ شہید ہونے والوں میں زیادہ تعداد طالبات کی تھی۔ دہشتگردی کا یہ افسوسناک واقعہ شیعہ ہزارہ نشین علاقہ میں پیش آیا، موعود ایجوکیشن سنٹر کابل کی شیعہ ہزارہ کیمونٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور جس میں زیادہ تر اہل تشیع ہزارہ کو نشانہ بنایا گیا۔ خدشہ یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس خودکش حملہ میں بھی داعش ملوث ہے، کیونکہ اس سے قبل ہونے والی اسی قسم کی دہشتگردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری باقاعدہ داعش نے قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔

دوسری جانب افغان طالبان نے اس واقعہ سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے، افغان میڈیا کے مطابق طالبان افغان کا بیان سامنے آیا ہے کہ اس خود کش حملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ 2015 میں ہزارہ شیعہ مسافروں کو شناخت کرنے کے بعد بسوں سے اتار کر اغواء کیا گیا تھا گذشتہ سال ایک شیعہ مسجد امان زمان میں دھماکہ کے نتیجے میں کئی شہری شہید ہوئے اور ایسا ہی دہشت گردی کا ایک واقعہ کابل میں الزہرا مسجد میں پیش آیا جس کے باعث درجنوں نمازی شہید ہوئے۔ 2 جولائی 2018 مشرقی افغانستان کے شہر جلال آباد میں ایک خود کش حملے میں19افراد ہلاک ہوگئے تھے جن میں زیادہ تعداد سکھوں کی تھی۔ دہشتگرد تنظیم داعش نے اس حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔

عراق اور شام کے بعد افغانستان کو ہی داعش کے دہشتگردوں نے اپنا سب سے زیادہ محفوظ مسکن سمجھا۔ داعش کی موجودگی پر افغان جنگجو گروپس نے بھی تشویش کا اظہار کیا، اور بعض مقامات پر داعش اور طالبان کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں، جن میں دونوں جانب سے سینکڑوں جنگجو ہلاک ہوئے۔ پاکستان کی جانب سے داعش کے خطرات کے حوالے سے افغان حکومت کو مسلسل متنبیہ کیا جاتا رہا ہے، پاکستان میں گذشتہ اور رواں سال ہونے والی کئی دہشتگردانہ کارروائیوں کے بارے میں بھی یہ انکشاف ہوا ہے کہ ان میں افغانستان سے دہشتگرد آئے اور وہاں سے ہی ساری کارروائیوں کو آپریٹ کیا گیا۔

2018 مارچ پاکستان کے قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی (نیکٹا) کے قومی رابطہ کار احسان غنی نے کہا تھا کہ پاکستان کو شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامہ یا داعش کی طرف سے خطرہ ابھی تک لاحق ہے تاہم فی الحال داعش افغانستان تک محدود ہے۔ داعش کے جنگجو افغانستان سے نکل کر پاکستان پر بھی حملوں میں ملوث رہے ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں صوفی مزاروں پر خو کش حملوں کے علاوہ بلوچستان میں گذشتہ برس پاکستانی سیینٹ کے ڈپٹی چیئرمین اور جمیت علمائے اسلام کے رہنما عبدالغفور حیدری پر حملے کی ذمہ داری بھی داعش ہی نے اٹھائی تھی۔

2018 اپریل میں روس کے دارالحکومت ماسکو میں سیکورٹی کانفرنس کے موقع پرسابق وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر خان کی ایران کے اپنے ہم منصب جنرل عامر سے ملاقات کے دوران پاکستان اور ایران نے افغانستان میں داعش کی موجودگی پر مشترکہ تشویش کا اظہار کیاتھا۔ دوسری طرف دہشت گرد تنظیم نام نہادولتِ اسلامیہ کے سربراہ ابوبکر بغدادی کا نیا پیغام سامنے آگیا ہے۔ گذشتہ سال ستمبر کے بعد سے آنے والے اس پہلے پیغام میں ابوبکر بغدادی نے تنظیم کے حمایتوں کو مخاطب کیا ہے۔ اورحالیہ واقعات کا ذکر بھی کررہے ہیں۔

عراق میں ایرانی اثرورسوخ کامقابلہ کرنے کے لئے امریکی سامراج نے داعش کی داغ بیل ڈالی اور آج اسی امریکہ نے بغدادی کی گرفتاری یا ہلاکت پر ایک کڑوڑ ڈالر کے انعام کا اعلان بھی کررکھا ہے۔ پسِ پشت اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصہ ہے امریکہ عراق والا داعشی تجربہ پھر سے دہرانا چاہتا ہے۔ سابق افغان صدر یہ بات کھل کرکہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی کے پیچھے امریکہ ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ ایسا کیوں کرے گا امریکہ پہلے ہی افغانستان میں موجود ہے تو اس کا صاف صاف جواب ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ ایک امریکہ اس خطے میں اپنا اثرقائم کرنے کے لئے افغانستان کی سر زمین کو افغانستان کے لئے استعمال کرسکے ساتھ ہی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے ایسی کارروائیاں کی جاسکے جس سے سی پیک ناکام ہو اور پاکستان چین تعلقات خراب ہوسکیں۔ پاکستان کا روس کے قریب آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی حکام امریکہ کی چالوں سے واقف ہے۔ پاکستانی حکام داعش کی پاکستان میں موجودگی سے مکمل انکار کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی فوج کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کی نتیجے میں داعش کے جنگجووں کی ہلاکت کا اعلان بھی کیا جاتا رہا ہے۔

افغانستان میں تیزی سے پھلتا داعش کا نیٹ ورک اور اس کے پیچھے عالمی طاقتوں کا ہاتھ ہونا ایک خطرناک کھیل نظر آتا ہے جس کا خمیازہ معصوم جانوں کے ضیاع کی صورت میں سامنے آئے گا اور آرہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر پاکستان کی سلامتی کی خاطر بین الا اقوامی سطح پر پاکستان کے خلاف کھیلے جانے والے اس کھیل کی بساط کو الٹ دیں۔ پاکستان کو تباہ کرنے کے مزموم عزائم رکھنے والی عالمی طاقتیں جانتی ہیں کہ اگر پاکستان کو تباہ کرنا ہے تو اس کا واحد راستہ فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے جس کے لئے وہ مختلف نون اسٹیٹ فکٹرز کو استعمال کرکے ملک میں افراء تفری پھلانا چاہتے ہیں۔ اہل سنت ہو، اہلِ تشیع یا کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے کسی بھی انسان کا ناحق خون بہانا حرام ہے مذہب کا ٹھیکہ اٹھانے والی ان تنظیموں کا دراصل اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).