گودوں کھیلتا حبِ فراز


کل صبح فیس بک پر احمد فراز کی برسی کی خبر دیکھی، فراز کی شاعری نوجوان دلوں کو گرماتی ہے اور ہر عاشق اسے پڑھ کر اپنے دل کی ترجمانی سمجھتا ہے ۔ لڑکیاں ڈائری میں فراز کے اشعار لکھتیں ہیں، ان کی رومانی شاعری کی دھوم ہے اس بات کا سلسلہ ہمارے ماضی سے جڑا ہے ہماری ایک عزیزہ احمد فراز کی شاعری کی عاشق تھیں، فراز کے اشعار ڈھونڈ ڈھونڈ کر ڈائری میں نقل کرنا ان کا مشغلہ تھا، ہم عمر ہونے کی وجہ سے سہیلی جیسا تعلق تھا۔ انہوں نے فراز کی رومانی شاعری پڑھ پڑھ کر خیالی پیکر تراش لیا تھا شامت ہماری آتی تھی کہ ان اشعار کو پڑھوایا جاتا اور ہم سے اپنے انتخاب کی داد وصول کی جاتی ۔ ہم کچھ نصحیت کرتے کہ پڑھائی میں دھیان لگاؤ بورڈ کے امتحان ہیں تو فرماتیں
ناصح تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آجاتا ہے سمجھاتا ہے کہ یوں ہے یوں ہے

اب بتاؤ بھلا پڑھائی میں دھیان دینے پر الٹا ہمیں حسبِ موقع فراز کے شعر سے نوازتیں، اسی طرح ہر موقع پر فراز کے اشعار سنانے کا انھیں چسکا تھا۔ ایک دفعہ ہم باٹنی کے جرنل کے لیے کتابوں میں پھول پتے رکھ کر پریس کر رہے تھے تاکہ جرنل میں چسپاں کر سکیں، انھوں نے تفصیل سننے کے بعد ایک شعر گوش گزار کر دیا جو اب تک ہمیں یاد ہے
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

ہم اپنا سا منہ لے کر سوچتے فراز نے ہر موقع کےلیے شعر کہے ہیں۔ کچھ اشعار ہماری سمجھ میں آجاتے کچھ ہمارے سر سے گزر جاتے، ایک ستم یہ ہوا کہ ان کی منگنی ایک پردیس میں رہنے والے سے ہو گئی اب اشعار کا چناؤ اس قسم کا ہوتا
وہ جو آجاتے تھے آنکھوں میں ستارے لے کر
جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر

کبھی منگیتر سے ان بن ہوجاتی تو اور شامت آتی، سیل فون کا زمانہ تو تھا نہیں، پی ٹی سی ایل فون تھا اس پر گلہ ہوتا کہ ایک کال بھی نہیں کی اتنے دن ہو گئے اور مہدی حسن کی آواز میں فراز کی غزل خود بھی سنتیں اور ہمیں بھی سناتیں، فراز نے اس موقع کے لیے ہی کہا تھا
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کر جانے کے لیے آ

ابھی انٹر میں ہی تھیں کہ ان کی شادی ہوگئی رخصت ہوکر بیرون ملک چلی گئیں۔ ہم اپنی پڑھائی میں لگ گئے۔
اردو ادب سے شغف تو تھا ہی، احمد فراز کو بھی پڑھا، وہ اپنے عہد کے مقبول ترین شعراء میں شمار ہوتے تھے، انھیں رومان پرور شاعر کہا جاتا ہے لیکن انھوں نے اپنے دور میں ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کا علم بلند رکھا اس پاداش میں ان ہر مختلف پابندیاں بھی لگیں اور انھیں جلا وطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔
باغباں ڈال رہا ہے گل وگلزار پہ خاک
اب بھی میں چپ ہوں تو مجھ پر مرے اشعار پہ خاک
بسکہ اک نان جویں رزق مشقت تھا فراز
آگیا ڈال کے میں درہم ودینار پہ خاک

وقت گزرتے دیر کیا لگتی ہے، شادی کے دو سال بعد جب فراز کی غائبانہ عاشق پاکستان آئیں تو ہم بھی ملنے گئے۔ ان کی گود میں ایک پیارا سا گول مٹول بیٹا دیکھ کر بہت خوشی ہوئی وہ اس سے بہت پیار دلار کر رہی تھیں ہم نے پوچھا بچے کا نام کیا رکھا؟ تو فوراً لہجے میں مٹھاس گھول کر گویا ہوئیں ” فراز“، اف ان کی فراز سے محبت ان کی گود میں کھیل رہی تھی اور ہم سوچ رہے تھے
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).