1971 کا مشرقی پاکستان اور 2019 کا بنگلہ دیش


آج سے اڑتالیس سال پہلے ہمارے ملک کے دو حصے ہوا کرتے تھے، مشرقی اور مغربی پاکستان، دونوں وفاق پاکستان میں شامل تھے۔ دونوں جگہ ایک ہی سکہ چلتا تھا، ایک ہی فوج تھی، ایک ہی قانون تھا، دونوں جگہ مسلمان رہتے تھے اور مسلمان قومیت کی بنیاد پر ہی اکٹھے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ پورے ملک میں پہلی مرتبہ عام انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی جماعت عوامی لیگ کو اکثریت حاصل ہو گئی، یہ بات ہم مغربی پاکستانیوں کو کچھ پسند نہیں آئی۔ لہذا جب اِس جماعت کو حکومت بنانے کی دعوت دینے کا وقت آیا تو ہمارے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر عزت مآب جناب یحیٰ خان مد ظلہ نے مشرقی پاکستان میں اپنے ٹائیگر نیازی کو بھیجا تاکہ وہ شر پسندوں کی سرکوبی کر سکیں۔

ٹائیگر صاحب نے ڈھاکہ میں اچھا وقت گذارا، دن میں آ پ شکار کھیلتے اور شام کو کسی غریب بنگالن کی مدد فرما دیتے۔ ڈھاکہ میں یہ خوشگوار پڑاؤ عارضی ثابت ہوا اور بالآخر 16 دسمبر 1971 کو ہمارے ٹائیگر نیازی نے بھارتی جرنیل جگجیت سنگھ اروڑا کو لطیفے سناتے ہوئے پوری آن بان کے ساتھ ہتھیار ڈال دیے۔ اندرا گاندھی نے بیان دیا کہ آج ہم نے نظریہ پاکستان کو بحیرہ بنگال میں غرق کر دیا۔ بنگالیوں نے عملاً اِس بات کی تائید یوں کی کہ علیحدہ وطن بنا لیا جس کا نام بنگلہ دیش رکھا اور یہ ثابت کر دیا کہ مذہب مشترک ہونے سے قوم نہیں بنتی۔ یہ بات مگر نریندر مودی کی بی جے پی نے 11 دسمبر 2019 کو بھارتی شہریت کے قانون میں تبدیلی کرکے غلط ثابت کر دی جس کی تفصیل پھر کبھی!

آج بنگلہ دیش اڑتالیس برس کا ہو چکا۔ اِن اڑتالیس برسوں میں بنگلہ دیش نے تین کام ایسے کیے جو شاید بنگالی بھائی ہمارے ساتھ رہ کر نہ کر پاتے۔ ایک کام انہوں نے یہ کیا کہ اپنی آبادی پر قابو پا لیا، 1971 میں مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان کے مقابلے میں پچاس لاکھ زیادہ تھی اور آج الحمد اللہ ہمارے والے پاکستان کی آبادی 21 کروڑ جبکہ بنگلہ دیش کی صرف ساڑھے سولہ کروڑ کے قریب ہے اور امید ہے کہ 2050 تک یہ فرق ساڑھے تین کروڑ سے بڑھ کر چھ کروڑ ہو جائے گا۔

آبادی پر قابو پانے کے لیے بنگلہ دیش نے نہ صرف ملک گیر مہم چلائی اور گھر گھر مانع حمل اشیا فراہم کیں بلکہ وہاں کے مذہبی عالموں اور مساجد نے بھی اِس ضمن میں مدد کی اور یوں ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جس نے دنیا کو حیران کر دیا۔ دوسرا کام وہاں یہ ہوا کہ معاشی ترقی میں عورتیں آگے آئیں اور انہوں نے بنگلہ دیش کی معیشت کو مضبوط کیا۔ آئی ایل او کے اعداد و شمار کے مطابق اِس وقت بنگلہ دیش میں عورتوں کا لیبر فورس میں حصہ چھتیس فیصد جبکہ پاکستان میں یہی شرح صرف چوبیس فیصد کے قریب ہے۔

تیسرا کام جو بنگلہ دیش نے کیا وہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کیونکہ یہ بیہودگی صرف وہیں ممکن تھی، اپنے ہاں ایسا سوچنے والے کو محب وطن نہیں سمجھا جاتا۔ یہ کام تھا اپنی آمدن کو کسی غیر پیداواری سرگرمی کی بجائے سوچ سمجھ کر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرنا۔ آگے آپ خود سمجھ دار ہیں، میرے تو پر چلتے ہیں۔ ان اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بنگلہ دیش عالمی انسانی ترقی کے اشاریے میں 135 ویں نمبر ہر ہے اور ہمارا نمبر 152 ہے، ویسے ہماری فی کس آمدن بنگلہ دیش سے قدرے بہتر ہے مگر جب انسانی ترقی کا اشاریہ بہتر اور فی کس آمدن کم ہو تو اُس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس ملک میں دولت کی تقسیم نسبتاً بہتر ہے۔

بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل کی صنعت بھی بہت پھل پھول رہی ہے اور وہاں کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے مگر اِس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بنگلہ دیش میں سب اچھا ہے۔  ٹیکسٹائل کی صنعت وہاں ایک مافیا کی طرح کام کرتی ہے، اپنی مرضی کی پالیسیاں بنواتی ہے، کابینہ میں وزیر لگواتی ہے اور لیبر قوانین میں ایسی رعایتیں لیتی ہے جس سے غریب کارکن کا استحصال ہوتا ہے۔

پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت 1947 تک ایک ملک تھے، سن 47 میں دو ملک بنے اور سن 71 میں تین ملک بن گئے۔  اِن ممالک کے لوگ ایک دوسرے کی بولی سمجھتے ہیں، رسم و رواج جانتے ہیں، تاریخ اور مذہب سے واقف ہیں، ایسا کیا ہوا کہ ان تینوں ممالک میں ہم پیچھے رہ گئے اور باقی دو ملک جو بالکل اسی قسم کے مسائل کا شکار تھے، ہم سے آگے نکل گئے۔ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں راکٹ سائنس کی کوئی کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں فقط تاریخ کی ایک آدھ مستند کتاب کھنگالنے کی ضرورت ہے، جس میں ہم وہ حقائق جان سکیں جو مطالعہ پاکستان میں نہیں پڑھائے جاتے، پوری بات اپنے آپ شیشے کی طرح صاف ہو جائے گی۔

اور آپ میں سے جو لوگ میری طرح سست الوجودیت کا شکار ہیں اور کتاب پڑھنا نہیں چاہتے وہ صرف اِس بات پر غور کرلیں پاکستان میں چار مرتبہ ایسا کیا ہوا جو بھارت میں ایک مرتبہ بھی نہیں ہوا اور بنگلہ دیش نے یہ تجربہ کر کے ہمیشہ کے لیے جان چھڑا لی؟ درست جواب دینے والے کو ایل ایل بی کی اعزازی سند اور ایک کالا کوٹ انعام میں دیا جائے گا تاکہ وہ پاکستان میں قانون سے ماورا ہو کر زندگی گزار سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada