عمران خان کا یہ خطاب میرے لئے تھا صاحب


عمران احمد خان نیازی نے وزیر اعظم بننے کے بعد پہلا خطاب کیا یہ خطاب ایک گھنٹہ دس منٹ پر مشتمل تھا۔ اس خطاب کو بہت سارے حلقوں نے سراہا لیکن کچھ تنقید بھی کی گئی۔ اس تنقید ک میرے نذدیک کوئی حیثیت نہیں کیونکہ یہ تنقید ان لوگوں کی طرف سے کی گئی جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں اس ملک کو بے دردی سے لوٹا۔ اس ملک کو مقروض بنادیا۔ خون میں نہلا دیا۔ سفارش اور رشوت کے کلچر کو عام کیا۔ ملک کے اداروں کو تباہ کردیا۔ نظام کو مفلوج کرکے ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچادیا۔ یہاں تک کہ اس ملک کے غریب کی زندگی اجیرن کردی۔

ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ مال بناؤ۔ ان کا ایک ہی کام تھا بس کرپشن کرو۔ کبھی یہ احساس نہیں کیا کہ اس ملک کے مسائل کیا ہیں اور ان مسائل کا حل کیا ہے۔ کبھی سوچا تک نہیں ہوگا کہ یہ ملک اس حال میں کب تک چل سکتا ہے۔ انہوں نے اس ملک کو اپنا ملک ہی نہیں سمجھا ورنہ یہاں سے پیسہ چوری کرکے دوسرے ملکوں میں نہیں چھپاتے۔

آج وہ عمران خان کی تقریر پر تنقید کرتے ہیں۔ ہماری اس گفتگو میں پاس بیٹھے فضل صاحب بھی شامل ہوگئے۔ جو کافی دیر تک ایک کرسی پہ بیٹھے ہماری باتیں سن رہے تھے۔ اپنی گفتگو کا آغاز غریب فضل نے اس طرح کیا۔

یہ تقریر آپ کے لئے نہیں تھی صاحب۔ یہ میرے لئے تھی۔ اس لئے کہ میں نے کبھی پیٹ بھر کے کھانا نہیں کھایا۔ مجھے کبھی صاف پانی میسر نہیں ہوا۔ آج بھی میں وہاں پانی پیتا ہوں جہاں جانور پانی پیتے ہیں۔ مجھے گھنٹوں قطار میں کھڑے ہوکر ہسپتال سے خالی پرچی لے کر لوٹنا پڑتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنا تو میرے بچوں کا جیسے خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔ مجھے ڈومسائل بنوانےکے لئے ہفتوں سرکاری دفاتر کا چکر لگانا پڑتا ہے۔ مجھے بسوں میں دھکے کھانا پڑتا ہے۔ مجھے جاگیرداروں کا ظلم سہنا پڑتا ہے۔ میں انصاف کے لئے سالوں سال در بدر کی ٹھوکریں کھاتا ہوں۔ میری جان اور عزت تک محفوظ نہیں۔ میں فٹ پاتھ پر سوتا ہوں۔ میں عید جیسی خوشیوں سے محروم ہوں۔ میں قربانی کے دنوں امیر شہر کا رخ کرتا ہوں شاید گوشت کا کوئی ٹکڑا ہی مل جائے۔ میں عید کی شاپنگ دیوار مہربانی سے کرتا ہوں۔

فضل نے آہ بھری۔ اس کی پلکوں میں آنسوں صاف دیکھائی دے رہے تھے۔ پل بھر کے لئے خاموش رہا اور میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر اس نے لمبی سانس لی اور پھر بولنے لگا۔

جی ہاں صاحب یہ تقریر میرے لئے ہی تھی۔ یہ خطاب میرے لئے ہی تھا۔ میں کیا کیا بتا دوں تمہیں۔ تمہارے سینے میں تو دل ہی نہیں اگر ہے بھی تو وہ گوشت کا لوتھڑا ہے۔ دل میں تو احساس ہوتا ہے۔ دل میں تو رحم ہوتا ہے۔ دل میں تو غریبوں کے لئے عزت ہوتی ہے۔ تمہارا اس خطاب سے کیا واسطہ تمہاری دنیا ہی الگ ہے۔ تم تو ٹھنڈے کمروں اور گاڑیوں میں گھومتے ہو۔ تمہارے تو کتے بھی گوشت کھاتے ہیں۔ تمہارے گھوڑے بھی جہازوں میں سفر کرتے ہیں۔ تمہارا علاج تو لندن کے بڑے ہسپتالوں میں ہوتا ہے، تم زمین پر پیر رکھتے ہو تو کارپٹ بچھایا جاتا ہے۔

میرے پیروں میں جوتا نہیں ہوتا۔ تم پیسے پانی کی طرح خرچ کرتے ہو اور میں ایک روپیہ کے لئے ترستا ہوں۔ میں وقت کے فرعون سے نجات چاہتا تھا آج رب نے میری سن لی ہے مجھے میرا مسیحا مل گیا ہے میرا وقت شروع ہوچکا ہے تیرا سورج غروب ہو چکا ہے۔

یہ تقریر میرے لئے تھی یہ وزیر اعظم میرا ہے یہ خطاب میرے لئے تھا تمہارا اس تقریر سے کیا واسطہ۔ فضل یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا اور میں ٹکٹکی باندھے اس کی طرف دیکھتا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).