حیدرآباد کے قدیم مندر اور گردوارے


\"akhterتاریخی اعتبار سے حیدرآباد ایک ہی وقت بہت سے مذاہب کو ماننے والوں کا شہر رہا ہے، جہاں سکھوں کے گردواروں سے لے کر ہندوؤں کے مندر، مسلمانوں کی مساجد اور عیسائیوں کے چرچ بڑی تعداد میں تھے۔ مگر اس بار مجھے حیدرآباد کے قدیم مندر دیکھنے کا موقع ملا وہ لمحات میرے لیے کافی دکھ دہ تھے۔ حید رآباد کے قدیم مندروں کو دیکھا جائے تو ان میں سے کافی ایسے ہیں جو کہ قیامِ پاکستان سے قبل تعمیر کیے گئے تھے۔ جبکہ دو گردوارے بھی پاکستان کے قیام سے قبل بنے تھے۔ لیکن اب ان مندروں اور گردواروں پہ یا تو قبضے ہو چکے ہیں یا پھر لوگوں نے رہائش اختیار کر رکھی ہے۔ حیدرآباد میں لگ بھگ سولہ مندر ہیں۔

حیدرآباد کے قدیم مندر اور گردوارے اب اس حالت میں ہیں کہ انہیں پہچاننا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ہر سمت سے عمارتوں سے گھرے ہوئے یہ مندر اور گردوارے اب ماضی کے مزار بنتے جا رہے ہیں۔ اب نہ تو یہ اپنی اصلی حالت میں ہیں اور نہ ہی اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔

\"sonarفقیر جو پڑ کے علاقے میں ایک قدیم مندر اب بھی قائم ہے، جس میں ہندستان کی تقسیم کے وقت آنے والے خاندان کی رہائش ہے۔ اس مندر کا نام باؤ نرمل داس مندر ہے۔ مندر کی شکھر والا کمرا جہاں کبھی مورتیاں ہوتی تھیں، اب وہ سونے کا کمرا بن چکا ہے۔ جب کہ اسی کمرے کے احاطے میں جائے نماز ہے جہاں میں نے ایک بچی کو نماز پڑھتے دیکھا، جوکہ مذہبی راواداری کی ایک مثال ہے۔ اس خاندان کے لیے اب یہ مندر نہیں بلکہ ایک گھر بن چکا ہے۔ مندر اب اپنی پرانی حالت میں نہیں رہا۔ مندر کا صحن ٹوٹ رہا ہے جبکہ مندر کے باقی احاطے کو بھی رہائش کے طور پہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مندر کے اندرونی حصے میں کاشی کا کام بھی دیواروں پہ نظر آتا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مندر کی کوئی تاریخ درج نہیں ہے، جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکے کہ یہ کتنا قدیم ہے۔ مکینوں کا اس بارے میں کہنا ہے کہ وہ یہاں پہ کئی دہائیوں سے آباد ہیں۔ مندر کے شکھر میں چاروں اطراف سے سنگِ مرمر کی چھوٹی چھوٹی مورتیاں پیوست ہیں۔ جنہیں وقت نے ابھی تک شکست نہیں دی۔

فقیر جو پڑ کے قریب ہی ایک قدیم عمارت اب سندھ ھومیو پیتھک میڈیکل کالیج ہسپتال کے نام سے جانی جاتی ہے در حقیقت یہ کسی زمانے میں سکھوں کا گردوارا ہوا کرتا تھا۔ تقسیم کے بعد یہ لائیبریری کی صورت اختیار کر گئی، اس کے بعد اس کا سفر ھومیو پیتھک کالیج تک جا پہنچا ہے۔ 1984 میں پاکستان کے دفاعی وزیر میر علی احمد خان تالپور نے اس عمارت میں ڈاکٹر محمد اسماعیل نامی میموریل پیتھالوجی لیبارٹری کا افتتاح کیا۔ اب ماضی کے گردوارے میں ایک فلاحی ادارہ قائم ہے۔

\"sonar

اسی طرح پھلیلی پل کی بائیں جانب بھی ایک ایسا مندر ہے جس میں آج بھی لوگ رہتے ہیں۔ جس کا اب صرف شکھر نظر آتا ہے باقی مندر تباھ ہو چکا ہے۔ پھلیلی پل سے ہی کچھ آگے تقسیم ہندستان سے قبل سونار گلی میں قائم ایک مندر ماتا گنگا کے نام سے قائم ہے۔ یہ مندر اپنی تعمیر کے حساب سے حیدرآباد کے تمام مندروں سے خوبصورت ہے، جس میں پیلے پتھر، لال پتھر اور سنگِ مرمر کا استعمال کیا گیا ہے، یہ مندر فن تعمیر کے حساب سے ایک شاہکار ہے۔ چھوٹے سے رقبے میں قائم اس مندر کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے یہ گردوارا ہے۔ مگر لوگ اسے مندر سمجھتے ہیں۔ مندر کی دیواروں پہ مورتیاں بنائی گئی ہیں اور اندر بھی بہت باریک کام کیا گیا ہے۔ یہ مندر اب دو مسلمان بھائیوں کی نگرانی میں ہے۔ مگر اب وہاں نہ تو مندر کی کوئی گھنٹی بجتی ہے اور نہ ہی کوئی پوجا کرنے آتا ہے۔ اندر سے اس کی حالت کسی کباڑ خانے سے کم نہیں ہے۔ گو کہ دونوں بھائیوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی اسے آباد کرنا چاہے تو اسے اجازت ہے مگر اب تک اس اجڑے ہوئے مندر کی نہ تو صفائی ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی آنے کو تیار ہے۔

سوچی محلہ میں راما پیر کے دو مندر ہیں، ان مندروں کی باقاعدہ دیکھ بھال ہو رہی ہے، یہ مندر بھی مشترکہ ہندستان میں قائم ہوئے مگر ہندستان میں بابری مسجد کے واقعے کے بعد ان کی اصل عمارات کو تباھ کر دیا گیا، جس کے بعد انہیں دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ جس میں سے ایک مندر 1928 کو تعمیر ہوا تھا۔ مگر دونوں مندروں \"Sivکو دوبارہ تعمیر کرنے کے بعد ان کی اصل حالت اب کسی کو بھی دکھائی نہیں دیتی۔

ٹنڈو ولی محمد میں آج بھی 1895 میں قائم کیا گیا شو مندر ہے، جسے 1945 میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا، اور اس کے نقش و نگار بھی ویسے ہی رکھے گئے ہیں۔ اس مندر کا رقبہ کسی زمانے میں بہت زیادہ تھا مگر بلڈر مافیا نے اس کے آس پاس عمارات تعمیر کر لی ہیں، مندر کی ایک دکان پہ بھی قبضہ ہو چکا ہے۔ جس پر مندر کی انتظامیہ کا بس نہیں چلتا۔

اسی طرح ایک مندر جی او آر کالونی کے قریب سرکٹ ہاؤس میں قائم ہے۔ جسے درگا شو مندر کہا جاتا ہے۔ یہ مندر مختلف وقتوں پہ تعمیر ہوتا رہا ہے اس لیے اس میں اب قدامت نہیں رہی۔ مگر وہاں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ مندر صدیوں سے قائم ہے اور کسی زمانے میں جب دریائے سندھ اس علاقے سے بہتا تھا تو یہ اس کے کنارے پہ آباد تھا۔

تلک چاڑھی کے قریب مندر سکھوں کے روحانی پیشوا گرونانگ سے منسوب ہے۔ اسے مندر کی حیثیت حاصل ہے مگر یہ بھی گردوارا ہے۔ یہ 1938 سے قائم ہے اور اسے حکومت سندھ کا اوقاف ڈپارٹمنٹ سنبھالتا ہے۔ اس مندر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں ایک چھوٹا سا ہوٹل بھی قائم ہے، جہاں شہر کے طالب علم اور شہری \"guruسستے کھانے کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اس مندر میں ہر دسمبر میں میلا بھی لگتا ہے۔ جس میں ہندو برادری شریک ہوتی ہے۔

ویسے تو حیدرآباد کے کافی مندر اور عبادت گاہیں محمکمہء اوقاف کے پاس ہیں مگر اب تک ان کی بحالی کا کام نہیں ہو سکا۔ جبکہ مندروں پہ حملوں کا خوف ہندو برادری کو ہر وقت رہتا ہے۔

اگر ان قدیم عمارات کی دیکھ بھال پہ توجہ نہ دی گئی تو ان کو لوگ اسی طرح فتح کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے، جس طرح محمود غزنوی نے سومناتھ فتح کیا تھا اور ہم ان قدیم عمارتوں کے ورثے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائیں گے۔

 

اختر حفیظ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

akhter-hafeez has 20 posts and counting.See all posts by akhter-hafeez